سعودی عرب میں اللہ تعالی نے سعود خاندان کو حرمین
شریفین کی خدمت کا شرف عطا فرمایا ہے جس پر خاندان سعود کے افراد کو
ناز رہا ہے اور انہوں نے خادم الحرمین شریفین کہلانے میں فخر محسوس کیا
ہے۔شاہ فیصل کی عالم اسلام کے لئے خدمات کو دنیا بھر کے مسلمان کبھی
بھی فراموش نہیں کر سکتے ان کی طرح ہر سعودی بادشاہ کی یہ کوشش رہی
ہےکہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کریں لیکن اس کے
ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی دوستی کی وجہ سے سعود خاندان کے
مقتدر لوگ چاہتے ہوئے بھی اسلام کی خدمت نہیں کر پائے ماضی میں اس کی
بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔
امریکہ جو ظاہری طور پر ایک عرصے سے سعود خاندان کی دوستی کا دم بھرتا
ہے نے مختلف ادوار میں اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے کوئی دقیقہ
فروگزاشت نہیں کیا اس سے بڑی بدبختی کیا ہو گی کہ علامہ ابو الاعلی
مودودی جیسے عالم اسلام کے جید عالم دین اور محقق جن کے علم کی روشنی
دنیا بھر کے مسلمانوں تک پہنچی کی اسلامی کتابوں پر سعودی عرب میں
پابندی عائد کر دی گئی۔ ماضی میں اسی نوعیت کے اقدامات ہوتے رہے ہیں
لیکن سعودی عرب کے آج کے حالات کا جائزہ لیں تو سعود خاندان کے مقتدر
لوگوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جتنا نقصان اسلام کو موجودہ دور میں پہنچا
ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی اور اس حوالے سے تمام تر صورت حال کی
ذمہ داری خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان کے لا ابالی فرزند محمد بن
سلمان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ولی عہد بننے کے بعد سعودی عرب کو ایک
ایسے راستے پر ڈال دیا ہے جس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا
محمد بن سلمان نے جھوٹی دوستی کا دم بھرنے والے امریکی صدر کی ایما پر
سعودی عرب سے نعوذ باللہ اسلام کا جنازہ نکالنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے
اسی لئے سعودی عرب میں ہر غیر اسلامی کام کو سرکاری سرپرستی میں نا صرف
جائز قرار دیا جا رہا ہے بلکہ بہت سے اسلامی احکامات کا مذاق بھی اڑایا
جا رہا ہے ظاہر ہے یہ صورت حال علما کے لئے کسی بھی صورت قابل قبول
نہیں ہے اس لئے سعودی عرب کے مجاہد علما نے محمد بن سلمان کے اسلام
دشمن اقدامات کی کھل کر مخالفت کی ہے یہی وجہ ہے کہ محمد بن سلمان نے
اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں جید
علما کو جیلوں میں ڈال دیا ہے اس ساری صورت حال میں شاہ سلمان انہتائی
مجبور اور لاچر نظر آتے ہیں وہ چاہتے ہوئے بھی محمد بن سلمان کو ایسے
اقدامات سے روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لئے کہ محمد بن سلمان کی
پشت پناہی امریکی صدر ٹرمپ کر رہےہیں محمد بن سلمان کو بھی اس بات کا
احساس ہے کہ وہ سعودی عرب میں اسلام کی بنیادوں کو ہلا رہے ہیں لیکن
صرف اقتدار کے حصول کے لئے وہ ہر طرح کا اقدام کرنے پر تلے بیٹھے ہیں
اسی لئے انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک بیان میں کہا تھآ کہ اقتدار اور
میرے درمیان صرف موت حائل ہو سکتی ہے اس کے علاوہ کوئی بھی شخص ان کے
اقتدار کے خلاف بولے گا تو اس کا انجام موت کےسوا کچھ نہیں ہو گا بد
بختی سے محمد بن سلمان نے اپنی اس بات کو اب تک کے اقدامات کے ذریعے سچ
ثابت کیا ہے ہزاروں جید علما کو بغیر کسی قصور کے جیلوں میں ڈالنا اسی
سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ آہستہ آہستہ
علما کو جیلوں میں قتل کیا جارہا ہے اور راستہ صاف کیا جا رہا ہے اب تک
بہت سے غیر معروف علما کو جیلوں میں تشدد کے ذریعے شہید کیا جا چکا ہے
کیونکہ سعودی عرب میں میڈیا آزاد نہیں ہے اس لئے ان علما کے قتل کی
خبریں باہر نہیں نکل سکتی ابھی کل ہی کی بات ہے جیل میں قید شیخ الحدیث
احمد العمری کو بدترین تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا ہے لیکن سعودی میڈیا
خبروں میں بتا رہا ہے کہ ان کی موت بیماری کی وجہ سے ہوئی ہے لیکن
سعودی عرب کے عوام اور آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے شیخ احمد
العمری کو دوران قید قتل کیا گیا ہے۔ان حالات میں پاکستان سمیت دنیا
بھر کے مسلمانوں کا بالعموم اور علمائے اسلام کا بالخصوص فرض بنتا ہے
کہ سعودی جیلوں میں صعوبتیں سہنے والے علما کی رہائی کے لئے آواز
اٹھائیں ورنہ محمد بن سلمان کے ظلم کی بھینٹ چڑھنے والے علما روز محشر
ہمارا گریبان پکڑ کر یہ ضرور پوچھیں گے کہ ہم نے تو دین خدا کی سربلندی
کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا لیکن تم لوگ ظلم پر خاموش
رہے اور اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں پر خاموش رہے۔محمد بن سلمان کے
جارحانہ اقدامات پر اب شاہ سلمان کو بھی چپ کا روزہ توڑنا ہو گا اسی
میں ہی ان کی بھلائی ہے ورنہ تاریخ ان کو بھی محمد بن سلمان کے باپ کے
طور پر یاد رکھے گی۔ |