سعودی عرب میں اصلاحات اور جدت کا ایک طوفان برپا ہے
اور اسی کے نام پر بہت تیزی سے سماجی اور معاشی تبدیلیاں جاری ہے۔ محمد
بن سلمان کو نئے سعودی عرب کا بانی تک کہا جارہا ہے اور سعودی عرب کے
روشن فکر اور مغربی ممالک ولی عہد محمد بن سلمان کو ایک ایسی شخصیت کے
طور پر دیکھ رہے ہیں جو ایک نیا سعودی عرب تشکیل دے رہا ہے جو روشن فکر
اور جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔
ہمیں روشن فکر اور مغربی دنیا کے محمد بن سلمان کے بارے میں خیالات سے
کوئی لینا دینا نہیں بلکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے سعودی عرب میں جاری
عمل پر تشویش ہے۔ حال ہی میں مسجد نبوی کے امام شیخ احمد العمری کی موت
نے سعودی عرب میں جاری اصلاحی عمل پر کافی سوال اٹھادیئے ہیں۔ شیخ احمد
العمری دینہ منورہ میں جامعہ اسلامی کے قرآن کالج کے سابق سربراہ بھی
تھے۔
شیخ احمد العمری سعودی عرب کے معروف مبلغ اور محمد بن سلمان کی اصلاحات
کی مخالفت اور خاص طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے ناقد رہے ہیں اور
یہی مسئلہ پانچ ماہ قبل ان کی گرفتاری کا سبب بنا۔ حکومت اور سعودی
خاندان کی مخالفت میں گرفتاری ایک معمولی بات شمار ہوتی ہےاور آج بھی
سعودی عرب کی جیلوںمیں ایسے ہزاروں افراد موجود ہیں جنہیں سعودی خاندان
کی مخالفت کی وجہ سے جیل کا سامنا ہے۔ یہاں اہم مسئلہ معروف شیخ الحدیث
اور مبلغ شیخ احمد العمری کی مشکوک موت بلکہ سیاسی قتل ہے جو کسی بھی
صورت ترکی سفارت خانےمیں قتل کیے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے
قتل سے کم نہیں ہے اور اس معاملے پر عالمی برادری کی خاموشی لمحہ فکریہ
ہے۔
شیخ احمد العمری کے خاندانی ذرائع اور خاص طور پر ان کی گرفتاری کے بعد
قطر فرار کرنے والے ان کے عزیز اور شاگرد شیخ صالح الشموری کا کہنا ہے
کہ شیخ احمد العمری کو گرفتاری سے قبل اور جیل میں مسلسل اس بات پر
مجبور کیا جارہا تھا کہ وہ محمد بن سلمان کے اقدامات کی دینی بنیادوں
پر حمایت کا اعلان کریں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کا حکمران خاندان اور خاص طور
پر ولی عہد محمد بن سلمان دنیا کی طاقتور ترین شخصیات میں شمار ہوتے
ہیں اور سعودی سرزمین پر سیاہ و سفید کے مالک تصور کیے جاتے ہیں۔ ایسے
میں یہ لوگ اپنی اقدامات کی تائید کے لیے علماء پر دباؤ کیوں ڈالتے
ہیں؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ سعودی عرب کے علماء اور خاص طور پر امام
کعبہ اور امام مسجد نبوی پوری دنیا میں ایک عظیم دینی شخصیت کے طور پر
جانے جاتےہیں اور سعودی عرب میں جاری اصلاحات کی وجہ سے دنیا بھر کے
مسلمان بے چینی کے ساتھ انہی علماء کی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر یہ علماء ان
کی حمایت نہیں کریں گے تو دنیا بھر کے دینی حلقوں میں سعودی خاندان کی
مقبولیت میں کمی واقع ہوگی۔ جو سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کے وژن
2030ء کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہوگا۔ دوسری جانب ایک تلخ حقیقت یہ
بھی ہے کہ پاکستانی علماء و مشایخ کی جانب سے اس افسوسناک سانحے اور
ریاستی قتل کے خلاف خاموشی مستقبل میں دینی حلقوں کے لیے ایک وبال بن
جائے گی اور یہ الزام کافی حدتک درست تصور کیا جائے گا کہ پاکستانی
علماء اسلامی اصولوں کی پاسداری کے بجائے مفادات کے محافظ بن جاتے ہیں۔ |