حسن، محمد حسن جلدی کریں، ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ بابا
گاڑی میں انتظار کر رہے ہیں۔میں مسلسل آوازیں لگا رہی تھی، مگر محمد
حسن کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ آخر تنگ آ کر میں حسن کے کمرے کی طرف
بڑھی۔ دیکھا کہ وہ اپنے خیالوں میں محو، دنیا سے بے خبر ہو کر اپنے قلم
اور کتابوں میں گم تھا۔ حسن! میری تیز آواز سن کر وہ بھوکھلا گیا اور
اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آیا اور فورا کہنے لگا: جی، ماما جی،
آپ مجھے بلا رہی ہیں۔میں نے غصیلے لہجے میں کہا کہ میں کب سے آپ کو
آوازیں دے رہی ہوں، مگر آپ سن کیوں نہیں رہے۔ ماما وہ وہ۔۔۔۔ اپنی بات
ادھوری چھوڑ کر اپنی کاپی کی طرف دیکھنے لگا۔ بیٹا آپ کیا لکھ رہے ہو؟
میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔آج تو جمعہ ہے۔آگے دو دن
ہفتہ، اتوار تو چھٹی ہے۔ سکول کا کام آ کر کر لیں گے۔میں مسلسل بول رہی
تھی مگر حسن خاموش تھا۔اس کے چہرے پر پریشانی اور آنکھوں میں بے شمار
سوال تھے۔ آج سے پہلے تو حسن نے کبھی ایسا رویہ نہیں اپنایا تھا، آج
پتا نہیں اسے کیا ہوگیا ہے۔ میں بھی پریشان ہوگئی۔بیٹا کوئی بات ہے؟کسی
وجہ سے پریشان ہو کیا؟ بس میرا یہ پوچھنا تھا کہ حسن بولنے لگا اور میں
خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔ ماما وہ گاڑی میں بیٹھی تیرہ سالہ اریبہ
دہشت گرد تھی کیا؟ پولیس انکل نے اسے گولیاں کیوں ماریں؟ کیا پولیس
والے کسی کو بھی مار سکتے ہیں؟؟ ماما وہ بچ جانے والے بچے دہشت گرد
نہیں تھے کہ پولیس انکل نے ان کو نہیں مارا؟ ماما اب وہ تینوں بچے کہاں
رہیں گے؟ ان کے ماما بابا کو تو پولیس انکل نیمار دیا۔ اب وہ کسے ماما
کہیں گے؟کسے بابا کہیں گے؟ انہیں کھانا کون کھلائے گا؟
ماما کاش ان تینوں بچوں کو بھی دہشت گرد قرار دے کر ان کے ماما بابا کے
ساتھ ہی مار دیا جاتا۔ ماما آپ نے دیکھا وہ چھوٹی سی دہشت گرد بچی اپنے
اسلحے یعنی اپنے دودھ کے فیڈر کو گاڑی سے لے کر آئی تھی۔دیکھیں، یہ
دیکھیں ماما، میں نے لکھا ہے کہ یہ میرے ماما بابا ہیں۔ یہ دہشت گرد
نہیں ہیں، انہیں مت مارنا۔میں یہ پیپر اپنی گاڑی پر لگا دوں گا۔ میں نے
بے ساختہ اسے اپنے گلے سے لگایا اور اسے حوصلہ کیا دیتی کہ میرے اپنے
سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میری آنکھیں گزشتہ روز ہونے والی بارش کی طرح
مسلسل بہنے لگیں۔
قارئین! دیکھئے کہ ایک جھوٹ اور اپنی غلطی اور نااہلی کو چھپانے کے لئے
کتنے جھوٹ بولے گئے۔ کبھی کہا گیا یہ اغوا کار تھے، کبھی کہا دہشت گرد
تھے۔کبھی کہا کہ خلیل اور اس کی فیملی اور بچے سب بے گناہ تھے، بس
ڈرائیور کا تعلق دہشتگرد تنظیم سے تھا۔ لیکن حقیقت کچھ اور بتا رہی
ہے۔ایک طرف ملزمان غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنے میں لگے ہوئے
ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم ایک جذباتی
قوم ہے۔ جب کوئی حادثہ یا کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے تو ہم احتجاج،
دھرنے اور مزاحمت کرنے لگ جاتے ہیں۔ اعلیٰ شخصیات فوراً اپنے پروٹوکول
اور کئی درجن سے زائد کیمروں اور میڈیا کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کے
نام پر اپنی حکومت اور ووٹ بینک بڑھانے کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ وعدوں
اور دعوں کے نام پر انہیں نہ ممکن ہونے والی تسلیاں دے کر آجاتے ہیں۔
بس کچھ دنوں میں ہر طرف اور ہرفورم پر اس حادثے کا ذکر اور متاثرین کو
انصاف دلانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ مگر چند دن گزرنے کی دیر ہے ہر طرف
خاموشی ہو جاتی ہے۔ پھر کسی نئے حادثے کا انتظار کیا جاتا ہے شورغل
مچانے کے لئے۔ہم فلسطین، کشمیر، عراق پر ہونے والے تشدد کو دیکھ رہے
ہیں اور خوب بڑھ چڑھ کر غیر مسلموں کو لعن طعن کر رہے ہیں اور انسانیت
کا پرچم بلند کرنے کے لئے اقوام متحدہ تک پہنچ رہے ہیں۔ لیکن اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے بے گناہ لوگوں کو بے دردی سے سرے عام ان کے بچوں کے
سامنے قتل کر رہے ہیں۔اور دنیا کو دکھا رہے ہیں کہ یہ ہے ہمارا اصل
چہرہ۔کسی مجرم کو سزا دینی ہو تو جانچ پڑتال کی جاتی ہے، تصدیق کی جاتی
ہے۔اور اس کو بے گناہ لوگوں سے الگ کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جاتا
ہے۔ یہ نہیں کہ مار کر یہ کہہ دیا جائے کے یہ بے گناہ تھے اور ان میں
ایک کے دہشت گرد تنظیم سے رابطے تھے۔
ہمارا مذہب اسلام تو ہمیں یہ حکم بھی نہیں دیتا کہ ہم قربانی والے
جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح کریں۔اسلام کی تعلیمات تو اس کے
برعکس ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی غزوہ میں جانے لگتے تو آپ
حکم دیتے کہ عورتوں بچوں اور درختوں کو ہر گز نقصان نہ پہنچایا جائے۔
سوچئے کہ ہم کون سے مسلمان ہیں اور ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ہم کس دین
کی پیروی کر رہے ہیں۔
میری چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ ساہیوال واقعہ کا نوٹس لیں
اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دیں تاکہ پولیس فورس کو بھی پتا چل جائے
کہ ماورائے عدالتی قتل پر اب وہ بھی کٹہروں میں ہوں گے۔ |