سی ٹی ڈی……بتا تیری رضا کیا ہے؟

ساہیوال کے علاقے قادر آباد سے کچھ فاصلے پر سڑک کے دونوں اطراف میں گاڑیاں رکی ہوئی تھیں لوگ سہمے ہوئے تھے کوئی گاڑی میں ہی دبکا ہوا تھا تو کوئی ٹرک کی اوٹ سے یہ دل خراش منظر دیکھ رہا تھا فائرنگ کی آواز جسم میں سنسناہٹ پیدا کررہی تھی اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس سی ٹی ڈی کے اہلکار نہتے مردو خواتین اور بچوں پر بلادریغ گولیاں برسارہے تھے گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور گاڑی میں سوار افراد کی فلک شگاف چیخیں ماحول میں ہولناکی پیدا کررہے تھے تقریبا دس منٹ کی یہ کارروائی اور بربریت ختم ہوئی تو ماحول پر چھایا جمود ٹوٹا کچھ لوگوں نے اپنی گاڑیوں میں وہاں سے نکل جانے میں عافیت سمجھی تو کچھ لوگوں نے اس گاڑی کا رخ کیا جس پر دل دہلادینے والی قیامت تھوپی گئی تھی گاڑی میں 6 لوگ خون میں لت پت پڑے تھے جن میں سے 4 چار اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرچکے تھے جبکہ دومعصوم بچیاں زخموں سے چوڑ اور دہشت سے بھرے انداز میں کراہ رہے تھے اور خوف اور غم کے مارے وہ اپنا درد بھی بیان نہ کرسکتے تھے اور لوگوں کے اکٹھا ہونے کی وجہ سے مزید سہم گئے تھے اور مدد کیلئے بھی نہ پکار سکتے تھے۔یہ مناظروہ ابتدائی مناظر تھے جو کیمروں کی آنکھ نے اپنے اندر سمو لئے تھے اور اس بربریت کا نشانہ بننے والے ماں باپ اور بہن کے ساتھ گاڑی ڈرائیور جو کہ لاہور کے ایک چک سے بورے والا اپنے بھائی کی شادی میں شریک ہونے جارہے تھے جو کہ اب ماتم کدے میں تبدیل ہوچکا تھا

قارئین کرام! عرصہ دراز سے پاکستان میں پولیس کلچر اور تھانہ کلچر کی تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اور نئی نئی اصلاحات لا کر ٹل کازور لگایا جارہا ہے کہ کسی طرح پولیس کلچر کو بدیل کردیا جائے نئی فورسز میں پڑھے لکھے افراد کو بھرتی کرکے اور تربیت کے مراحل سے گزا کر عوام کے سامنے پیش کیا جارہا ہے سی ٹی ڈی اور ڈالفن فورسز کے نام پر تھانہ کلچر کی تبدیلی اور سوفٹ پولیسنگ کا طبل بجایا جارہا تھالیکن بعد از طویل کوششوں کے نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ساہیوال والا واقعہ بھی اسی کلچر کا شاخسانہ ہے پولیس انتظامیہ سی ٹی ڈی اور ارباب اختیار کی طرف سے آنے والے مختلف قسم کے متضاد بیانات بہت سے سوالوں کو جنم دے رہے ہیں سب سے بڑا اور اہم سوال کہ اگر پولیس یا کوئی بھی قانون نافذ کرنے والا ادارہ کسی ملزم یا مجرم کو پکڑنے یامزاحمت کرنے کے دوران انکاؤنٹر کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جائے وقوعہ پر اس سے حاصل شدہ مواد (اسلحہ منشیات یا دیگر کوئی بھی لوازمات)کو نہ صرف قبضے میں لے بلکہ ملزم یا مجرم کو اگر زندہ ہے تو حراست میں لے اور اگرمرگیا ہے تو اس کی ڈیڈباڈی کو قبضے میں لے۔جبکہ موجودہ واقعہ میں ’شیر جوانوں‘ نے صرف گولیاں برسائیں بیگ اٹھائے اور جائے وقوعہ سے رفوچکر ہوگئے۔یہ کونسا قانون کونسی پولیسینگ ہے کہ پولیس مقابلہ میں( بقول ادارہ اور اہلکار)مجرم یا دہشتگرد کو گھیر کر ماردیا جائے اور پھر انہیں وہیں چھوڑ کر جائے وقوعہ سے راہ فرار اختیار کرلی جائے اہل دانش و ارباب اختیار کیلئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے

دوسرا یہ کہ اگر دہشت گرد اپنے آپ کو گرفتاری کیلئے پیش کرتا ہے یا ہتھیار ڈال دیتا ہے تو اسے بھی اس طرح سے بربریت کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اسے حراست میں لے کر قانونی تقاضوں اور ضابطوں کے مطابق پابندسلاسل کیا جاتا ہے یا پھر اس کے جرم کی شدت کے مطابق اس کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا ہے

تیسرا یہ ایک اخلاقی جواز جو کہ بحیثیت انسان اور مسلمان یہ ہے کہ معصوم بچوں کی موجودگی میں ان کے والدین بہن بھائیوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لہو ولعب میں نہلادیا جائے جس کے اثرات ان کے معصوم ذہنوں میں وہ تلاطم پیدا کرتے ہیں کہ کسی بھی لمحے ان کی ذہنی و جسمانی کیفیت میں خلفشار کا سبب بن سکتی ہے بقول ماہرین کہ معصوم بچے کہ سامنے اگر والدین کی صرف تذلیل کردی جائے تو ساری عمر اس کا فلیش اس کے ذہن پر قابض رہتا ہے اور وہ اس واقعے کو کبھی نہیں بھول پاتا چہ جائیکہ اس کے والدین کو سفاکی کے ساتھ جنونی انداز میں درجن بھرگولیاں داغ دی جائیں۔بحیثیت مسلمان اتنا حکم بھی نہیں ہے کہ کسی جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح کیا جائے یہاں تو معصوموں کے سامنے ان کی دنیا اجاڑ ی جارہی ہے

چوتھا یہ کہ گذشتہ ایک دہائی سے پولیس کو درست کرنے تھانہ کلچر تبدیل کرنے عوام اور پولیس کے مابین خلیج کو ختم کرنے پبلک اور پولیس کے درمیان اعتماد کی فضاقائم کرنے سوفٹ پولیسینگ کونافذ کرنے کی اب تک کی تمام کوششوں پر پانی پھر چکا ہے عوام کے اذہان و قلوب میں گر تھوڑا بہت گوشہ اس بات کو قبول کرنے پر رضامند ہوا تھا کہ پولیس کا قبلہ درست ہونے جارہا ہے وہ یکدم سے صفر پر آگیا ہے گنتی پھر دوبارہ سے شروع ہوگئی ہے ۔المختصر حکومت وقت بالخصوص عمران خان کو چاہئے کہ وہ حقائق پر مبنی فیصلہ کریں اداروں کی نیک نامی و بدنامی کے چکر میں مت پڑیں پولیس ا فسران جو کہ جے آئی ٹی کا حصہ ہیں اپنے بچوں اور انسانیت کو سامنے رکھتے ہوئے انکوائری کریں ڈنڈی نہ ماریں کیونکہ اگر پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو درست کرنا ہے تو ملوث و مرتکب افراد کو نشان عبرت بنانا ہوگا اوراس امر سے بھی اجتناب برتا جائے کہ انکوائری کے نام پر اسے اتنا لمبا کردیا جائے کہ مدعی خود ہی کہہ دے ’’بتا تیری رضا کیا ہے ‘‘
 

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211538 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More