20جنوری2017ء کوقصرسفیدکے نئے فرعون ٹرمپ نے
اقتدارسنبھالتے ہی دنیابھرکواپنی پالیسیوں سے آگاہ کرتے ہوئے ''سب سے
پہلے امریکا ''کی بنیادپردنیابھرسے امریکی افواج کی واپسی کاعندیہ بھی
دیاتھالیکن اپنے ان بیانات کے برعکس افغانستان میں اپنی جارحیت سے اپنی
پالیسیوں سے مکمل طورپرمنحرف نظرآیااورافغان طالبان کے عزم نے ٹرمپ
کوواپسی کیلئے اس قدر مجبورکردیاکہ اس کوبالآخرگھٹنے ٹیکتے ہوئے فوری
طورپرطالبان سے مذاکرات کے پہلے دورکے بعدپینٹاگون کوافغانستان سے
امریکی افواج کے انخلاء کاحکم دیتے ہوئے فوری طورپر نصف تعدادیعنی سات
ہزار کو واپس بلانے کاحکم صادرکرناپڑا۔جب سے ٹرمپ نے افغانستان کے بارے
میں اپنی نئی پالیسی کااعلان کیاتھا تب سے اس پالیسی میں درجنوں مرتبہ
ترمیم کے باوجودہرمرتبہ ناکامی کامنہ دیکھناپڑا، اوربالآخر افغانستان
میں سابق امریکی سفیرزلمے خلیل زاد کوافغانستان اورپاکستان کیلئے خصوصی
نمائندہ تعینات کرکے مستقل بنیادوں پراس کوحل کرنے کاعندیہ دیا،یوں اب
ایک بارپھرافغانستان میں زلمے کے ذریعے نئے ظلم وستم کی تیاری مکمل
کرلی گئی ہے اورامریکی وزیرخارجہ نے امریکی صدرٹرمپ کواس حوالے سے
اعتماد میں لیاہے۔زلمے خلیل زاد افغانستان میں نہ صرف سفیرکے فرائض
سرانجام دے چکا ہے بلکہ افغانستان سے تعلق ہونے اورپشتون ہونے کی بناء
پراسے افغانستان کے کئی اہم حلقوں تک رسائی حاصل ہے۔زلمے خلیل زادکی
تعیناتی سے قبل افغان جنگ کوبلیک واٹرکے حوالے کرنے پربھی
غورکیاجارہاہے جس سیمصالحت کی آڑمیں دراصل افغانستان میں نئی اور
خوفناک جنگ کی تیاری ہورہی ہے اورافغانستان میں بلیک واٹرکے ذریعے
طالبان کے اہم رہنماؤں کوقتل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔اس حوالے سے بلیک
واٹرکے سربراہ ایرک پرنس کے ساتھ بات چیت آخری مراحل میں ہے اورایرک
پرنس حالیہ دنوں میں دومرتبہ افغانستان کادورۂ کرچکا ہے۔
زلمے خلیل زادکرزئی کے آخری دورِ حکومت میں افغانستان میں امریکی
سفیرتھااوراس نے نہ صرف حامدکرزئی کودوبارہ انتخابات میں کامیاب کروایا
تھابلکہ زلمے خلیل زادکادورہی افغانستان میں انتہائی ظلم وتشددوبربریت
کاخونی دورتھا۔اس کے پانچ سالہ دورمیں ہی بلیک واٹرکو افغانستان میں
تعینات کیاگیاتھاجس نے نہ صرف بے گناہ افغانوں کوشہیدکیا بلکہ اس کے
کئی جاسوس پاکستان میں بھی پکڑے گئے جوبراہِ راست پاکستان میں دہشتگردی
میں ملوث تھے ۔پاکستان کی جوابی کاروائی میں بالآخربلیک
واٹرکوافغانستان اورپاکستان سے فرارہونا پڑاتاہم خلیل زادکی تعیناتی کے
ساتھ افغانستان میں بلیک واٹرکی تعیناتی کی راہ ہموارہوجائے گی
اورافغانستان کوایک بارپھرپیشہ وراوربے رحم قاتلوں کے حوالے کرنے کی
تیاری کی جارہی ہے۔زلمے خلیل زادکرزئی دورِ حکومت میں امریکی سفارتخانے
میں کم اورافغان صدارتی محل میں زیادہ وقت گزارتے تھے اور اکژکہاکرتے
تھے کہ وہ افغانستان کے صدرسے زیادہ بااختیارہیںاوریہی وجہ تھی کہ
کرزئی دورِ حکومت میں ساری اہم تعیناتیوں میںخلیل زادکابنیادی کردارتھا
۔
زلمے خلیل زاد کے روس کے افغانستان پرحملے کے بعدمجاہدین کے ساتھ بھی
خصوصی تعلقات وروابط بھی رہے اورپشاورمیں حکمت یار کے دفترکے باہر
گھنٹوں انتظارکیاکرتے تھے۔ زلمے خلیل زادچاہتے ہیں کہ وہ سابق مجاہدین
کے ساتھ دوبارہ اپنے روابط بحال کریں اوراگرحکمت یار پارلیمانی
انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں اورخلیل زادامریکی فوج کے انخلاء
کیلئے کوئی راستہ نکالتے ہیں تویہ ان کی بڑی کامیابی ہوگی۔امریکازلمے
خلیل زاد کے ذریعے افغانستان کے آئندہ صدارتی انتخابات میں ایک متفقہ
امیدوارلانے کی بھی کوشش کررہے ہیں تاکہ امریکی انخلاء کیلئے راہ
ہموارکی جاسکے۔ خلیل زادکی ممکنہ تعیناتی سے ایک طرف افغانستان میں
کرزئی اوران کے قریبی ساتھیوں کواقتدارمیں واپس لانے کی امیدپیداہوگئی
ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان پر مزیددباؤبڑھانے کی حکمت عملی اپنائی
جارہی ہے کیونکہ خلیل زادامریکامیں سابق پاکستان کے سفیرحسین حقانی کے
ساتھ ان کی اہلیہ کے مختلف پراجیکٹس پر مشترکہ کام جاری ہے۔خلیل زاد
اور ان کی اہلیہ کے حسین حقانی کے ساتھ بڑے گہرے اورخصوصی تعلقات ہیں
اورحسین حقانی کو پاکستانی عدالتوں سے بچانے کیلئے خلیل زاداپنی خصوصی
کوششوں کوبروئے کارلانے کیلئے اپنے تعلقات کواستعمال کرنے کی پوری کوشش
کریں گے تاہم خلیل زادکواس مرتبہ افغانستان اور پاکستان میں کامیابی
ملنابہت مشکل ہے کیونکہ افغان طالبان نہ صرف زیادہ طاقتورہوگئے ہیں
بلکہ افغانستان میں خلیل زادکی تعیناتی پربالکل حیران نہیں ہیں۔
طالبان ذرائع کاکہناہے کہ خلیل زادسمیت کسی بھی امریکی سفیرکی تعیناتی
اب امریکاکے حق میں مفیدنہیں ہے اورنہ ہی بلیک واٹراب بے گناہ افغانوں
کوہاتھ لگاسکتی ہے۔اگر افغانستان میں بلیک واٹرکوتعینات کیاگیایاان
کوافغان جنگ ٹھیکے پردی گئی توطالبان بلیک واٹرسے پرانی کاروائیوں
کابدلہ لینے کیلئے پوری طرح نہ صرف تیارہے بلکہ اس کوسبق سکھانے کیلئے
بیتاب بھی ہے خاص طورپرطالبان قیدیوں پرتشددکابدلہ توضرورلیاجائے
گا۔طالبان اس حوالے سے مکمل مقابلے کیلئے پوری طرح تیارہے۔طالبان ذرائع
کامزید کہناہے کہ بلیک واٹرکی تعیناتی سے افغانستان کے مسئلے کاحل نہ
صرف ناممکن ہے بلکہ امریکانے اب مزیدخسارے کیلئے
تیاررہناچاہئے۔افغانستان کے مسئلے کاسیدھاسادہ حل امریکی انخلاء میں
ہے،امریکاخفیہ مذاکرات بھی کررہاہے اوردہمکیاں بھی دے رہاہے۔طالبان
دونوں محازوں پرامریکاکامقابلہ کرنے کیلئے مکمل تیارہیں ۔
افغانستان میں بھی اب طالبان کوکوئی نہیںروک سکتاہے اوراس امرکااندازہ
اس بات سے لگایاجا سکتاہے کہ شمالی افغانستان میں طالبان نے نادرن
کوریڈورکیلئے ایک اصلاحاتی کمیشن قائم کردیا ہے جس کی روڈکی دوبارہ
تعمیر،پلوں اورخاص کربچیوں کی سکولوں کی تعمیرکیلئے نئے ٹیکس کی شرح
کااعلان کیاہے اوربغلان سے مرکزی افغانستان جانے والے بڑے آئل ٹینکروں
سے تین سو پچاس ڈالرسے لیکرچھوٹی مال مالدارگاڑیوں تک ستر ڈالرٹیکس
لگادیاہے اوراس کیلئے ایساکمیشن بنایاہے جوان پیسوں پرشمالی افغانستان
میں بچیوں کے اسکول،سڑکوں کی دوبارہ تعمیر اورپلوں کی تعمیرکر رہے
ہیں۔اس کمیشن کے سربراہ ملافریدکاکہناہے کہ افغان طالبان افغانستان کے
اصل حکمران ہیں اورمزیدشعبوں میں اصلاحات لائی جائیں گی تاہم خلیل زاد
کی تعیناتی سے موجودہ افغان صدراشرف غنی اوران کے ساتھی ناخوش ہیں
کیونکہ خلیل زادموجودہ حکومت کوافغانستان میں طالبان کے اثرورسوخ
بڑھانے کے ذمہ دارقراردے رہے ہیںکہ کرزئی کے بعدموجودہ صدر شمالی
اتحادکے ہاتھوں نہ صرف بلیک میل ہواہے بلکہ کرپشن پر قابوپانے میں بھی
مکمل طورپر ناکام ہواہے۔ستمبر کے بعدامریکاافغانستان کی موجودہ پالیسی
پرنظرثانی کرے گااورقوی امکانات ہیں کہ امریکاسخت اقدامات اٹھانے
کااعلان کرے گاجواس کے آخری اقدامات ہوں گے۔بعض اہم ذرائع کاکہناہے کہ
خلیل زادکی تعیناتی افغانستان میں امریکی پالیسی کوکامیاب بنانے کی
آخری کوشش ہے اوراس میں ناکامی پرفوری اچانک انخلاء کااعلان بھی
کرسکتاہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے اہم رپورٹوں کے مطابق صدرٹرمپ امریکی محکمہ دفاع
پینٹاگون کی حکمت عملی سے قطعی مایوس ہوچکے ہیں چنانچہ انہوں نے بلیک
واٹرکے بانی ایرک پرنس کی اس تجویز پر غور کرناشروع کردیاہے کہ افغان
جنگ کوپرائیویٹ ٹھیکیداروں کے حوالے کردیاجائے ۔بلیک واٹرکے بانی نے
گزشتہ سال افغان جنگ سے متعلق امریکی کمانڈر انچیف کی نظرثانی کے دوران
ٹرمپ کومشوردیاتھاکہ وہ پرائیویٹ مسلح افرادسے مدد لیکر افغانستان
پرتسلط جاری رکھ سکتے ہیں۔ایرک پرنس کے خیال میں امریکی محکمہ دفاع نے
جوکچھ مانگا اسے دیاگیا لیکن اس کے خاطرخواہ نتائج برآمدنہیں
ہوئے۔افغانستان میں شدیدجانی مالی وجانی نقصانات کے بدلے میں
امریکااوراس کے اتحادیوں کوکچھ نہیں ملا،نتیجہ یہ کہ انہیں اپنے ڈیڑھ
لاکھ کے قریب فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلاناپڑا۔امریکاکے
14ہزارفوجی افغانستان میں موجودہیں جوکٹھ پتلی افغان حکومت کے تحفظ میں
لگے ہوئے ہیں۔وہ ملک سے طالبان کوزورتوڑنے میں بری طرح ناکام ہوئے رہے
جوغزنی سے کابل کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان طالبان کاملک کے سترسے اسی
فیصدعلاقوں پرقبضہ یاشدید ترین اثرونفوذہے۔اشرف غنی خوداوران کی حکومت
کے ارکان کابل کے صدارتی محل اورصدارتی عمارتوں سے باہرنکلنے کی ہمت
نہیں کرتے جبکہ امریکی فوجیوں کی جانب سے ان کے تحفظ و سلامتی کے
زبردست انتظامات کئے جاتے ہیں۔امریکاکے بعدافغان طالبان بھی اپنے ملک
سے جنگ ختم کرنے کیلئے مذاکرات کیلئے آمادہ ہیں تاہم طالبان قیادت
کاکہناہے کہ جب تک افغانستان پر''غیر ملکی فوجی قبضہ''جاری رہے گا،جنگ
ختم نہیں ہو سکتی۔طالبان اپنے ملک میں امریکی فوجی دستوں کی موجودگی
کوغیرملکی قبضے کانام دیتے ہیں اوراس کامکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔گزشتہ
چنددن کے دوران کابل کے اردگردطالبان کے حملوں اوردارلحکومت کی جانب ان
کی تیزی سے پیش قدمی کے باعث ،جہاں امریکی تربیت یافتہ کٹھ پتلی حکومت
کے سرکاری فوجی خوفزدہ ہیں، اس کے ساتھ ہی وہاں موجود امریکی فوجیوں کے
حوصلے بھی پست ہوتے جارہے ہیں اوروہ ہر صورت میں افغانستان سے
نکلناچاہتے ہیں۔
سترہ سال کے قبضہ وتسلط کے بعدامریکاکواپنی مکمل شکست اورپسپائی کاداغ
قبول نہیں،اس لئے اب بلیک واٹر کی خدمات حاصل کرنے پرغورکیا جا رہا
ہے۔یادرہے کہ بلیک واٹرکرائے کے فوجیوں پرمشتمل ایک ایسی
خونخوارپرائیویٹ تنظیم ہے جو 1997ء میں سابق بحری افسراوراربوں ڈالرکے
مالک ایرک پرنس نے قائم کی تھی۔مختلف ملکوں خاص طور پر عراق میں
دہشتگرد سرگرمیوں سے بدنامی کے بعداس کانام پہلے تبدیل کرکے'' ایکس
ای'' کیاگیا لیکن اب یہ "ایکمی" کہلاتی ہے۔ابتدائی طورپراسے امریکی
فوجیوں کیلئے تربیتی سہولتیں اورانفراسٹرکچرفراہم کرنے کیلئے قائم
کیاگیاتھالیکن بعدمیں اسے کچھ ملکوں میں امریکاکی وحشت اوردہشت قائم
رکھنے اور پھیلانے کیلئے استعمال کیاجانے لگا۔آہشتہ آہستہ بلیک
واٹرنیاپنادائرہ کاروسیع کرناشروع کیاتواس نے فوجی سامان کی
ترسیل،بحرانوں پرقابوپانے،سفری سہولتیں فراہم کرنے،سیکورٹی کے امور
سنبھالنے اورآپریشنزکی ذمے داریاں بھی قبول کرنی شروع کردیں۔
ادھرپاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے عہدے کا حلف
اٹھاتے ہی پہلی پریس بریفنگ میں خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے
اور سفارتی مشنز کی بلاجواز اکھاڑ پچھاڑ نہ کرنے کاعندیہ دیاتھا۔ شاہ
محمود قریشی حکمراں جماعت میں ایک اہم مقام بھی رکھتے ہیں ۔ پاکستان
مسلم لیگ سے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں آنے والے شاہ
محمود قریشی پاکستان پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں بھی وزیر خارجہ رہ چکے
ہیں اور انہیں پاکستان کو درپیش خارجی معاملات پر مشکلات کا ادارک ہے۔
پاکستان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ اس وقت امریکی انتظامیہ بنی ہوئی ہے او
ر نئی حکومت کو بھی امریکی انتظامیہ نے اپنے پیغام میں سابقہ رویوں کو
ہی دہرایا ہے۔ امریکی اعلی عہدیدار نے امریکی پالیسی کے عنوان سے
صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام
لگادیا کہ دہشتگرد گروپ پاکستان کی سر زمین میں موجود ہیں ۔ایک طرف
امریکا نے زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف
کاروائی کرے یا افغانستان دھکیلے اوردوسری طرف طالبان کومذاکرات کی
میزپرلانے کیلئے پاکستان کے تعاون کوبھی سراہاجارہا ہے۔
اپنی گفتگو میں امریکی محکمہ خارجہ کی اعلی عہدیدارکاکہناتھاکہ
امریکاپاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے اور
امریکی حکومت پاکستان کی سرحدوں کے دونوں جانب امن کی اہمیت سے متعلق
وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان کا خیرمقدم کرتی ہے۔ افغانستان اور خطے
میں سکیورٹی کی صورتِ حال سے متعلق ایک سوال پر ایلس ویلز کا کہنا تھا
کہ افغانستان کی صورتِ حال میں بہتری کے لیے پاکستان کا کردار بہت
بنیادی ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ یا
توافغان طالبان کوبامقصد مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے سخت اقدامات کرے
یا پھر انہیں اپنی سرزمین سے بے دخل کرکے واپس افغانستان جانے پر مجبور
کرے۔ امریکی عہدے دار نے ایک مرتبہ پھر خطے میں بھارت کے کردار کو
بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ۔ پاکستانی حکام ان الزامات کی تردید کرتے
آئے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سرحدی علاقوں
میں پاکستانی فوج کی کارروائیوں کے بعد ایسے تمام مبینہ ٹھکانے ختم کیے
جاچکے ہیں لیکن امریکاپاکستان کے موقف پراپنی ضد اورڈومورکوترجیح دیتے
ہوئے پاکستان پردباؤبڑھانے کی ہرسطح پرکوشش کررہاہے،یہی وجہ ہے کہ
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا
دورہ کرنے کے بعدکوئی مشترکہ اعلامیہ سامنے نہیں آیاجبکہ شاہ
محمودقریشی نے "ڈوموڑ"کے بار ے میں جاری پروپیگنڈے کی سختی سے تردیدکی
ہے۔
اپنی دو تقاریر میں عمران خان نے امریکا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو
برابری کی سطح پر قائم رکھنے کا عندیہ دیا تھا ۔ لیکن گذشتہ حکومتوں کے
بھی اس قسم بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ نئی حکومت کیلئے امریکی انتظامیہ
کا رویہ کس قدر معاوندانہ ہوتا ہے اس کا اندازہ تو امریکی عہدے داروں
کے ان نئے بیانات سے ہورہا ہے کہ امریکا پاکستان کو درپیش معاشی
دشواریوں کی آڑ میں دبا ؤبڑھا کر ماضی کی طرح مطالبات کو منوانے کی
کوشش کرسکتا ہے۔ نئی حکومت سے اس بات کی توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ
امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کرنے کیلئے سرد ست سخت عمل کا
مظاہرہ کرے گی کیونکہ پاکستانی معیشت بہرحال اس وقت امریکی مالیاتی
اداروں کے چنگل میں ہے اور کسی بھی معاشی کمزور حکومت کیلئے اس وقت سخت
اقدامات لینا نہایت دشوار گزار فیصلہ ہوگا۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکا کے ساتھ تعلقات کی سرد
مہری کو کس طرح کم کرسکتے ہیں اس کا باقاعدہ لائحہ عمل سامنے نہیں آیا
ہے۔ نئی حکومت کی جانب سے مستقبل کی پالیسیوں کے حوالے بڑے دعوے تو
سامنے آرہے ہیں لیکن زمینی حقائق کے مطابق لائحہ عمل کا ایسا کوئی
منصوبہ بہرحال نہیں آسکا ہے جس کے بعد یہ رائے قائم کی جاسکے کہ پاک
امریکا تعلقات میں تنا ؤکم ہوسکتا ہے۔ نومنتخب وزیر اعظم عمران کی جانب
سے یہ اعلان بھی سامنے آ چکا ہے کہ وہ تین مہینے دوران کسی بیرون ملک
دورے پر بھی نہیں جائیں گو کہ وزیر اعظم کا حلف اٹھانے سے قبل عمران
خان کو بھارت ، افغانستان ، ایران او ر پھر چین سمیت دیگر ممالک سے
دورے کی دعوت مل چکی تھی جس کے بعدسعودی عرب۔متحدہ امارات،ترکی اور چین
کے دوروں کاانتہائی کامیاب قراردیتے ہوئے قوم کوطفل تسلیوں سے
بہلایاجارہاہے اوردوسری طرف شاہ محمودقریشی اقوام متحدہ کے اجلاس میں
شرکت کے بعد افغانستان میں دیرپااورمستقل امن کیلئے خطے کے پڑوسی ممالک
کے ہنگامی دوروں میںمشاورت مکمل کرچکے ہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی
مندوب ملیحہ لودھی نومنتخب وزیر اعظم سے بنی گالہ میں ملاقات کرچکی تھی
جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے حوالے سے بریفنگ بھی دی تھی۔
تاہم اس وقت پاکستان جن مسائل کا شکار ہے اس سے باہر نکلنے کیلئے
پاکستان کی نئی حکومت کو ابتدا ہی میں بڑے سفارتی چیلنج کا سامنا کرنا
پڑگیا ہے۔
ادھرافغانستان میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال اورکابل دوہری حکومت کی
عسکری کمزوریوں اور پاکستان پر الزام تراشیوں کی روش پاکستان کی نئی
حکومت کیلئے ایک بڑے چیلنج کا درجہ رکھتی ہے۔ شاہ محمود قریشی نو آموز
وزیر خارجہ نہیں ہیں ۔ پاک امریکا تعلقات کے علاوہ پڑوسی ممالک کے ساتھ
تعلقات کے مد و جزر کو اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں ان مشکلات کا بھی
ادارک ہے کہ ان کیلئے ان مشکلات کو انفرادی حیثیت میں دور کرنا ممکن
نہیں ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت اور ان پالیسیوں کو لیکر چلنا سول
حکومت کیلئے بھی ایک امتحان ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں ماضی
میں جو مشکلات درپیش رہی ہیں اب سول،ملٹری تعلقات احسن اندازمیں آگے
بڑھ سکیں ۔ عموما ًیہی ہوتارہا ہے کہ امریکی عہدیدارسول حکومت سے
علیحدہ اور عسکری قیادت سے جداگانہ ملاقاتیں کرکے یہ تاثردیتی رہی ہے
کہ پاکستان کی سول و ملٹری قیادت ایک صفحے پر نہیں۔ سابق حکومت میں ایک
مرتبہ ایسا عمل ضرورہوا جب سول و ملٹری قیادت نے ایک ساتھ بیٹھ
کرامریکی اہم عہدیدارسے ملاقات کی اورپاکستانی مؤقف پردونوں سول ملٹری
قیادت نے یکجا ہوکرایک مثبت پیغام دیاچونکہ عمران خان تبدیلی کا نعرہ
لیکر آئے ہیں اورامریکاکے ساتھ ماضی کی غلطیوں کاازالہ کرنے کادعویٰ
کرتے ہیں توان کیلئے یہ امتحان بھی ہے اوران کے بلندبانگ دعوؤں
کاامتحان بھی۔
عمران خان وزیراعظم بننے کے بعدعالمی سیاست کی پرخاروادی میں قدم رکھ
چکے ہیں اوراب ان کے ساتھ ان کے وزیرخارجہ کابھی کڑاامتحان ہے کہ آئندہ
دنوں میں امریکاکوکس طرح مطمئن کر پاتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردوں
کے ٹھکانے موجودنہیں ہیں۔سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اورعسکری قیادت
توکئی بارامریکاکوباورکراچکے تھے کہ پاکستان میں دہشتگردوں کی پناہ
گاہوں کا قلع قمع کیا جاچکاہے لیکن افغانستان میں پاکستان کی بقا
وسلامتی کے دشمن بہرحال موجود ہیں جن کے خلاف امریکا اورافغانستان کی
دوہری حکومت قابل ذکر کوئی کردارادا نہیں کررہی۔ عام انتخابات میں
افغانستان کی سرزمین میں موجود دہشتگردتنظیموں نے پاکستانیوں کا بڑا
جانی نقصان کیا تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان کے خلاف امریکا اور
افغانستان کی ہرزہ سرائی میں کمی واقع نہیں ہورہی۔ کابل میں حالیہ
دھماکوں کاالزام کابل حکومت نے ایک مرتبہ پھرپاکستان پرعائد کرتے ہوئے
اعتماد کی فضا کونقصان پہنچایا ہے۔ کابل حکومت افغان طالبان کی بڑھتی
قوت سے سخت خوف زدہ ہوچکی ہے۔افغان طالبان جب چاہتے ہیں کسی بھی شہر
میں بڑاحملہ کرکے افغان سیکورٹی فورسز کوشدید نقصان پہنچاتے ہیں اور
حملے کے بعد اپنی قوت کا مظاہرہ کرکے واپس اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں
بھی چلے جاتے ہیں۔ یہ عمل کابل حکومت اور امریکی انتظامیہ کیلئے دنیا
بھر میں سبکی کا باعث بنا ہوا ہے ۔ افغانستان کا دارالحکومت کا صدراتی
محل بھی اب مزاحمت کاروں کے حملوں سے محفوظ نہیں رہاہے۔افغانستان کی
99ویں یوم آزادی کی تقریبات اور صدارتی محل میں صدر اشرف غنی کی تقریر
کے دوران مسلح راکٹ حملوں سے دنیا بھریہ پیغام ایک مرتبہ پھر گیا کہ
کابل دوہری حکومت کی عمل داری مکمل طور پر کمزور ہوچکی ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان اپنے سیاسی جلسوں میں کئی بارایسی
مناظرچلاچکے ہیں کہ امریکا،ماضی میں پاکستانی صدرکاکس طرح استقبال
کیاکرتے تھے بقول عمران خان اب پاکستان کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ منتخب
وزیراعظم کے کپڑے تک اتارلئے جاتے تھے۔ سفارتی معیارو اقدارکے مطابق
ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ کسی بھی ملک کا ہم منصب اپنے ہم منصب سے ہی
ملاقات وگفت وشنید کرے،پاکستانی قوم اس بات کی توقع نومنتخب وزیراعظم
سے بلاشبہ ان کی تقاریرکی روشنی میں بجاطورپرکررہی تھی لیکن وزیراعظم
عمران خان امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوکے پاکستانی دورے میں ان سے
ملاقات کیلئے کیوں مجبورہوگئے تھے،اس کاجواب تووہ خوآج تک دینے سے
قاصرہیں۔ بظاہر یہ ایک مشکل عمل ہے لیکن یہ ناممکن نہیں ہے
کیونکہپاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت اور اصولی مؤقف کی وجہ سے امریکی
انتظامیہ کے اہم عہدیدارکے ساتھ برابری کی سطح پر گفت وشنیدکرچکاہے۔
امریکا،پاکستان پرجتنادباؤبڑھاناچاہتاتھاوہ بڑھاچکا،امریکاکوپاکستان کی
جتنی امدادکم کرناتھی وہ اس نے کم کردی،بھارت کی چاپلوسی کے تمام
ریکارڈامریکاتوڑچکاہے۔افغانستان کے دشنام طرازیوں کی پشت پناہی میں کسی
قسم کی کسر نہیں چھوڑتا تو پھر اس کے بعد امریکا کا پاکستان پر دبا
ؤبڑھانے کیلئے کیا کردار رہ جاتا ہے؟ مذہبی عدم برداشت کی واچ لسٹ میں
پاکستان کو شامل کراچکا ہے ۔ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کیلئے ایف ٹی ایف
کی گرے لسٹ میں نام دوبارہ داخل کرچکا ہے ۔ بلیک لسٹ میں پاکستان کا
نام ڈلوانے کی ہر سعی کرچکا ہے۔ سی پیک منصوبے پر امریکی عزائم ڈھکے
چھپے نہیں ہیں ۔دیامیرمیں پانی کی قلت کودورکرنے کیلئے ڈیم بنانے کی
اشدضرورت ہے لیکن مالیاتی اداروں کوامریکا ڈکیٹیشن دے چکا ہے کہ دیا
میراور بھاشا ڈیم پرپاکستان کی مالی امداد نہ کی جائے،یہاں تک کہ ابھی
پاکستان نے اپنے قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف میں بیل آؤٹ
پروگرام کی کوئی درخواست بھی نہیں دی تھی کہ مالیاتی ادارے کوامریکانے
براہ راست ڈکٹیشن دے کر پاکستان کو بیل آؤٹ فنڈ دینے سے منع
کردیا۔امریکانے پاکستان کے فوجیوں کی تربیتی پروگرا م کوبھی ختم
کردیااورحالیہ بجٹ میں مختص فنڈزمیں ختم کردیا ۔
پاکستان کواپنی مربوط اوردوررس خارجہ پالیسی بنانے کیلئے جہاں عسکری
قیادت کی تجاویز کی ضرورت ہوگی وہاں پارلیمنٹ کوبھی اعتماد میں لیکرایک
ایسی پالیسی منظور کرانی ہوگی جس کے بعدکسی بھی عالمی قوت کے دبا ؤکو
برداشت کرنے اور اسے جواب دینے کیلئے وزارت خارجہ کو پریشانی کا سامنا
نہیں ہوگا ۔پاکستان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا دلچسپ ہے کہ
''یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے''لیکن اب حالات و واقعات و
عالمی سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ اس بات کا ادارک بھی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ہوگا کہ لفاظی سے پاکستان کے مسائل
کوختم یاکم نہیں کیاجاسکتا۔اس کیلئے پارلیمان کواعتماد میں لیکرجرأت
اورخود اعتماد ی کا مظاہرہ کرناہوگاکیونکہ اس وقت پاکستان جس نازک
دورسے گزررہاہے اس کی درستگی کیلئے کافی وقت،قوت ووسائل درکارہوں گے
تاہم پاکستان کوان دنوں خطے کے بدلتے حالات سے فائدہ اٹھانے کیلئے روس
اورچین کی مشاورت کے بعدامریکاکے بڑھتے ہوئے دباؤکا مقابلہ کرنے کی
ضرورت ہے۔
افغانستان میں کابل دوہری حکومت ایک مرتبہ پھر افغان طالبان کو مشروط
مذاکرات کی پیش کش کرچکی ہے جس کا پاکستان نے بھی خیر مقدم کیا ہے ۔
کابل حکومت نے عید الفطر کی طرح افغان طالبان سیایک مرتبہ پھر تین
مہینے کی جنگ بندی کی بھی اپیل کی ہے جیسے افغان طالبان مسترد کرچکا ہے
کیونکہ عید الفطر میں سیز فائر سے غلط فائدہ اٹھا کر افغان طالبا ن کے
اجتماع کو جانی نقصان اور غلط پروپیگنڈا کیا گیا تھا ۔ اس وقت افغان
طالبان کی مسلح مزاحمت پوری قوت کے ساتھ کابل حکومت اور امریکی
اتحادیوں کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت نئی حکومت آئی
ہے لیکن اس کے باوجود امریکا و کابل حکومت کے ساتھ افغان طالبان کو
مذاکرات کے میز پر لانے کاکٹھن مرحلہ کسی حدتک کامیاب ہوچکاجس کے
بعدقطرکے بعد باقاعدہ ماسکومیں پہلادورہ منعقدہوا ۔ چین ، ایران اور
روس کے ساتھ پاکستان کی سہ فریقی کانفرنسوں کے بعد افغان طالبان کا
امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے اصولی مؤقف کو بھی دیکھنا پاکستان
کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم عمران خان بھی جنگ کے بجائے مذاکرات کے
حامی ہیں لیکن اس کیلئے دشوار راستوں کو ہموار کرنے کیلئے امریکا اور
نیٹو اتحادیوں کو اپنے مؤقف میں مزید لچک پیدا کرنا ہوگی ۔ خاص طور پر
افغان طالبان اورسعودی حکومت کے درمیان تعلقات میں جو دوریاں پیدا ہوئی
ہیں ،اس نے افغانستان کے مسئلے کو مزید گھمبیر بنادیا ہے۔متحدہ عرب
امارات اور سعودی حکومت ماضی کے بجائے اس بار امریکی مفادات کو ترجیح
دے رہے ہیں جس پر افغان طالبان کے امیرنے عید الاضحی میں دیئے گئے
پیغام میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب کو اپنا پرانا
مؤقف اپنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا کہ جس طرح سعودی حکمرانوں نے روس
کی جنگ میں افغان طالبان کی اس لئے مدد کی تھی کہ سوویت یونین جارح تھا
،اسی طرح امریکا بھی ایک جارح مملکت ہے جس نے افغانستان میں بزور طاقت
قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے جو 17برسوں میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے ۔
زمینی حقائق پاکستان کیلئے بڑے دشوارگزارہیں کیونکہ ایک جانب پاکستان
نے لاکھوں افغان مہاجرین کو مملکت میں پناہ دی ہوئی ہے جسے کابل حکومت
واپس لینے میں لیل وحجت کررہی ہے تودوسری جانب پاکستان سوویت یونین کی
جنگ کے مضمرات سے باہر نہیں نکل سکااور افغان،سوویت یونین جنگ کے مسلح
گروپوں نے پاکستان میں محفوظ پناہ گائیں بنا لی تھیں جن کو پاکستانی
افواج نے بڑی قربانیوں کے بعدمکمل طورپرخالی کروالیاہے۔اب اگر پاکستان
افغان طالبان کے خلاف امریکی وسعودی پالیسی پرمصررہتاہے اوراس جنگ
کاحصہ بنتاہے جس کامطالبہ امریکا کررہا ہے توایسی جنگ کامتحمل پاکستان
نہیں ہوسکتا۔پاکستان کے نومنتخب وزیراعظم عمران خان اوروزیر خارجہ شاہ
محمود قریشی خارجہ پالیسی کب بناتے ہیں اوراس خارجہ پالیسی پرعمل
پیرابھی رہ پاتے ہیں،یہ آنے والاوقت بتائے گاتاہم نئی حکومت سازی کے اس
موقع پر امریکی منفی بیانات اورڈومورکے مطالبے انتہائی مشکل کاسبب بننے
کے امکان ہیں وہیں اشرف غنی کی طرف سے افغانستان کی نئی منتخب پارلیمنٹ
سے قبل شمالی اتحادکے دواہم رہنماؤں کو وزیرداخلہ اوروزیرخارجہ کے
عہدوں پرتعینات کرکے مستقبل میں افغانستان میں خانہ جنگی کا ماحول
پیداکرنے کے ابتدائی اقدامات کی بنیادرکھ دی ہے ہیں ۔یادرہے کہ یہ
دونوں عہدئداراس سے قبل افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ بھی رہ
چکے ہیں اورجوبھارت کے ایماء پرپاکستان میں دہشتگردی کے کئی منصوبوں
میں شریک رہیں ہیں۔
ادھرایک بارپھریہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ امریکی انتظامیہ بھی
افغانستان کی موجودہ صورت حال سے سخت نالاں ،بیزاراوربھاری جانی ومالی
نقصانات کی وجہ سے افغانستان کی جنگ کو امریکی فوجیوں کی جگہ پرائیوٹ
سیکورٹی ادارے بلیک واٹرکو ٹھیکہ پردینے کیلئے پرتول رہی ہےجوانسانی
حقوق کی سخت خلاف ورزیوں کی وجہ سے سفاک و بدترین قاتلوں کی دہشتگرد
تنظیم قراردی جاچکی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق
ایرک پرنس نے بلیک واٹر کی بدنامی کے بعدکمپنی بیچ کر ایک نئی سیکیورٹی
کمپنی قائم کر لی اوراب وہ اس کیلئے افغانستان کاکنٹریکٹ حاصل کرنا
چاہتے ہیں۔ارب پتی امریکی کاروباری شخصیت ایرک پرنس نے افغانستان میں
امریکاکی جنگ پرائیویٹ کمپنی کودینے کی تجویز پیش کی ہے جس پراطلاعات
کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ دلچسپی لے رہی ہے جب کہ کئی عہدیداراس
تجویزکوگمراہ کن قراردے رہے ہیں۔ ایرک پرنس افغانستان کی جنگ ٹھیکے پر
حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ میڈیا مہم چلا رہا ہے ۔ ایرک پرنس افغانستان
کی جنگ میں45/ارب ڈالر سالانہ امریکی اخراجات کی جگہ 10ارب ڈالراور 90
پرائیوٹ طیاروں کے ساتھ کام کرنے کی تجویزامریکاکو دے رہا ہے ۔
ایرک پرنس گزشتہ ایک برس سے اپنے منصوبے پرامریکی انتظامیہ کوقائل کرنے
کی کوشش کر رہا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے
امریکی فوجیوں کی ناکامی اور بھاری اخراجات کی لاحاصل جنگ سے باہرنکلنے
کیلئے ایرک پرنس کی تجویزپرغورکرناشروع کردیاہے۔نئی افغان حکمت عملی کا
ایک سال مکمل ہونے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے
ایرک پرنس کو امید ہے کہ اس بار ان کا منصوبہ توجہ حاصل کرنے میں
کامیاب رہے گا۔این بی سی نیوزنے پچھلے ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں
بتایاتھا کہ صدرٹرمپ پرنس کی نئی ویڈیو سے متاثر دکھائی دیتے ہیں اور
نیوی سیل کے سابق عہدے دار کے منصوبے میں دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ
انہیں افغانستان میں امریکی حکمت عملی ناکام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اگر پرنس افغان جنگ کا ٹھیکہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو
جاتے ہیں توہزاروں امریکی فوجی اپنے گھروں کوواپس چلے جائیں گے اور ان
کی جگہ نسبتاًکم تعداد میں پرائیویٹ سیکیورٹی اہل کار لے لیں گے جنہیں
90 طیاروں پر مشتمل ایک پرائیویٹ ایئر فورس کی مدد حاصل ہو گی۔ پرنس کا
کہنا ہے کہ ان کی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی امریکا کی افغانستان حکمت
عملی کو آگے بڑھائے گی اور پرنس کے بقول ان کی کمپنی افغانستان میں
امریکاکے ایک وائسرائے کے طور پر کام کرے گی۔بلیک واٹرکانیانام کچھ بھی
ہو،یہ اب تک پرانے نام سے ہی پہچانی جاتی ہے ۔
امریکاکے موجودہ انتہاء پسنداورجنونی صدرٹرمپ افغانستان کیلئے اس
دہشتگردتنظیم کی خدمات حاصل کرنے پرغورافغان مسئلہ حل کرنے سے زیادہ
،اسے مزیدپیچیدہ اورخطرناک بنادے گا۔اسی لئے امریکی سیکورٹی کونسل کے
کے ترجمان کوفی الحال یہ وضاحت کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ افغانستان میں
بلیک واٹرتنظیم کوجنگ کی ذمے داری دینے پرکوئی غورنہیں کیاجارہاہے۔ |