ابو داؤد تقریباً پچاس برس کاتنومند شکل صورت
سے عربی وہسپانوی مخلوط نسل معلوم ہوتا تھا۔ وہ اکثر سیاہ جبہ اور سفید
عمامہ پہنتا تھا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا ، پہلے بادشاہ اور پھر ملکہ کے
ہاتھ کو بوسہ دیا اور دو تین قدم پیچھے ہٹ کر باادب کھڑا ہوگیا ۔بادشاہ
نے احترام سے کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تشریف رکھئے کہا۔ ــ‘‘وہ
انہیں باور کروانا چاہتا تھا کہ آپ کے سامنے محض کھڑا ہونا بھی میرے
لئے بڑی عزت کا مقام ہے ۔فرڈی نینڈ نے کہا ‘‘ ابوداود بلاشعبہ قدرت نے
آپ کو عقل سلیم سے نوازا ہے ہمیں آپ کی زہانت کا ایک اور امتحان مطلوب
ہے ۔ابوداود جوپہلے سے ہی ایسے موقع کی تلاش میں تھا اس لئے غلام نے
آقا کے حکم کی تعمیل میں زرہ تعمل کئے بغیر ہاں می بھر لی اور کہا کہ
غلام غرناطہ جانے کے لئے تیار ہے ۔‘‘ تم جانتے ہوگے کہ وہاں جاکر آپ نے
کیا کرنا ہے ؟ـــ‘‘ابوداود نے فوراً کہا کہ سب سے پہلے غرناطہ میں
انتشار برپا کرنے کے لئے تخت کا نیا دعویدار پیدا کرنا ہوگا مذید کیا
کرنا ہے وہاں پہنچنے پر فیصلہ کیا جائیگا ۔البتہ انہیں اتنا معلوم ہو
چکا تھا کہ ابولحسن کے ایک صاحبزادے سے یہ کام لیا جا سکتا ہے ۔بہر حال
ابوداوٗد نے کہا کہ مجھے اپنی بیوی بچوں سمیت جانا ہوگا کیونکہ مجھے
وہاں اپ کی افواج کے لئے شہر کے دروازے کھلوانے تک بنا شک و شبعہ کے
رہنا ہوگا ۔اب بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ غرناطہ میں کیسے داخل ہو ؟ابودوٗد
نے ایک انوکھا حل تجویز کیا کہ ہم اپنے خاندان سمیت بادشاہ کے ستائے
ہوئے پناہ گزینوں کی صورت میں غرناطہ کی سرحد عبور کرینگے جب کہ آپ کی
افواج ہمارا پیچھا کرتی نظرآئیں گی اور پھر میری بیٹیاں وہاں لوگوں سے
اپ کی حکومت کے مظالم کی داستانیں بیان کریں گی اور میں اپنی خوبصورت
بیوی کی وساطت سے ابوالحسن کے حرم تک رسائی حاصل کروں گا ۔یہ سنتے ہی
فرڈی نینڈ نے فاتحانہ انداز میں کہا ۔‘‘ ابو داود تم یقین رکھو کہ
تماری خدمات کو فراموش نہیں کیا جائیگا اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ غرناطہ
کی فتح کے بعد اپ ہمارے پہلے گورنر ہونگے اور جب تک اندلس کا تخت ہمارے
قبضہ میں رہے گا غرناطہ کی گورنری آپ کے پاس رہیگی چاہو تو تحریر دیدوں
۔‘‘ خادم کے لئے حضور کی زبان تحریر سے کم نہیں ‘‘۔
بارش زوروں پر تھی اور سیاہ ترین اندھیری رات میں ابوداود اس کی بیوی
اور دونوں بیٹیاں چار گھوڑوں پر سوار غرناطہ کی پہلی چوکی پر پہنچے تب
ان کا پیچھا کرتے فرڈی ننڈ کے بیس سپایؤں نے ان کے گھوڑوں کو زخمی
کردیا تھا ۔کافی دیر بھاگنے کے بعد بگھی کے سامنے سے تیس چالیس گھوڑوں
پر سوا رایک دستہ نمودار ہوا ،جلد ہی بگھی کو گھیرے میں لے لیا اور اﷲ
اکبر کے نعرے بلند کئے ۔ابوداود کا پلان کامیاب ہوچکا اور حریت پسند
انہیں مسلم پناہ گزین سمجھ کر باحفاظت اپنے ٹھکانے پر لے گئے ان کے
قیام کا اہتمام کیا اور انہیں بظائر ان کی قربانی کے باعث اپنے کارواں
میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا، میزبان اس بات سے قطعی نابلد تھے کہ
ابوداود ان کے لئے کیا تباہی کا سامان لایا ہے ،دوران گفتگو ایک ساتھی
نے سوال کیا کہ آپ اتنے صاحب علم ہیں، گفتگو میں پر کشش ہے تو پھر آپ
کی بیوی بچے مسلمان کیوں نہ ہوئے جواباً ابوداود نے کہا کہ میری پہلی
بیوی مسلم تھی اس کی بیٹی بھی مسلم ، اس کے گزرجانے کے بعد میں نے ایک
عیسائی خاندان کی لڑکی سے شادی کی جب کہ میں جانتا تھا کہ یہ اسلام میں
داخل نہیں ہوگی لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ عیسائی مملکت میں میں ایک
لبرل مسلمان سمجھا جاوں اور میری عیسائی بیوی میری ڈھال بنے گی،مجھے اس
میں کامیابی ملی اور اس شادی کے باعث میری اعلی ترین عیسائی حکمران
خاندانوں تک رسائی حاصل ہوئی ۔ ابوداود ایک انتہائی سفاک نام نہاد مسلم
تھا ،قسطلہ کے عیسائی اسے ایک آزاد خیال مسلمان سمجھتے تھے وہ عیسائیوں
کی محفلوں میں قران پڑھتا اور عالمانہ تقریریں کرتا اعلی ترین عیسائی
راہبوں کو یہ معلوم تھا کہ ایک مسلمان کے بھیس میں وہ فرزندان توحید کا
بدترین دشمن ہے اس لئے وہ باقی مسلمانوں کی طرح اس کے تبدیلی مذہب پر
مصر نہ ہوئے ،دوسری جانب بعض دوراندیش مسلمان اس پر شک کرتے تھے لیکن
وہ عوام کی اکثریت کو وہ یقین دلا چکا تھا کہ بادشاہ کے دربار اور
عیسائیوں کے گرجوں میں جاکر وہ جو کچھ مسلمانوں کے لئے کررہا ہے وہ
مسجد میں بیٹھ کر نہیں کرسکتا وہ مختلف شہروں میں جاتا اور حریت پسندوں
کی خفیہ تنظیم سازی کرتا اور ان شہروں کے ’’شوریدہ سر‘‘ مسلمانوں کے
ساتھ اچھی طرح متعارف ہونے کے بعد وہاں کے عیسائی حکام کو باخبر کرکے
غائب ہوجاتا ۔عیسائی حکام انہیں چن چن کر موت کے گھات اتار دیتے تھے ،یہی
وہ خدمات تھیں جن کے باعث وہ فرڈی ننڈ سنہری تمغہ اور قسطلہ کے لارڈ
بشپ سے چاندی کی صلیب حاصل کر چکا تھا اوراب فرڈی ننڈ نے اسے ایک اہم
مشن سونپا تھا اور یہاں پہنچنے کے چند ماہ میں حریت پسندوں کے ساتھ
رہتے اس نے تقریبا ضروری معلومات حاصل کر لی جنہیں وہ فرڈی ننڈ کو
پہنچانا چاہتا تھا اس ضمن میں اس نے حریت کمانڈر بدربن مغیرہ سے اپنے
کوچوان کو قسطلہ بھیجنے کی اجازت چاہی ۔ اسے یقین تھا کہ قسطلہ والوں
کو جب سرحدی عقاب اور ان کے پورے ساتھیوں کی عسکری طاقت اور کمیں گاہوں
کا علم ہوگا توبہت جلد ہماری منزل ہمارے قدموں میں ہوگی ،کوچوان کو
روانہ کر دیا گیا ، اسے بڑی بے چینی ہورہی تھی اسی دوران وہ اپنی بیوی
سے محو گفتگو تھا کہ بیٹی ربیعہ کو ان پر شک گزرا ،اور جب توجہ دی تو
والد کے عزائم بینقاب ہو گئے ۔لیکن اس نے والد کو گماں نہ ہونے دیا اور
کوشش کر کے بدر تک پیغام پہنچا دیا تاکہ وہ کسی متوقع حملے کے لئے تیار
رہے ۔اسی رات نصرانیوں نے اس قلعہ پر حملہ کردیا لیکن انہیں انتہائی
غیر متوقع مذحمت کا سامنا کرنا پڑھا ان کے ہزاروں سپاہی قتل ہوئے اور
ہزاروں گرفتار بھی ہوئے بدر گرفتار قیدیوں کو دیکھ رہا تھا کہ اسے ایک
شخص پر شک ہوا جس نے اپنا منہ ڈھانپ رکھا تھا جب نقاب ہٹایا تو پتہ چلا
یہ وہی کوچوان تھا جسے فوری نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ۔اس
کاروائی کے بعدنصرانی جان گئے تھے کہ اس شکست کی زمہ دار ابوداود کی
مسلمان بیٹی ہے بدر کی نگاہ میں ابوداود مشکوک ہوگیا لیکن نصرانی اس
راز کو افشا نہ کرکے ابوداود سے مذیدکام لینا چاہتے تھے اور حریت پسند
بھی ابوداود سے حکمت عملی کیساتھ نپٹنا چاہتے تھے اور ایک طویل سیاسی
جنگ کا آغاز ہوگیا، نصرانیوں اور حریت پسندوں کے درمیان کئی معرکے ہوئے
یہاں تک کے ایک بار حریت کمانڈر بدر بھی ان کی گرفت میں آچکے تھے بعد
ازاں قید سے فرار ہوگئے اور ایک بہت بڑا حملہ کیا گیا جس میں فر ڈی
ننڈنے اپنی تقریبا فورس جھونک دی تھی اور اس بار اس پر یہ راز افشا ہوا
کہ ابوداود کی عیسائی بیٹی اسلام قبول کرکے ایک حریت پسند معالج سے عشق
کرتی ہے اور ان حملوں میں بار بار کی ناکامیوں میں صرف ربیعہ نہیں بلکہ
انجیلہ بھی ملوث ہے اور ان کے والد بھی قابل اعتماد نہیں رہے ،تب فری
نینڈ نے ابوداود کی دونوں بیٹیوں کوجیل میں ڈال کر مقدمہ بشپ کی عدالت
میں بھیج دیا اور ان کے قانوں کے مطابق مملکت کے غدار کی سزافقط بھڑکتی
آگ میں جلا کر ہلاک کرنا ہے ۔صورتحال جب اس نہج پر پہنچی تو ابوداود
بادشاہ کے ہاں پیش ہوا اور اپنی زندگی بھر کی خدمات کے بدلے بیٹیوں کی
زندگی مانگ لی جسے مسترد کر دیا گیا بالآخر ابو داود کے شاطر دماغ نے
ایک ترکیب سوجھی اس نے بادشاہ سے دوماہ کا وقت مانگا اور وعدہ کیا کہ
وہ اس عرصے میں اپ کے سب سے بڑے دشمن بدربن مغیرہ کو قتل کروائے گا اگر
ایسا نہ کر سکا تو اپ بیشک میری بیٹیوں کو ٓگ میں جلا دیجیے گا وہ وقت
حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ اپنے قومی جرائم کی سزا کے لئے خود کو حریت
پسندوں کے حوالے کردے ، اسے یہ یقین تھا کہ صرف بدر ہی وہ شخص ہے جو اس
کی بیٹیوں کو قتل ہونے سے بچا سکتا ہے َ۔‘‘بادشاہ نے اسے وقت دیدیا اور
وہ غرناطہ میں بدر کے پاس پہنچا اوراسے فوراً گرفتار کردیا گیا اسی رات
اس نے ایک طویل خط لکھ کر میز پررکھا اور ابدی نیند سو گیا ۔وہ خط
بدربن مغیرہ کو پیش کیا گیا جس میں ابوداود کی غداری کے وہ وو کارنامے
درج تھے جنہیں پڑھ کر ان کی روح کانپ اٹھی ۔یہ ایک ایسے ملک کاچھوٹا سا
حقیقی تاریخی واقع ہے جس کا سامنا محض ایک جارح مملکت سے تھا اگر اس کا
موازنہ متنازعہ جموں کشمیر سے کیا جائے تو یہاں ہر طرف ہرروپ میں ایسے
کردار دندناتے پھرتے نظرآئیں گے جو بہرصورت تنظیموں کو تقسیم کرنا
انتشارپھیلانا اورلوگوں کو تحریک سے دورکرکے روائتی سیاست کی جانب راغب
کرنا ان کا وطیرہ ہے کیوں کہ یہاں تین ممالک قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور
وہ کیا کرتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں ہر عام وخاص آزادی پسند کو ان تمام
خطرات سے آگاہی بیحد ضروری ہے اگر تحریکی علمبرادر ان خطرات سے بے بہرہ
ہوں تو وہ کبھی اپنے خواب آزادی کی تعبیر نہیں پا سکتے ۔ |