ایک عرصہ سے سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستانیوں کا بیرون ملکوں
میں بے بہا روپیہ پڑا ہے۔ اور اسے جلد ہی واپس لایا جا رہا ہے۔ حکومت ایسے
اقدامات کر رہی ہے کہ بیرونی ممالک کو یہ سرمایہ واپس کرنا ہو گا۔ مگر ایسا
ہونا نا ممکنات میں سے ہے۔ کوئی بھی اور کسی بھی ملک کی حکومت جتنا بھی زور
لگا لے یہ رقم واپس نہیں لا سکتی۔ جتنے بھی معاہدے ہو جائیں جتنے بھی
یادداشتوں پر دستخط ہو جائیں اس رقم کا واپس آنا محال ہے۔ اس کی وجہ یہ
نہیں ہے کہ ہمارے حاکم اس سلسلے میں سنجیدہ نہیں۔ وہ جتنے بھی سنجیدہ ہو
جائیں انہیں اس سلسلے میں کبھی کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے
کہ بیرون ملک ایسا کبھی نہیں چاہیں گے۔ جتنا سرمایا ان کے پاس پاکستانیوں
کا ہے وہ اس سے اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور اپنی معشتت چلا رہے ہیں۔ کوئی
بھی ملک ہو اس سے کہیں کہ اتنا بڑا سرمایہ وہ ایک دم اپنے بنک اور ملک سے
نکال کر کسی دوسرے کے حوالے کر دے تو کون کرے گا؟ کوئی بھی نہیں۔
یہاں میں اعدادوشمار کی بات نہیں کر رہا کیونکہ اعدادوشمار ایسی چیز ہے جو
ہمیشہ بےوقوف بنانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ بھی ریاضی کی اوسط کی طرح
ہوتی ہے کہ ایک طالب علم نے پورے سو نمبر حاصل کئے اور دوسرے نے پچاس اوسط
پچاس فی صد ہو گئی۔ اب بھلا اس کا کیا قصور ہے جس نے سو نمبر لئے ہیں کہ اس
کا نتیجہ بھی پچاس فی صد ہی شمار ہو گا۔
تو صاحبان یہ بات ملکی معیشت کی ہے یہان گنتی نہیں بلکہ حقائق مد نظر رکھے
جاتے ہیں۔ سب ہماری حکومتوں جیسے نہیں کہ ایک آکر کوئی اعداد وشمار دیتا ہے
اور معیشت کو آسمان کی بلندیوں پر لے جاتا ہے اور دوسرا آ کر دیوالیہ پن کے
قریب چھوڑ دیتا ہے۔ ایسے چکر سے ہٹ کر عام فہم سی بات ہے کہ جتنا سرمایہ
اور جتنی دولت ہمارے پاکستانیوں کی غیر ملکوں میں پڑی ہے اس سے ان ملکوں کی
معشتڑ کا پہیہ رواں ہے۔ وہ اپنی معیشت کو کیونکر لنگڑا لولا کریں گے۔ اور
پھر انہیں اس بات سے کیا غرض کہ یہ دولت جس شخص کی ہے اس نے کیسے کمائی ہے۔
جس طرح ہم غیر ملکی سرمایہ چاہتے ہیں بالکل ایسے ہی دنیا کے تمام ممالک کو
کرنسی درکار ہے۔ وہ ہمیشہ ایسے اقدامات کرتے ہیں کہ غیر ملکی وہاں اپنا
سرمایہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ اگر کسی غیر ملکی بینک یا ادارے نے ایسا کر دیا
کہ دوسرے ملک کے افراد کی رقم اسی کے ملک کو واپس کر دی تو ان پر سے اعتماد
اٹھ جائے گا اور سارے سرمایہ کار وہ چور ہوں یا ڈاکو، درست کمائی والے ہوں
یا ناجائز کمائی والے اپنا سرمایہ ایسے ملک سے نکالنے کی کوشش کریں گے۔
مغربی ممالک تو ایسے ممالک ہیں جو بیرونی سرمائے سے ہی چلتے ہیں ان کی
معیشت کا سب سے برا ذریعہ ہی یہی سرمایا ہے۔ ایک کام وہ بڑے شوق سے کرتے
ہیں کہ اکائونٹ منجمد کر دیتے ہیں۔ اس طرح ہمیں نظر آتا ہے کہ اب یہ رقم
استعمال نہیں ہو رہی مگر حقیقت میں وہ اسی بینک یا ادارے کے کیپیٹل میں ہی
ہوتی ہے۔ اس کے منجمد ہونے کا انہی کو فائدہ ہوتا ہے کہ منافع نہیں دینا
پڑتا۔اس لئے ایسی کوئی بھی کوشش کہ ہمارا ملکی سرمایہ جو بیرون ممالک میں
پہنچایا گیا ہے پاکستان لایا جائے کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ |