مودی کا دور اقتدار --- انتہا پسندی کا پرچار

تقسیم برصغیر سے ہی بھارت ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال رہا ہے،ہندوستان میں تاج حکمرانی اسی کے سر سجتا ہے جو انتہا پسندی کا زیادہ کاروبار چمکا ئے،، جس کی دکان پر مسلم دشمنی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف سامان قابل فروخت ہو، آزادی سے لے کر آج تک بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا راج رہا ،، کیونکہ سیاست میں کامیابی کی ضمانت ہی مذہب کو سمجھا جاتا ہے۔یوں تو بھارت سیکولر جمہوریت کہلاتا ہے،، مگر سیکولر ازم تو بھارت میں دور دور تک نظر نہیں آتا،ہاں اقلتیوں کی ردائیں تار تار ہوتی دکھائی دیتی ہیں،، گرجا گھروں کی گھنٹیاں ہوں یا مساجد کی اذانیں،،نہ ہی گردواروں میں پاٹ پڑھا جا سکتاہے،، یہاں تک نچلی ذات کے ہندو اور عورتوں تک کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ،بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 26 مئی 2014ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا،، اسی دن سے بھارت میں اقلیتوں کا جینا دوبھر ہوگیا،، شیوسنا اور آر ایس ایس جیسی ہندو انتہا پسند تنظیمیں پہلے سے زیادہ فعال ہونا شروع ہوگئیں،، نریندر مودی جو کہ چائے والا کے نام سے مشہور ہے لیکن اس کی اصل وجہ شہرت گجرات میں ہونے والے فسادات ہیں،، بھارت کی ریاست گجرات میں2002ء میں مذہبی فسادات اور قتل عام اس وقت شروع ہوا جب گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں آگ لگنے سے59انتہا پسند ہندو ہلاک ہوئے۔گجرات میں ریاستی حکومت نریندر مودی کی تھی۔الزام مسلمانوں پر لگایا گیا انسانی سماجی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت اور سرپرستی میں منظم منصوبہ بندی سے فسادات کروائے گئے۔ جن میں 2500مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ زندہ جلا دیا گیا۔ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم عورتوں کی عصمت دری اس قدر کی گئی کہ پانچ سال کی معصوم بچی سے لے کر 70سال کی بوڑھی عورت تک کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔پولیس تماشائی بنی رہی اور کوئی کردار ادا نہ کیا۔بلکہ حقیقت یہ ہے گجرات کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے قتل وغارت کی خود سرپرستی کی۔وفاق میں بھی بی جے پی کی حکومت تھی فسادات اور قتل عام کو کنٹرول کرنے کی کوئی سرے سے کوشش ہی نہیں کی گئی۔ گجرات کے قصاب نے اقتدار سنبھالتے ہی مذہبی اقلیتوں پرعرصہ حیات تنگ کر دیا۔انتہا پسندوں نے نا صرف مسلمانوں بلکہ عیسائی مذہب کے پیروکاروں، سکھوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو بھی نہیں بخشا۔بابری مسجد کی شہادت ہو یا سِکھوں کا قتل عام ،مسیحی برادری کو زبردستی ہندو بنانا ہو یا بدھ مت کے پیروکاروں کے خلاف انتہا پسندوں کا متشدد رویہ ،بھارت میں اقلیتوں کو ہر دور میں جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق بھارت میں نریندر مودی کے دور اقتدار میں انتہا پسندی کو زیادہ ہوا ملی۔

تخت دلی پر گجرات کے قصاب کے راج کا جونہی آغاز ہوا تو کشمیر سے بنگال، اڑیسہ سے گجرات چاروں جانب مسلمانوں کے خلاف نفرتوں میں اضافہ ہوگیا،، مودی جی نے انتہا پسندوں کو کھلی چھٹی دی تو دوسری جانب انہوں نے مسلم تاریخ اور ثقافت کو مسخ کرنے کی سازشیں رچانا شروع کردیں،، مسلم شخصیات کے نام پر تعمیر کی گئی عمارتوں ،، سڑکوں ، شہروں اور دیگر مقامات کے نام تبدیل کرنے کا آغاز شروع کردیا ،، پے درپے ایسے فیصلے کئے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرتوں میں اضافہ کیا،، شوبز میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والی شخصیات شاہ رخ خان،، عامر خان اور نصیر الدین شاہ کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا،، اس رویے کے خلاف قلم اٹھانے والی صحافی گوری لنگیش کو بھی قتل کردیا گیا،، الغرض شیوسینا اور آر ایس ایس نے مودی جی کی آشیرباد سے اقلیتوں کا جینا دوبھر کئے رکھا۔ مقبوضہ وادی میں نوے کی دہائی کے بعد پہلی بار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تاریخ رقم ہوئی،، بین الاقوامی میڈیا بھی مودی جی کے سینا کے مظالم پر چیختا رہا،، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن،، برطانوی اور یورپی پارلیمنٹیرینز کی رپورٹس نے بھی وادی میں جاری مظالم کو انسانیت کا قتل عام قرار دیا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد اٹھنے والی تحریک کو پیلٹ گنوں اور بلٹس کے ذریعے دبانے کی ناکام سعی کی گئی ،، لیکن کشمیری نوجوانوں کے جذبہ آزادی کو سرد نہیں کیا جا سکا۔ دوسری طرف مسلم اکثریتی علاقوں میں گاؤ رکھشکوں نے نام نہاد ویڈیوزاور پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بنایا،، گذشتہ دو سالوں کے دوران متعدد ریاستوں میں تشدد کے واقعات کے دوران مسلمانوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے سروے کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ حکومت کے تحت مذہبی اقلیتی برادریوں کو ہندو قوم پرست گروپوں سے زیادہ خطرے کا احساس ہوا جو غیر ہندو افراد اور عبادت گاہوں کے خلاف متشدد کارروائیاں کرنے میں مصروف رہے۔ مذہبی اقلیتی برادریوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایسے میں جبکہ قومی حکومت نے کبھی کبھی تشدد کے واقعات کے خلاف بات کی،، مسلم ،، عیسائی اور دیگر قومیں بھارت میں خود کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ بھارت کے ریاستی ڈھانچے میں رہنے والے سکھوں کو بھی ان کے سیاسی ، ثقافتی ، مذہبی اور دیگرحقوق میسر نہیں۔آئے روز انکی مذہبی کتاب کے توہین آمیز واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔سِکھ برادری کو مسلسل ذہنی دباؤ اور تشدد میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور اسی ذہنی دباؤ کے باعث وہ خودکشی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔سرکاری ملازمت کرنے والے سکھوں کو ترقی سے محروم رکھا جاتا ہے ،انکے ساتھ توہین آمیز اور امتیازی سلوک روا رکھا جاتا رہا،فوج میں بھرتی سکھ جوانوں کو کوئی عزت نہیں یہاں تک کہ ہندو کسی بھی جونیئر سکھ کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتا اور اس کا نام، پہچان اور شناخت چھپانے میں اسکو خصو صی مدد میسر رہتی۔انتہا پسندہندو تنظیموں کے کارندے آئے روز بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور انکی مذہبی مقامات کو نشانہ بناتے ہیں اور مسلسل احتجاج پر اگر کسی کے خلاف قانونی کاروائی کا آغاز کر بھی دیا جائے تو وہ انتہائی سست روی کا شکار رہتا ہے۔جلد یا بدیر مجرموں کی سزا یا تو معطل ہو جاتی ہے یا انکو رہا کر دیا جاتا ہے،تعلیمی اداروں میں بھرتیوں کا معاملہ ہو تو سکھوں کو نچلے درجے کی نوکریوں پر ملازمت دی جاتی ہے لیکن تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کی بھرتی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا یہاں تک کہ انکو اپنے اداروں میں اپنا تعلیمی کورس تک رائج کرنے کی اجازت نہیں۔

مودی سرکار نے اب بھارت میں ہونے والے انتخابات میں ناکامی کے ڈر سے اقلیتوں پر دباؤ،بدترین کارکردگی اور اپنی ناکام پالیسیوں پر پر دہ ڈالنے کے لئے جھوٹے پراپیگنڈے کے تحت مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانا شروع کر دیا ہے تاکہ مذہبی تعصب کو ہوا ملے اور ہندوؤں کے جذبات ابھریں۔کیونکہ بھارت کا ہمیشہ سے ہی منشور رہا ہے جس نے بھی اقتدار جیتنا ہے وہ اچھی کارکردگی نا دکھائے بلکہ صرف ہندو انتہا پسند ی کو بڑھاوا دے کر اور پاکستان کے خلاف انکے جذبات کو ابھا رے ،جیت اسکے قدم چومے گی۔
 

انعم احسن
About the Author: انعم احسن Read More Articles by انعم احسن: 6 Articles with 3859 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.