گلگت بلتستان کے بارے میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے دائر
کردہ تقریبا56مختلف پٹیشنز پر 17جنوری2019کواپنے فیصلے میں ریاست جموں و
کشمیر و گلگت بلتستان کے تاریخی حقائق بیان کرتے ہوئے اس ریاست سے متعلق
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں،UNCIP،بھارتی مقبوضہ کشمیر کی
سنگین صورتحال اور حال ہی میں متنازعہ ریاست جموں و کشمیر سے متعلق اقوام
متحدہ کی ہیومن رائٹس کمشن کی رپورٹ کا تذکرہ بھی کیا ہے۔سپریم کورٹ کی طرف
سے یہ بھی کہا گیا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے متعلق پاکستان کی ذمہ
داریوں کے طور پرUNCIPکی طرف سے مقامی انتظامیہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔سپریم
کورٹ نے قرار دیا کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ
ہے،تاہم یہ ہمیشہ مکمل طور پر پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں رہا ہے۔گلگت
بلتستان پر پاکستان کے انتظامی کنٹرول کے حوالے سے سپریم کورٹ نے ٹائم
لائین کی صورت 1947میںFCRکے نفاذ،1949کے معاہدہ کراچی،1950میں وزرت امور
کشمیر و شمالی علاقہ جات کے قیام،1952میں پولیٹیکل ریذیڈنٹ کی
تقرری،1967میں پولیٹکل ایجنٹ کی تقرری،1970میں ایڈوائزری کونسل فار ناردرن
ایریاز کونسل کنسٹی ٹیوشنل آرڈر،1975میں ناردرن ایریاز کونسل لیگل فریم ورک
آرڈر اورFCRکے خاتمے،1994کے ناردرن ایریاز کونسل لیگل فریم ورک آرڈر،1999
الجہاد ٹرسٹ کا فیصلہSCMR1379 اور 1999کے ناردرن ایریاز کونسل لیگل فریم
ورک(ترمیمی)آرڈرکا ذکر کیا ہے۔فیصلے میںپاکستان کے آئین کے آرٹیکل257کا ذکر
بھی کیا گیا ہے کہ '' جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے
کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مزکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مزکورہ ریاست
کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے''۔فیصلے میں مزید بتایا گیا کہ
الجہاد ٹرسٹ بنام وفاق پاکستان بذریعہ سیکرٹری وزارت امور کشمیر مقدمے کے
فیصلے میں حکومت پاکستان کو ہدایت کی گئی کہ بنیادی حقوق کوشمالی علاقہ جات
تک وسعت دی جائے کیونکہ اس پر پاکستان کا انتظامی کنٹرول ہے اور وہاں کے
باشندے پاکستان کے شہری ہیں۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران گلگت بلتستان کے2009 کے انتظامی آرڈراور
گزشتہ کمیٹی کی تیار کردہ سفارشات کی روشنی میں گلگت بلتستان کے لئے ڈپٹی
اٹارنی جنر ل سے ایک نیا انتظامی آرڈر تیار کرایا اور وفاقی حکومت کو حکم
دیا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے ساتھ منسلک اس انتظامی آرڈر کو فوری طور
پر فافذ کیا جائے اور یہ بھی کہا کہ اس انتظامی آرڈر میں سپریم کورٹ کی
منظور ی کے بغیر کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔گلگت بلتستان کے لئے سپریم
کورٹ کے اس انتظامی حکم میں اس خطے کو بدستور کونسل اوروزار ت امور کشمیر و
گلگت بلتستان کی حاکمیت میں رکھا گیا ہے۔اس فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ نے
گلگت بلتستان کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں شامل کر لیا ہے۔سپریم کورٹ کی
طرف سے گلگت بلتستان کے نئے انتظامی آرڈر کی تیاری اور وفاقی حکومت کو اسے
لاگو کرنے کی ہدایت سے اس بات کے امکانات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ سپریم کورٹ
کی طرف سے نظرئیہ ضرورت کے تحت پاکستان میں آئینی ترامیم کرتے ہوئے ان
ترامیم کے نفاذ کا حکم بھی صادر ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے
کہا ہے کہ'' سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے نتیجے میں گلگت بلتستان
اسمبلی کو عضو معطل بنایا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے آئینی اور قانونی
مشکلات بڑھی ہیں۔ایک طر ف فیصلے میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا
حصہ تسلیم کیا گیا ہے ،دوسری جانب ترمیم کے لئے184/3کے تحت سپریم کورٹ سے
بھی رجوع کرنا پڑے گا۔ہم حکومت پاکستا ن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس حوالے سے
گزشتہ ادوار میں کمیٹیوں کی جانب سے تیار کردہ سفارشات پر عملدرآمد کیا
جائے۔آزاد کشمیر کی تمام سیاسی قیادت کی متفقہ رائے ہے کہ گلگت بلتستان
اسمبلی کو با اختیار بنایا جائے۔دفاع ،سیکورٹی،کرنسی،ٹیلی کمییونیکیشن
وغیرہ حکومت پاکستان کے کے پاس رہنے چاہئیں ،باقی امور گلگت بلتستان کی
قانون ساز اسمبلی کو دیئے جائیں''۔
گزشتہ سال آزاد کشمیر حکومت کو کشمیر کونسل کی حاکمیت سے نجات دلاتے ہوئے
کشمیر کونسل کے خاتمے اور آزاد کشمیر کو انتظامی اور مالیاتی طور پر با
اختیار بنانے سے متعلق آزاد کشمیر کے عبوری آئین1974میں13ویں ترمیم عمل میں
لائی گئی تاہم آزاد کشمیر میں13ویں آئینی ترمیم کے مطابق اہم امور پر
معاملات کو یکسو کرنے کے حوالے سے وفاقی وزارت امور کشمیر آزاد کشمیر حکومت
سے تعاون نہیں کر رہی جس وجہ سے کئی اہم امورمیں پیش رفت نہیں ہو
رہی۔صورتحال یہ ہے کہ وزارت امور کشمیر کی طرف سے کشمیر کونسل کے ملازمین
کی فہرست بھی آزاد کشمیر حکومت کو فراہم نہیں کی جارہی اور 13ویں ترامیم کے
مطابق امور کو یکسو کرنے کے حوالے سے وفاقی وزارت امور کشمیر آزاد کشمیر
حکومت کے ساتھ بالکل تعاون نہیں کر رہی ہے۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل257'' جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں
شامل ہونے کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مزکورہ ریاست کے درمیان تعلقات
مزکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے''۔یعنی پاکستان کے
اس آئینی عہد کی روشنی میں یہ لازم قرار پاتا ہے کہ پاکستان آزاد کشمیر اور
گلگت بلتستان کا نظم ونسق وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق چلائے۔یہ دونوں
خطے انتظامی اور مالیاتی امور سے متعلق مکمل طور پر با اختیار کئے جانے کا
مطالبہ رکھتے ہیں۔جب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی مقامی حکومتوں کو
مقامی سطح پر با اختیار نہیں رکھا جا رہا تو پاکستان کے آئین میں کئے گئے
کشمیر سے متعلق عہد پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ پاکستان کے آئین
کی خلاف ورزی نہیں ؟واضح رہے کہ کشمیریوں کی تاریخی '' قرار داد الحاق
پاکستان '' میں بھی پاکستان کے ساتھ بطور ایک ریاست خصوصی حیثیت میں الحاق
کی بات کی گئی ہے جس میں پاکستان کے پاس دفاع،خارجہ امور اور مواصلات ہوں
گے جبکہ تمام اندرونی معاملات میں ریاست خود مختار ہو گی۔اس بات پر پاکستان
کے ارباب اختیار کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ |