گاؤں کی بیٹھک میں حقہ پیتے ھوۓ بابا جی بتا رہے تھے کہ
ایک عورت بیوہ ھو گئی اور اس کے دو بچے بھی تھے گھر والوں, رشتے داروں کے
اصرار پر اس عورت کی دوسری شادی کر دی گئی لیکن دوسری طرف اتفاق یہ ھوا کہ
جو رشتہ فائنل کیا گیا کہ اس جگہ اسکی شادی ھو گئ وہ شخص بھی پہلے سے شادی
شدہ تھا اسکے دو بچے تھے مگر بیوی وفات پا چکی تھی لہذا شادی ھو گئ دونوں
اپنے اپنے سابقہ بچوں کو ساتھ رکھ کر اپنی زندگی گزارنے لگے اسی دوران اللہ
پاک نے اپنی رحمت خاص فرمائی اور نئے رشتے سے دو بچے اور عطا فرماۓ دونوں
بہت خوش تھے لیکن کیونکہ ازواجی زندگی میں کبھی کبھی خاندانی مساہل بھی
پیدا ھو جاتے ہیں جو عین فطرت ھے ایسا ہی انکے ساتھ ہوا اور ایک دن ان میاں
بیوی کے سابقہ بچوں نے موجودہ بچوں کو مارا لہذا شام کو بیوی نے اپنے شوہر
کو شکایت لگائی کہ تمہارے اور میرے بچوں نے ہمارے بچوں کو آج بہت مارا ھے
تم انکو سمجھانا ؟
میرے ملک کی سیاست کا بھی ایسا ہی حال ھے بھٹو صاحب کی سزاۓ موت کے بعد
انکی جماعت باقی رہ گئ اور ضیا صاحب کی پرورش میں جوان ھوتے ھوۓ انکی وفات
کے بعد میاں نواز شریف صاحب منظر پر نمایاں ھوۓ لہذا دونوں کی میثاق
جمہوریت سوچ ؤ رویہ اور عمل نے ملک کو مختلف مساہل میں غرق سے غرق تر کر
دیا.
دونوں حکومت کرتے رہے.کبھی یہ بیوہ تو کبھی وہ سہاگن اور ملک چلتا رہا لیکن
اب ان دونوں کے بیوہ ھو جانے کے بعد چوتھی طاقت سامنے آئی ھے تو دونوں کو
میرے, ہمارے, اور اپنے کرتوت یاد آ رہے ہیں کہ یہ غلط تھا وہ غلط تھا مگر
جمہوریت کو خطرہ نہیں تھا لیکن اب جب پہلی دفعہ ایک بندہ خود ایمان دار ھے
اس پر کرپشین کا الزام نہیں ھے وہ ملک کی بہتری کا, عوام کی فلاح کا,
پاکستان کی ترقی کا نعرہ لگاتا ھے تو انکو لڑائی محسوس ھوتی ھے ,جمہوریت
خطرے میں لگتی ھے.
مقدونیہ کا فلپ دوم اولپمپاس تھا اسکو 336 قبل مسیح قتل کر دیا تو مقدونیہ
کا اقتدار اسکے بیٹے سکندر اعظم نے سنبھالا ,سکندر نے تیرہ سال کی عمر میں
ارسطو کی شاگردی اختیار کی ارسطو نے ادب کے ساتھ, سانئس, طب اور فلسفے سے
روشناس کروایا اور یہ ہی فلسفے کی تعلیم عملی زندگی میں سکندر کے لیے بہت
مفید ثابت ھوئی اور یہ ہی تعلیم سکندر اور ارسطو کے درمیان اختلاف کا باعث
بنی یاد رہے کہ ارسطو افلاطون کا شاگرد اور افلاطون نے یونان کے تاریخ ساز
فلسفی سقراط سے علم حاصل کیا تھا تاریخ گواہ ھے کہ یہ ہی سکندر اعظم جب
برصغیر داخل ھوا دریاۓ جہلم عبور کر کے راجہ پورس کے مد مقابل آیا اسے شکست
سے دوچار کرنے کے بعد اپنے استاد ارسطو کو ایک طویل معرکتہ الاآرا خط لکھا
جو تقریباً سولہ (16) صفحات پر مشتمل تھا جس میں سکندر اعظم اپنے استاد
ارسطو کو (پاکستان) کو سونے کی چڑیا کہتا ھے ہر ہر چیز کا تذکرہ بڑے اعلی
ترین الفاظ میں کرتا ھے
لیکن کتنے افسوس کی بات ھے کہ پاکستان آزاد ھو گیا لیکن اسکے لوٹنے والے نا
جانے کب اس خطے کی بے مثال اور لازاوال نعمتوں کو دیکھیں گۓ اور اس ملک کی
عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے میں کامیاب ھوں گۓ لیکن یہ بجٹ اجلاس اس
قوم پر بہت کچھ روشن کر گیا ھے کہ کون ملک ؤ عوام کی فلاح کا جذبہ رکھتا ھے
اور کون ھے جو اپنے مفاد کا عزم لیے پھرتا ھے.... اللہ پاک میرے وطن عزیز
کی حفاظت فرماۓ .آمین
|