سانحہ ساہیوال، آؤ کہ آنسو بہاتے چلو

’’میری پوتی کو لوگ کیا کہیں گے کہ یہ دہشت گرد کی بیٹی ہے؟ یہ کہ میں دہشت گرد کی ماں ہے؟ ،آپ میرے گھر آکردیکھو کیا حال ہے،آپ کھاتے ہیں،پیتے ہیں ہم صرف روتے ہیں،اب میں رات کو نہ سوتی ہوں نہ دن کو چین آتا ہے ،مجھے ڈر لگتا ہے ،رو رو کے اﷲ سے ا لتجا کرتی ہوں،اﷲ ان لوگوں کو ہدایت دے جنہوں نے میرے بیٹے کو مارا،کیا یہ قانون سکھاتا ہے کہ غریبوں کو جنگل میں لے جاکر ماردو،مجھے کچھ نہیں چاہئے ،برائے مہربانی میرے بیٹے کے نام سے دہشتگرد کا لیبل ہٹا دیا جائے‘‘اس کے بولتے ہی حال میں سکوت چھا گیا،غمزدہ ماحول میں پھر وہ گویا ہوئی،’’اگر میرا بیٹا دہشت گرد قرار دیا تھا تو مارا کیوں؟ اسے زندہ گرفتار کیوں نہیں کیا؟ انڈیا کے جاسوس کو زندہ گرفتار کر لیا، تو کیا میرے بیٹے کو زندہ نہیں پکڑ سکتے تھے؟ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مارے گئے ذیشان کی والدہ کے سوالات کے جوابات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے پاس نہ تھے،اور شاید کوئی ان سوالوں کے جواب دینے کی ہمت بھی نہ کرے۔

کیونکہ ہم بنیادی طور پر تماش بین ہیں،ڈگڈگی بجتی ہے، تماشا ہوتا ہے، تالیاں بجتی ہیں اور ہم گھروں کی راہ لیتے ہیں،مداری کے اشاروں پر رقصاں یہ جسم سوال تک نہیں پوچھتے کہ ناچنا کب تک ہے اور رقص کیسا ہے،مداری جانتا ہے کہ یہ تماشا ختم ہوا تو اس کا روزگار بھی جاتا رہے گا اور اس کی ذات بھی توجہ کی محور نہیں رہے گی۔
ہم سے قاتل کا ٹھکانہ نہیں ڈھونڈا جاتا
ہم بڑی دھوم سے بس سوگ منالیتے ہیں

ایک کے بعد ایک سانحہ آتا ہے،صف ماتم بچھتی ہے،اہلخانہ رو رو کے ہلکان ہوتے ہیں،رشتہ دار ،دوست آتے ہیں،مرنیوالے کیلئے دعا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں،آج کل تو میتوں پر بھی پھول لانے کارواج بن چکا،لاشوں پر سیلفیاں لینا فیشن بن چکا،قبرستان جاتے ہیں تو ہنستے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ظالم یہ عبرت کی جگہ ہے تماشہ نہیں۔

ہماری آنکھوں نے بڑے بڑے سانحات دیکھے،بے گناہ مرتے دیکھے،ان پر جے آئی ٹیز بنیں،کمیشن وجود میں آئے لیکن نتائج سامنے نہیں آئے،یہ خروٹ آبادمیں حاملہ خواتین کے مرنے کا واقعہ ہو،کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں نوجوان کا انکاؤنٹر ہو،سانحہ اے پی ایس یا لاپتہ افراد کا کمیشن ہو سبھی کی فائلوں پر گرد پڑی ہوئی ہے،لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں قتل کیے جانیوالے افراد کا نوحہ ہو،ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن ہو سبھی ’’نامعلوم‘‘ہیں،تحقیقات کرنیوالے ادارے وقت مانگتے ہیں،اجلاس کرتے ہیں اور کئی سالوں تک یہ سلسلہ چلتا ہے اور فائل بند کردی جاتی ہے،ہربار یہی کہا جاتا ہے کہ ہم شدید مذمت کرتے ہیں زخمی ہونیوالوں کو اتنے لاکھ اور مرنے والوں کی زندگی کی قیمت اتنے لاکھ روپے۔۔۔کہا جاتا ہے ’’میں قطر سے آکر ذمہ داروں کو سزا دوں گا،آپ اطمینان سے رہیں‘‘کب تک قوم سکون میں رہے،اور کتنا سکون اور کتنا انتظار۔مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا! آخر حمیدہ بیگم جیسی خواتین کو اپنے سوالوں کا جواب کیوں نہیں ملتا،ایک سانحے کے بعد دوسرے سانحے کا انتظار کیوں جاتا ہے؟

ہمارے نمائندوں کا کردار دیکھو تو اس بھی بھیانک ہے،غمزدہ افراد کے زخموں پر مرحم رکھنے کے بجائے مذاق اڑایا جارہا ہے،طرح کی کہانیاں گھڑ کر ساہیوال میں مرنیوالوں کو دہشتگرد ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،ایسی کئی کہانیاں ہمارے ارد گرد گھوم رہی ہیں،ہر افسردہ چہرہ اپنے اندر طوفان لیے پھرتا ہے،سوال کرتی نظریں جواب ڈھونڈتی پھرتی ہیں،ووٹ لینے اوردینے والے دونوں پوچھتے پھرتے ہیں ،کہاں ہے سستا انصاف،سستی صحت اور تعلیم؟کہاں ہے وہ خوشحالی جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا،کہا ں ہیں ہمارے مسیحا جن کیلئے ہم نے نعرے لگائے تھے؟جنہوں نے جواب دینا تھا وہ کرپشن کی ’’ہڈی‘‘پر لڑ رہے ہیں۔

جان کی امان پاؤں تو سچ یہ ہے کہ ہر ناکام آپریشن کے بعد نئے آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے،ڈاکٹروں سے غلطی ہوجائے یا لاپروائی سے کوئی آلہ جراحی جسم میں رہ جائے تو دوبارہ جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے۔اگر جسم ناکارہ ہوجائے تو پوسٹمارٹم کی ضرورت پڑتی ہے،ناکارہ جسم کی جراحی کرتے وقت تو نہ نشے کی ضرورت اور نہ کسی درد کا خوف ہوتا ہے،مریض کشمکش میں ہے کہ یہ پہلی سرجری سمجھے یا آخری۔

جیسا کہ پہلے ہوتا ہے، اب بھی ویسا ہی ہوگا،سانحہ ساہیوال کا شور تھمتا جارہا ہے اس کے بعد تو کون میں کون۔ مرنے والے پہلے والوں کی طرح صرف ہندسے بن کے رہ جائیں گے اور قاتل معطل یا جبری ریٹائر ہو جائیں گے۔ تحقیقاتی رپورٹ ضرور مرتب ہو گی لیکن اس کے نتائج سامنے نہیں آئینگے،اصل قاتلوں کا پتہ نہیں چلے گا،لگا ہے موت کا بازار آؤ کہ آنسو بہاتے چلو۔۔۔

Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68376 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.