کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں‘ وہ
صرف اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرتا ہے ‘ یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ
امریکہ دشمن کو تو چھوڑ سکتا ہے لیکن دوست کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ
ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ 9/11کے بعد کے حالات اس بات کے شاہد ہیں کہ
امریکہ نے پاکستان سے لاجسٹک سپورٹ بھی حاصل کی اور زبردستی دہشت گردی کے
خلاف جنگ میں شریک کرکے پاکستانی کی معیشت کو 200 ارب ڈالر کانقصان ہی نہیں
پہنچا بلکہ 70 ہزار پاکستانیوں کی ہلاکت کا باعث بھی بنا ان میں پاک فوج کے
افسرو جوان بھی شامل ہیں ۔ امریکی دوستی کی قیمت ادا کر نے کے باوجود ہمیشہ
پاکستان کو شک کی نہ نگاہ سے ہی دیکھاجاتا ہے ۔ ہر مشکل وقت میں امریکہ یہ
کہہ کر اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیتا ہے کہ پاکستان میں اب بھی دہشت
گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں ۔ اب جبکہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے
اتحادیوں کو واضح شکست کا سامنا ہے تو پاکستان سے مدد کا طلبگارہے۔ امریکی
صدر ٹرمپ کا وزیراعظم کے نام خط اس بات کا ثبوت ہے ۔ پاکستان نے اپنا اثر و
رسوخ استعمال کرکے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لابٹھا یا ۔ دوحہ میں ہونے
والے مذاکرات میں جنگ بندی کے علاوہ 18 ماہ میں امریکی فوجیوں کے افغانستان
سے انخلاپر دو نوں فریقین متفق ہوچکے ہیں جس کا بلاشبہ کریڈٹ پاکستان کو
جاتاہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ افغان کٹھ پتلی حکومت کیا موقف اختیار کرتی ہے
لیکن یہ بات پایہ ثابت کو پہنچ چکی ہے کہ امریکہ‘ سوویت یونین کی طرح دونوں
ہاتھ جوڑ کر یہاں سے بھاگنا چاہتا ہے ۔اپنے اسی مقصد کی کامیابی کے لیے وہ
پاکستان کے سامنے سرنگوں نظر آتاہے۔ یہ پاکستان کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ
امریکی و اتحادی فوجوں کی بحفاظت واپسی کامطالبہ اس شرط پر مانے کہ امریکہ
اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے وادی کشمیر میں استصواب رائے کی قرارداد پر
عمل درآمد کو یقینی بنائے ۔اس میں شک نہیں کہ عمران خان کی حکومت مسئلہ
کشمیر کو ہر سطح پراجاگرکررہی ہے‘ قدرت نے شاید یہ موقع پہلی بار فراہم کیا
ہے کہ پاکستان امریکہ سے ڈومور کا مطالبہ کرسکتا ہے‘یہ بھی شنید ہے کہ
مستقبل قریب میں امریکی صدر اور عمران خان کے مابین ملاقات کااہتمام
کیاجارہاہے ‘ایجنڈے میں سرفہرست کشمیر اور دوسرے نمبر بھارتی آبی جارحیت
کامداوا اور تیسر ے نمبر عافیہ بی بی کی رہائی ہونی چاہیئے ‘ان مطالبات کے
بعد افغانستان سے امریکی فوجوں کی باعزت واپسی کا معاملہ زیر غور آئے ۔
ایسے مواقع پر امریکہ سے کھل کر بات کی جاسکتی ہے کہ وادی کشمیر میں چھ
لاکھ بھارتی فوج کونکال کر اقوام متحدہ کی فوج تعینات کی جائے اور مشرقی
تیمور کی طرح وادی کشمیر میں بھی فوری طور پر استصواب رائے کروایا جائے ‘
اب اس سے زیادہ ظلم کیا ہوگاکہ خود بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج اپنے ہی
آرمی چیف پر یہ کہتے ہوئے پھٹ پڑے ہیں کہ انہوں نے پلواما میں معصوم اور
نہتے کشمیریوں کا قتل عام کرکے جلیانوالہ باغ کے واقعے کی یاد تازہ کردی ہے
جہاں جنر ل ڈائر نے انسانی نعشوں کے انبار لگا دیئے تھے ۔ بھارتی جج
مارکنڈے کانجو نے آرمی چیف کو کہا کہ نہتے کشمیری مسلمانوں کے قتل عام پر
بھارتی فوجیوں کو "رتنا " دیا جانا چاہیئے۔ کیونکہ اب جنرل ڈائر اور بھارتی
فوج میں کوئی فرق نہیں رہا ۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا بھی
کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو دیکھ کر کھل کر تنقید کرنے لگے ہیں ان کا کہنا
ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو طاقت کے وحشیانہ استعمال سے
دبانے چاہتی ہے ۔کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے اور یہ بھی حقیقت
ہے کہ بھارت صرف فوج کے سہارے کشمیر پر قابض ہے ۔ یہ تمام حقائق اقوام
متحدہ کے سامنے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے انسانی حقوق کمیشن کی
اس رپورٹ کو حقائق پر مبنی قرار دیا ہے جس میں وادی کشمیر میں بھارتی فوج
کے بیہمانہ مظالم کا ذکر ہے۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سیکرٹری جنرل فوری
طور پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلاتے اور انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ اور
مظالم کی تصویریں سلامتی کونسل کے اراکین کے سامنے رکھتے اور ان سے بھارتی
فوج کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ قائم کرکے کشمیر میں استصواب رائے کا فوری
طور پر منظوری لیتے ۔لیکن سیکرٹری جنرل نے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ پر
تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ملکوں کو مثبت مذاکرات کی تلقین کرکے
معاملہ رفع دفع کرنے کی جستجو کی ہے ‘ سیکرٹری جنرل کے اس اقدام کی جتنی
مذمت کی جائے کم ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر بھارت مذاکرات سے ہی مسئلہ
حل کرنا چاہتا تو 9 لاکھ کشمیریوں کو شہید کیوں کرتا۔ بھارتی جیلوں میں بھی
لاکھوں کشمیری جو اذیتیں برداشت کررہے ہیں ان کی تعداد کا کسی کو بھی علم
نہیں۔یہ بات اور بھی تکلیف دہ ہے کہ بھارتی فوجی کشمیری خواتین کو ریپ کا
نشانہ بناکر زندہ بھی جلارہے ہیں کیا اقوام متحدہ سمیت سلامتی کونسل کے
تمام اراکین کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے جو استصواب رائے کروانے کی بجائے اب بھی
مذاکرات کادرس دیتے ہیں ۔عمران خان ایک دلیر انسان ہیں وہ ٹرمپ جیسے مغرور
شخص کادماغ بھی حقائق پر مبنی جواب دے کرٹھکانے لگا سکتے ہیں‘انہیں
کشمیرمیں استصواب رائے کروانے کی شرط پر ہی امریکی فوجیوں کی افغانستان سے
باعزت اور محفوظ واپسی کی ضمانت دینی چاہیئے ۔ اگر پاکستان نے تعاون نہ
کیاتو ایک بھی امریکی فوجی جان بچا کر امریکہ واپس نہیں جاسکتا ۔قوموں کے
نجات دہندہ وہی لیڈر ہوتے ہیں جو ہر لمحے اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے
ہیں ‘ کشمیر ہماری شہ رگ ہے جہاں پاکستان میں بہنے والے تمام دریانکلتے ہیں
‘ کشمیر کی آزاد ی اور الحاق پاکستان کا یہ موقع پاکستان کی بقا ء کا سب سے
اہم مسئلہ ہے ‘ اسے ہر حال میں اپنے مفاد کے مطابق حل کروانا اشد ضروری ہے
۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ فوج نکلتے ہی امریکہ نے آنکھیں پھر لینی ہیں
اورکشمیر میں مظالم ڈھانے کی ایک بارپھر بھارت کوچھٹی مل جائے گی‘ ایسے
مواقع بار بار نہیں آتے ۔ امریکہ جیسے مکار اور مفاد پرست کی بات پر اعتبار
نہ ہی کیاجائے تو بہتر ہوگا۔وزیر اعظم کشمیر کی تجویز بھی صائب ہے کہ
پاکستان کو از خود یا چین کے ذریعے کشمیرمیں استصواب رائے کی قرار داد تیار
کرکے سلامتی کونسل میں پیش کردینی چاہیئے ‘اس قرار داد کے ساتھ بھارتی فوج
کے تمام مظالم کی تصویری جھلکیاں اور انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ بھی منسلک
کی جائے ۔ ورنہ 100 سال بھی کشمیر ڈے مناتے رہیں کوئی فائدہ نہیں
ہوگا۔امریکہ کے حلق میں پھنسا ہوا کانٹا نکالنے سے پہلے کشمیرآزاد کروالیں
۔ |