ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے
کے بعد آسیہ بی بی آزاد شہری ہے اور نقل و حرکت میں مکمل آزاد ہے۔ اور کہیں
بھی جاسکتی ہے۔اہل پاکستان پریہ بات اظہرمن الشمس ہوچکی ہے کہ یہاں کسی بھی
گستاخ رسول کوسزانہیں دی گئی جس کے بعدظاہرہے کہ ایسے گستاخوں کاٹھکانہ
مغرب ویورپ ہی ہے آسیہ بی بی کی بھی اگلی منزل وہی ہے جہاں ا س سے قبل
متعددگستاخ رسول ؐجاچکے ہیں ،
جب حکومت ہرجگہ سے بھیک مانگ رہی ہوتوایسے میں آسیہ بی بی کی رہائی کے عوض
جوسودے بازی کی گئی ہے وہ بھی سامنے آنی چاہیے ، ہمارے حکمران اپنے منہ سے
اس بات کااعتراف نہیں کرتے ۔مگرعالمی طاقتوں کاکیاکریں وہ ہمارے حکمرانوں
کوان کی اوقات یاددلاتے رہتے ہیں ، امریکی سینیٹررینڈپاول نے اپنے ایک ٹویٹ
میں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاہے کہ آسیہ بی بی کی رہائی تک امریکہ
پاکستان کوایک بھی ڈالرنہ دے ،کوئی بھی ایسی قوم جوعیسائیوں کوقتل یاان
کااستحصال کرتی ہے اس کوامریکی امدادنہیں ملنی چاہیے ۔
یورپی پارلیمنٹ کے صدرانتونیوتجانی نے سوشل میڈیاپرجاری اپنے ایک بیان میں
کہاہے کہ میں نے ابھی ابھی وزیراعظم پاکستان عمران خان سے بات کی ہے
اورآسیہ بی بی کیس میں اس حساس ایشوپرشاندارتعاون کرنے پرشکریہ اداکیاہے
میں آسیہ بی بی اوراس کے خاندان کونئی زندگی کے آغازکے لیے پاکستان کی
مددکے لیے تیارہوں ،یورپی پارلیمنٹ کے صدرکایہ بیان کھیل واضح کررہاہے کہ
تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد اچانک آسیہ بی بی کیس دبی فاعلوں سے
باہرنکلااوریہ جا وہ جاکے مصداق دنوں میں فیصلہ ہوگیا ۔
جہاں تک آسیہ مسیح کیس کاتعلق ہے تویہ نوسال پراناکیس ہے جس کی کہانی کچھ
یوں ہے کہ چک نمبر 3گ ب اٹانوالی تھانہ صدر ننکانہ تحصیل و ضلع ننکانہ میں
14جون 2009ء کومحمد ادریس ولد احمد علی ، قوم آرائیں سکنہ دیہہ کی زمین میں
آسیہ زوجہ عاشق مسیح جو عیسائی مذہب کی مبلغہ ہے ، گاؤں کی دیگر عورتوں جن
میں عاصمہ بی بی دختر عبدالستار، عافیہ بی بی دختر عبدالستار ،یاسمین دختر
اﷲ رکھا شامل ہیں ، فالسہ توڑ رہی تھیں اس دوران مبینہ طورپرآسیہ مسیح نے
نبی کی شان میں گستاخی کی ۔19جون کو مقامی مسجدکے امام قاری محمدسالم نے
اہل علاقہ کے ہمراہ مکمل تحقیق ،تفتیش اورآسیہ کے اقبالی بیان کے بعد ایس
ایچ تھانہ صدرننکانہ کو اندراج مقدمہ کی باقاعدہ درخواست دی،واضح رہے کہ
پورے گاؤں کے سامنے جہاں ملزمہ کو بلایا گیا اور اس نے ان کے روبرو اپنے
جرم کا اعتراف کیا اور معافی کی درخواست کی۔
قانون کے مطابق اس قسم کے مقدمات کی تفتیش ایس پی لیول کاافسرکی تحقیق
وتفتیش کے بعد مقدمہ درج ہوتاہے،ایس پی انوسٹی گیشن شیخوپورہ محمدامین
بخاری اس مقدمے میں تفتیشی افسرمقررہوتے ہیں محمدامین بخاری تمام گواہان ،اہل
محلہ ،جائے وقوعہ اورملزمہ سے تحقیق کرتے ہیں ملزمہ ان کے سامنے بھی توہین
کااقرارکرتی ہے محمدامین بخاری اپنی رپورٹ میں واضح طورپراس کاتذکرہ کرتے
ہیں جس کے بعد مقدمہ نمبر 402/2009ـ، ایف آئی آر نمبر 326/2009 بجرم زیر
دفعہ تعزیرات پاکستان 295/C درج ہوتاہے ،پولیس رپورٹ میں یہ بھی لکھاگیاکہ
عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کئی نسلوں سے اس
گاؤں میں رہ رہی ہے۔ لیکن اس قسم کاکوئی ایک واقعہ بھی ماضی میں پیش نہیں
آیا۔ ہر دوقومیں مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے کے مذہبی جذبات اور ایمان کے
متعلق تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ نویداقبال کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت ہوئی جہاں
13اکتوبر2009ء کوملزمہ کے خلاف زیر دفعہ295/Cتعزیرات پاکستان فرد جرم عائد
کی گئی جس کا ملزمہ نے جرم کی صحت سے انکار کیا اور باقاعدہ مقدمہ چلائے
جانے کی استدعا کی جس پریہ مقدمہ چلا عدالت نے نومبر2010کومقدمے کافیصلہ
سناتے ہوئے لکھا کہ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگاکہ نہ تو ملزمہ خاتون
نے اپنی صفائی میں کوئی شہادت پیش کی،اور نہ ہی دفعہ 340(2)،ضابطہ فوجداری
کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے اوپرلگائے گئے الزامات غلط ثابت کیے۔مزیدیہ کہ
استغاثہ نے اس مقدمہ کوکسی شک وشبہ سے بالاتر ثابت کردیا ہے ۔تمام استغاثہ
گواہان نے استغاثہ کے مؤقف کی متفقہ اور مدلل انداز میں تائیدو تصدیق کی ہے۔
استغاثہ گواہان اور ملزمہ،ان کے بزرگوں، یا ان کے خاندانوں میں کسی دشمنی
کا وجود نہیں پایا جاسکا۔ لہذا ملزمہ خاتون کو ناجائز طورپر اس مقدمہ میں
ملوث کیے جانے کا قطعا کوئی امکان نہیں ۔ملزمہ کو اس مقدمہ میں کوئی رعایت
دئیے جانے کا بھی کوئی جواز موجود نہیں۔ لہذا میں ملزمہ مسماۃ آسیہ بی بی
زوجہ عاشق کو زیر دفعہ295/Cتعزیرات پاکستان موت کی سزا کا مجرم ٹھہراتا ہوں
۔
اس فیصلے کے خلاف اور آسیہ مسیح کے حق میں سیکولر لابی ، نام نہاد’’ ،
انسانی حقوق‘‘ کی تنظیمیں اور عیسائی نمائندے میدان میں آ تے ہیں۔ عیسائی
پوپ بینڈ کٹ سے لیکر سابق گورنر پنجاب سلما ن تاثیر تک سب نے آسیہ کے دفاع
میں احتجاج کیا پوپ نے ویٹی کن میں منعقد ہ خصوصی دُعائیہ تقریب میں آسیہ
مسیح کی رہائی کے لئے نہ صرف اس کا نام لے کر دُعا کرائی بلکہ صدر ِ
پاکستان سے بھی اپیل کی کہ اس کی سزا معاف کی جائے۔ اُنہوں نے حکومتِ
پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ قانون توہینِ رسالت ؐ کو فوری ختم کیا
جائے۔
اس فیصلہ کے خلاف آسیہ مسیح نے ہائی کورٹ لاہور میں اپیل کی ، لاہور ہائی
کورٹ کے فاضل ججز جسٹس سید شہباز علی رضوی ، جسٹس محمد انوارالحق نے
16اکتوبر2014کو فیصلہ دیتے ہوئے آسیہ مسیح کی سزائے موت برقراررکھی ،لاہورہائی
کورٹ کے فیصلے کے خلاف آسیہ مسیح نے سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی
اور22جولائی 2015کوسپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آسیہ کی سزائے موت پرعمل
درآمدروک دیایہ مقدمہ کئی سال زیرالتواء رہااورگزشتہ سال پاکستان تحریک
انصاف کی حکومت آنے کے بعد8اکتوبر 2018کو اس مقدمے کی سماعت ہوئی اورفیصلہ
محفوظ کردیاگیاپھر 31اکتوبر 2018 ء کوعاشق رسول غازی علم دین شہید ؒ کے یومِ
شہادت پرسپریم کورٹ نے سزا کالعدم قراردے کرآسیہ بی بی کورہا کرنے کا حکم
جاری کردیا۔اس فیصلے کے خلاف ملک بھرمیں بھرپور احتجاج ہواتمام بڑے شہروں
میں دھرنے دیئے گئے حکومت دھرناقائدین سے مذاکرات کیے فیصلے کے خلاف سپریم
کورٹ میں اپیل دائرکی گئی اور سپریم کورٹ نے29جنوری کو آسیہ بی بی کی بریت
کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست مسترد کردی۔
سپریم کورٹ کافیصلہ اپنی جگہ ہے مگریہاں کئی سوالات پیداہوگئے ہیں کہ
اگرعدالتیں گستاخان رسول ؐ کواسی طرح رہاکرتی رہیں گی توعوام پھرکون
ساراستہ اختیاکریں ؟ قانون تحفظ ناموس رسالت 295-Cقرآن و سنت ،اجماع صحابہ
ؓ و امت کے عین مطابق ہے۔ وفاقی شرعی عدالت شق 203-Dکی ذیلی شق 2کے تحت
باریک بینی سے جائزہ لے کر لکھا ہے کہ موجودہ قانون تحفظ ناموس رسالت قرآن
و سنت کے عین مطابق ہے۔ گستاخ رسول ؐ کی سزا صرف اور صرف سزائے موت ہے اس
کے علاوہ متبادل سزا اسلامی تعلیمات کے متصادم ہو گی یہ قانون دستور
پاکستان 1973ء کا حصہ ہے،افسوسناک بات یہ ہے کہ جب سے یہ قانون آئین و
قانون کا حصہ بنا ہے اس وقت سے لے کر آج تک کسی بھی گستاخ رسول کی سزائے
موت پر عمل نہیں کیا گیا ۔۔عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک میں
موجود اس قانون پرآخرکب عمل درآمدہوگا ؟گستاخان رسول ؐ کوبیرون ممالک کے
دباؤپرہم کب تک رہاکرتے رہیں ؟آخرہم کب تک قانون پرعمل درآمدنہ کرکے
غیرقانونی اقدامات کاراستہ ہموارکرتے رہیں گے ؟ |