آسان ہدف

عثمان بزدار کی سادگی اسکا قصور ہے

عثمان بزدار ایک آسان یدف

کہا جاتا ہے کے آج کے دور میں کوئی شخص دو چار کتابیں پڑھ لے تو اس کے پاؤں زمیں پرنہیں ٹکتے ۔ ایسا ہے کچھ حال ہمارے میڈیا میں موجود چند صحافیوں کاہے۔حکومت پر تنقید کرنا بری بات نہیں لیکن ایسی تنقید جس سے تعصب کی بو آتی ہو مجھے ایسی تنقید سے اختلاف ہے۔ آجکل میڈیا کی ٹرین پٹری سے اتری ہوئی ہے اور ایسے میں جو آسان ہدف میڈیا کو ملتا ہے وہ کچلا جاتاہے۔ ایساہی ایک آسان ہدف وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہے۔

تخت لاہور ہمیشہ سے شہنشاہوں کےپاس رہا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کی اشرافیہ کو اب عثمان بزدار ہضم نہیں ہو رہا۔ میں بھی سرائیکی بیلٹ سے تعلق رکھتا ہوں اور یہ جانتا ہوں کہ جب بھی اس بیلٹ سے کوئی شخص اوپر آتا ہے و ہ تنقید کا ہدف بن جاتا ہے ۔اس پر لطیفے کسے جاتے ہیں ۔ مجھے اس تعصب کی اس دنیاسے میرے ایک دوست منیب خان نے روشناس کرایا تھا جب میں نے یونیورسٹی میں تعلیم کی غرض سے قدم رکھا۔

بیرون ملک کےحکمرانوں کے سادگی کے قصے سنانے والے میڈیا کو جب اپنے ملک میں ایک سادہ شخص ملا تو وہ مذاق بن گیا۔ آپ ایک گھنٹہ نکال کر میڈیا کے مختلف چینلز کو دیکھیں آپ کو لگے گا کہ پا کستان بننے سے اب تک جتنے بھی برے کام ہوئے ہیں ان سب کا ذمہ دار عثمان بزدار ہے۔یہ تو ہونا ہی ہے کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کا وصف ہے کہ جب کوئی غریب شخص پولیس کے ہاتھ لگتا ہے تو اس مار مار کر وہ جرم بھی قبول کرا لیا جاتا ہے جو اس نے نہ کیا ہو اورجب کوئی امیر آدمی سنگین جرم میں پکڑا جاتا ہے تو وہ چند دنوں میں ہی بیمار ہو جاتا ہے اور طبعی بنیادوں پر رہا ہو جاتاہے۔

رات کو ہر چینل میں ایک شو رکھا جاتا ہے جہاں عثمان بزدار کی نا تجربہ کاری پر ماہرین اپنی رائے دیتے ہیں لیکن اس وقت یہ میڈیا یہ بھول جاتا ہے کہ آپ کے تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف جب 1985میں وزیراعلیٰ بنے تو اس وقت انہیں بھی کوئی نہیں جانتا تھا ۔ انہیں صرف ایک شخص جانتا تھا اور وہ تھا ضیا ءالحق جنہوں نے لوگوں کو دکھا یا اے لوگو! یہ نواز شریف ہے۔ جس دن عمران خان ، عثمان بزدار کی تعریف کر دے مذاق بن جاتاہے ۔ اس وقت میڈیا ایک سال پرانے حالات و واقعات بھول جاتا ہے جب جلسوں میں نواز شریف اپنے بھائی کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے تھے۔

میں میڈیا کو ایک عینک گفٹ کر نے لگا ہوں جس سے انہیں آئی ۔جی۔ پنجاب کے ساتھ بزدار کا ہاتھ نہ ملانا تو نظر آئے گا ساتھ ہی انہیں یہ بھی نظر آئے گا کہ کس طرح پنچاب اسمبلی کے پڑھے لکھے، سیاسی گھرانے سےتعلق رکھنے والے، تہذیب یافتہ اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نہ دوران میٹنگ پانی کی بوتل ڈپٹی میئر وسیم قادر کو دے ماری ۔ اسی تہذیب یافتہ شخص نے کچھ ایسا بھی کیا تھا کہ انہی کے پارٹی کے سینیئر لیڈر زعیم قادری نہ پریس کانفرس کر کے کہا حمزہ میں تمہارے باپ کا نوکر نہیں ہوں۔

کچھ دن پہلے تک اپنی غلط اردو بولنے کے با عث تنقید کا نشانہ بننے والا بلاول آج میڈیا کی آنکھوں کا تارا بنا ہو ہے۔ اسکا کیا تعارف ہے؟ جی وہ زرداری صاحب کا بیٹاہے۔ واہ رے پاکستان کا اآزاد میڈیا تیرا انصاف میں قربان جاؤں۔عثمان بزدار نہ بولے تو چپ ہے بولے تو بونگیاں مارتا ہے۔ بزدار صاحب آپ پہ گلا نہیں آپ جس منصب پہ آئے ہیں آج تک یہاں شہنشاہ تھے آج ان پر قدرت کا انتقام آیا ہے تو وہ چلائیں گے۔ میرا یہ کالم پڑھ کر میرے پر بھی تنقید ہو گی کیونکہ میں بھی آسان ہدف ہوں۔

محمد جمال
About the Author: محمد جمال Read More Articles by محمد جمال: 4 Articles with 4531 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.