نہیں چاہئے یہ کٹا پھٹا پاکستان جس کی شہ رگ بھی دشمن کے
ہاتھ میں ہو اور جس کے دریاؤں کے سوتے بھی دشمن کے پاس۔یہ واویلا کرتا رہا
ایک مرد درویش اور جس نے یہ بھی کہا کہ اگر ایک بہت بڑی ہجرت نہ ہوئی تو
کمزور مسلمانوں کی عبادت گاہیں بھی غیر محفوظ ہوں گی۔اس نے مشرقی پاکستان
کو بھی الگ ملک بنگلستان بنانے کی بات کی تھی۔وہ انگریز کی چالوں کو سمجھتا
تھا شائد اسی لئے دانشوران قوم نے اسے اگلی صدی کا لیڈر کہا اور تو اور
موجودہ دور کے عظیم لیڈر عمران خان نے بھی تسلیم کیا اور وعدہ کیا کہ وہ ر
سر اقتتدار آ کر اس خوددار اور غیرت مند لیڈر کے جسد خاکی کو پاکستان لائیں
گے ۔آج ۳ فروری ہے یہ نقاش پاکستان چودھری رحمت علی کا یوم وفات ہے۔وہی
چودھری رحمت علی جو پہلے پاکستانی تھے جنہوں نے وطن عزیز کو خوبصورت نام
دیا۔چودھری صاحب کا تعلق گڑھ شنکر ہشیار پور انڈیا سے تھا جہاں موہراں گاؤں
میں وہ ایک زمیندار شاہ محمد گوجر کے ہاں پیدا ہوئے تاریخ پیدائش ۱۶ نومبر
۱۸۹۷ ہے گورسی گوت تھی۔اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہوئے تو ایچی سن
کالج میں پڑھانا شروع کیا اس کے بعد لاء کی تعلیم کے لئے پنجاب یونیورسٹی
میں آئے البتہ ۱۹۳۰ میں عمانوئیل کالج کیمبرج چلے گئے جہاں سے ایم اے ۱۹۴۰
میں کیا۔ ۱۹۴۳ میں بار ایٹ لاء ہوئے ۔تقسیم کے بعد ان کے گھرانے کے افراد
فیصل آباد آ گئے۔چودھری صاحب ایک فکری شخص تھے۔وزیر اعظم عمران خان نے ایک
تقریب میں بجا فرمایا کہ وہ آگے کی سوچ رکھتے تھے بڑے لوگ تو پنگوڑوں میں
بھی بڑے دکھائی دیتے ہیں۔صرف اٹھارہ سال کی عمر میں اسلامیہم کالج ریلوے
روڈ لاہور کی بزم شبلی میں کہہ دیتے ہیں کہ اسلامیان ہند کو الگ تشخص کے
ساتھ زندہ رہنا ہو گا۔الگ سے جینا ہو گا۔کمال کے زیرک تھے ان کا کہنا تھا
کہ ہمیں ہندوؤں سے الگ رہنا ہے ورنہ ہماری مسجدیں بھی نہیں بچیں گی۔کشمیر
کے بارے میں انہوں نے کہا ہمارے دریاؤں کے سوتے پاکستان کے پاس ہونے
چاہئیں۔بنگلہ دیش کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اسے الگ ملک ہونا چاہئے اس
کا نام بھی الگ سے تجویز کیا۔اسی طرح ریاست حیدر آباد کو بھی فاروقستان کا
نام دیا کرتے تھے۔۱۹۱۵ کا دور وہ دور تھا جب بر صغیر کی مسلم قیادت ہندو
مسلم اتحاد کی بات کرتی تھی۔چودھری صاحب انتہائی شاندار تعلیمی ریکارڈ کے
حامل تھے وہ چیف کالج میں پڑھاتے بھی رہے انگلینڈ وکالت کی اعلی تعلیم حاصل
کرنے سے پہلے وہ مزاری اسٹیٹ کے مالکان کے استاد بھی رہے۔وہ ایک ایسے
پاکستان کی تخلیق چاہتے تھے جو جغرافیائی طور پر مضبوط ہو۔اس کالم میں
موضوع یہ نہیں ہے کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح سے بڑے لیڈر تھے لیکن ان
کی سوچ آزادی کی سوچ تھی ان کا نظریہ ایک آزاد ملک کا حصول تھا۔تاریخ نے
ثابت کیا کہ بنگلہ دیش ہم سے الگ کر دیا گیا۔چودھری صاحب سمجھتے تھے کہ ہند
کے اندر جتنے مکمل آزادمسلم ممالک بن جائیں وہ مسلمانوں کے لئے آگے چل کر
بہتر ثابت ہوں گے ۔دو قومی نظرئے کے اولین خالق چودھری رحمت علی تھے علامہ
اقبال نے کبھی مکمل آزاد ملک کا نہ تو خواب دیکھا اور نہ ہی اس کا مطالبہ
کیا۔یہ ایک ایسا سچ ہے جو ستر سال تک چھپایا گیا۔اقبال ملت اسلامیہ کے شاعر
تھے وہ ملت پاکستان کے شاعراس نہ تھے۔انہوں نے موجودہ پاکستان پر مشتمل
علاقوں کے بارے میں محدود آزادی جو ہند کے اندر رہ کر مل جانے کا مطالبہ تو
کیا بٹ کے رہے گا ہندوستان اور بن کے رہے گا پاکستان ان کی سوچ سے مطابقت
نہیں رکھتا
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بگل بھی انہی پابندیوں میں رہ کر حاصل آزادی
کو تو کر لے اس شعر کا ترجمہ واضح کر دیتا ہے کہ مسلمانان ہند کو کیا کہہ
رہے ہیں۔وہ اپنے چاہنے والوں کو صاف کہہ رہے ہیں کہ آزادی وہ لو جو صنوبر
نے لی جو آزاد بھی ہے اور جس کے پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔
چودھری رحمت علی کے مقام کا تعین پہلے نہیں کیا گیا تو اب کر لینا چاہئے
اگر وزیر اعظم نے بھرے جلسے میں ان کی علمی فکری سوچ کا اعتراف کرتے ہوئے
یہ تک کہہ دیا کہ وہ اپنے ہم عصروں سے منفرد تھے اور آ گے کی سوچ رکھتے تھے
تو قوم کے دانشوروں کو خالق دو قومی نظریہ انہیں قرار دے دینا چاہئے۔رہی
بات اقبال کی تو وہ ملت اسلامیہ کی نشاط ثانیہ کا خواب دیکھنے والے شاعر
تھے آپ انہیں جمال الدین افغانی کہہ سکتے ہیں انہیں رومی ء ہند کہہ سکتے
ہیں۔
چودھری رحت علی امانتا دفن ہوئے وہ نمونئے کے مرض میں مبتلاء تھے ان کا
علاج نہ ہو سکا وہ ۳ فروری ۱۹۵۱ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۲۰ فروری کو سپرد
خاک ہوئے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ انہیں اسلامی طریقے سے دفن کیا جائے ان
کی نماز جنازہ مصری طالب علم نے پڑھائی وہ پردیس لیڈر جس نے اس ملک کے لئے
خواب دیکھا اسے پردیس ہی میں مرنے پر مجبور کیا۔ہم جنہیں شہید ملت کہتے ہیں
اﷲ ان کی شہادت قبول کرے مگر ۱۹۴۸ میں پاکستان بننے کے بعد جب وہ پاکستان
رہنے کے لئے تشریف لائے تو انہیں اس ملک سے جبری بے دخل کیا گیا۔یہ ایک
ایسا واقعہ ہے جو جناب لیاقت علی خان کی ذات پر ایک سوال سا بن کر زندہ رہے
گا۔
کیا چودھری رحمت علی سے لیاقت علی خان مرعوب تھے؟کیا وہ سمجھتے تھے کہ
چودھری رحمت علی کے ہقتے ہوئے میری حیثیت کم تر ہو گی؟اگر یہ نہیں تو مجھے
کوئی سمجھا دے کوئی ادیب کوئی ادیب اور کوئی دانشور خاص طور پر میرا سوال
جناب الطاف حسین قریشی جناب ضیاء شاہد سے ہے۔دوسری بات چودھری رحمت علی کی
مخالفت جتنی لاہور سے نکلنے والے ایک اخبار کے مالک جناب مجید نظامی نے کی
وہ کسی اور نے نہیں کی۔ایک بار چودھری رحمت علی کے جسد خاکی کو پاکستان
لانے کی خبر سامنے آئی کہ انہیں بڑے اعزاز کے ساتھ لایا جائے گا اس میں اس
وقت کے وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین کا یہ اعلان کچھ لوگوں کو پسند نہ آیا
اور مخالفت میں لکھا جانے لگا۔اسی دوران میں نے جناب مجید نظامی کو ایک خط
لکھا جس میں لکھا کہ حضور لگتا ہے کہ مردہ چودھری رحمت علی سے آپ کو ڈر
لگتا ہے کہ کہیں ۴ اے شارع فاطمہ جناح کے دفتر پر قبضہ نہ کر لے شائد آپ
اسی ڈر کی وجہ سے آپ مخالفت کرتے ہیں۔مرحوم ہالیڈے ان اسلام آباد میں ملے
غصہ کیا اور کہا کہ لاہور آئے گا بات ہو گی۔بڑی طویل نشست ہوئی لیکن میں
اپنے موئقف پر ڈٹا رہا۔میرا کہنا یہ تھا کہ آپ کے بڑے بھائی حمید نظامی جو
تاریخ پاکستان پر اتھارٹی ہیں اگر وہ چودھری رحمت علی کو لیڈر تسلیم کرتے
ہیں تو آپ کے نہ تسلیم کرنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ویسے بھی میرے لئے
یہ کافی ہے کہ ضیاء شاہد جیسے صحافی الطاف حسین قریشی اور بہت سے نامور لوگ
چودھری رحمت علی کی خدمات کے معترف ہیں تو کوئی نہ مانے اس سے کوئی خاص فرق
نہیں پڑتا۔
۱۹۳۳ میں جب ناؤ آر نیور کا شہرہ ء آفاق پمفلٹ گول میز کانفرنس کے شرکاء
میں تقسیم کیا گیا تو اس وقت کے مسلمان لیڈروں نے اسے ایک طالب علم کے ذہن
کی تخلیق قرار دیا پاکستان موومنٹ کی اس پیش کردہ آزاد ملک کے مطالبے کی
تحریک کو نا قابل عمل کہنے والوں نے ٹھیک سات سال بعد قرارداد لاہور پیش کر
دی جسے پریس نے مطالبہ پاکستان قرار دیا۔چودھری صاحب کے جسد خاکی کو
پاکستان لانا اس لئے ضروری ہے کہ وہ امانتا دفن ہیں،دوسری بات اگر برسوں
بعد جمال الدین افغانی افغانستان لائے جاتے ہیں تو وہ کیوں نہیں؟تیسری بات
پاکستان کے لفظ اور نظرئے کے خالق کا بلاد غیر میں امانتا دفن رہنا ریاست
پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے-
چودھری صاحب پردیس میں رہیں جو نقاش پاکستان بھی ہیں اور ان کے نام پر یہاں
کوئی بڑا ادارہ ایئرپورٹ کوئی شہر نہ ہو یہ بات بھی مناسب نہیں۔اس کالم میں
حکومت پاکستان سے مطالبہ پے کہ اسلام آباد ائر پورٹ کا نام رحمت علی ائر
پورٹ رکھا جائے،اس ملک میں الطاف حسین یونیورسٹی،باچا خان یونیورسٹی کا
ہونا در گزر اور جس نے وہ نام دیا جس کا صبح و مساء تذکرہ کرتے ہیں اسے
کیمبرج میں امانتا چھوڑا جاتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وعدوں میں ایک وعدہ یہ بھی ہے کہ وہ بر سر اقتتدار
آ کر ان کے جسد خاکی کو پاکستان لائے گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر قومی
لیڈران کی طرح چودھری رحمت علی کو قومی ہیرو کا جائز مقام دیا جائے۔پنجاب
اسمبلی کو اس سلسلے میں ذمہ داری نبھانی چاہئے۔
چودھری صاحب پر گوجر برادری ایک مہربانی کرے اس اسلامیان پاکستان کا ہیرو
رہنے دے۔گوجروں کو اس سلسلے میں اس فخر سے تو جڑے رہنا چاہئے کہ وہ اس
مارشل قوم کا فرد ہے جس نے نہ صرف رحمت علی بلکہ میجر طفیل جیسے بطل حریت
دئے لیکن وہ سمجھے کہ چودھری رحمت علی نے کسی گوجرستان کی بات نہیں کی بلکہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسا خوبصورت ملک بنانے میں بنیادی اینٹ
رکھی۔چودھری صاحب کے پاکستان کے دفاع کے لئے جانوں کا نذرانہ دیں اس کی
فکری بنیاد کا دفاع کریں اور دو قومی نظرئے کی ترویج کے لئے تن من اور دھن
لگا دیں۔
چودھری صاحب طویل عرصہ بیمار رہے بد قسمتی دیکھئے کہ جس ملک کے خواب بنتے
بنتے جوانی لٹا دی وہاں جب بہار آئی تو کہہ دیا گیا کہ چلو تمہارا کام
نہیں۔کہتے ہیں قائد اعظم جب زیارت میں تھے اور زندگی کی آخری سانسیں لے رہے
تھے انہی دنوں کچھ لوگ ان کی تیمار داری کرنے آئے جب وہ چلے گئے تو قائد نے
اپنی بہن فاطمہ جناح سے کہا فاطی تم جانتی ہو یہ لوگ کیوں آئے انہوں نے
عظیم بھائی سے کہا تیمار داری کے لئے جواب دیا نہیں وہ دیکھنے آئے کہ میں
کتنے دن زندہ رہ سکتا ہوں۔قائد اعظم محمد علی جناح اور چودھری رحمت علی کی
نا ہونے والی ملاقات کی وجہ بھی یہی لوگ تھے۔چودھریر رحمت علی جیسے دور
اندیش لیڈر کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ اپکستان کی تاریخ کے سیاہ ابواب میں
لکھا گیا۔اس خوددار لیڈر کو اس کا مقام دیا جائے۔
وہ پردیس میں اﷲ سے جا ملے کروڑوں لوگوں کے لئے پاکستان کا خواب دیکھنے
والے کے بارے میں غالب کا یہ شعر بر محل ہے
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور
رکھ لی میرے خدا نے میری بے کسی کی لاج
چودھری صاحب کا یوم رحلت اس دعا کے ساتھ کہ اﷲ ان کی قبر کو جنت کے باغوں
میں ایک باغ بنا دے آمین
|