بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی اس وقت بھرپور انداز میں جاری ہے۔ جنت ارضی
کشمیر میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب نہتے کشمیریوں کی لاشیں نہ گرائی
جاتی ہوں، ہر روز نام نہاد سرچ آپریشن کے نام پر کشمیریوں کے خون سے ہولی
کھیلی جارہی ہے۔آپریشن آل آؤٹ کے نام پر کشمیری قوم کا جینا دوبھر کر دیا
گیا ہے۔ سخت سردی میں لوگوں کو گھروں سے نکال کر ٹھٹھرنے پر مجبور کیا جاتا
ہے۔ کشمیریوں کے باغات، گھر، دوکانیں اور املاک برباد کی جارہی ہیں، جگہ
جگہ کیمیائی ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں اور پیلٹ گن کے چھرے برسا کر
معصوم کشمیری بچوں، بچیوں اور نوجوانوں کی آنکھوں کی بینائی چھینی جارہی
ہے۔سرگرم کشمیری رہنماؤں پر بغاوت کے مقدمات بنا کر جیلوں میں ڈالا جارہا
ہے اور تاحیات عمر قید کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ کشمیری خواتین کی عزتیں
وعصمتیں محفوظ نہیں ہیں غرضیکہ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح انسانی حقوق کی
پامالیاں کی جارہی ہیں اس کی مثال ملنا مشکل ہے لیکن اس کے باوجود مظلوم
کشمیریوں کے عزم و حوصلہ میں کمی نہیں آئی۔پوری کشمیری قوم غاصب بھارتی فوج
کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہے اور قربانیوں کی عظیم داستانیں رقم کی جارہی
ہیں۔بھارتی حکومت اور فوج نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کیلئے ہر حربہ
اختیار کر رہی ہے لیکن اسے تحریک آزادی کچلنے میں زبردست ناکامی کا سامنا
ہے۔جون 2018ء میں بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ مل کر بنائی گئی مخلوط
حکومت ختم کر دی اور گورنر راج نافذ کر کے قتل و غارت گری میں مزید شدت پید
اکر دی گئی۔ اس دوران چھ ماہ میں سینکڑوں کشمیری شہید اور ہزاروں زخمی کئے
گئے لیکن جدوجہد آزادی کشمیر میں مزید تیزی آنے پرگورنر راج بھی ختم کر دیا
گیا اور اب مقبوضہ کشمیر میں صدر راج نافذ کر دیا گیا ہے۔پیپلز ڈیموکریٹک
پارٹی کشمیر میں پچھلے انیس برس میں دو مرتبہ اقتدار میں آئی تاہم اپنی مدت
مکمل نہیں کر سکی۔ریاستی گورنر ستیہ پال ملک کی طرف سے پیش کردہ سفارشات
منظور کرتے ہوئے 19دسمبر 2018میں صدر راج نافذ کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ
مودی حکومت آخری حربہ کے طور پر بدترین ظلم و دہشت گردی اور قتل و غارت گری
کے ذریعہ کشمیری قوم کو ہراساں کرکے تحریک آزادی کمزور کرنا چاہتی ہے مگراس
عمل میں بھی بھارت سرکار اور غاصب فوج کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑ
رہا ہے۔کشمیر میں اس وقت بھارتی فوج برفباری کے موسم اور خون منجمند کردینے
والے سخت سردی میں کشمیریوں کے گھروں کو بارود سے تباہ کرنے کو ایک جنگی
ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ماضی میں بھارتی فورسز اہلکار چند ایک
گھروں کو تباہ کرتے تھے لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے وحشی درندوں نے پوری پوری
بستیوں کو نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسی
ویڈیوزمنظر عام پر آئی ہیں جن میں بھارتی فوج کی طرف سے کشمیریوں کو گھروں
سے زبردستی نکال کر ان کی بستیاں بارود سے اڑاتے اور پھر ان کی بے بسی پر
قہقہے لگاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ بھارتی فوج کشمیریوں کو گھنٹوں برفباری کے
موسم میں کھلے میدانوں میں ٹھٹھرنے پر مجبور کرتی ہے۔ 1989ء سے لیکر اب
ڈیڑھ لاکھ سے زائد گھر تباہ کئے جاچکے ہیں۔ 8فروری 2000ء کو ایک ایسی ہی
واردات میں ڈوڈہ کے ناگ بل علاقہ میں رہائشی مکانات سمیت ناگ بل کا پورا
بازار نذر آتش کر دیا تھا۔ 6فروری 2000ء کو وسطی کشمیر کے چاہ ڈورہ علاقہ
میں پچیس سے تیس گھروں کو ایک ساتھ نذر آتش کر دیا گیا۔آتش زنی کی ان
وارداتوں میں کئی افراد زندہ جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو ئے۔ 20فروری
2007ء میں بانڈی پورہ میں بھی ایسا ہی کھیل کھیلا گیا جب ڈیڑھ سو سے زائد
لوگ گھروں کی تباہی سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے۔ اکتوبر 2007ء
میں کشتواڑ میں کشمیریوں کے 200 سے زائد گھر،دوکانیں اور جانوروں کے باڑے
نذر آتش کر دیے گئے۔ اسی طرح دو مساجد شہید اور سکول تباہ کر دیے گئے۔گزشتہ
برس کشمیریوں کے گھروں کو بارود سے اڑانے او رنذر آتش کرنے کی سب سے زیادہ
وارداتیں سامنے آئی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے کیلئے اسرائیل
سے درآمد کردہ 2PNGRDنامی کیمیائی مواد استعمال کر رہی ہے۔ بھارتی اہلکار
جب اور جہاں چاہتے ہیں کشمیریوں کے گھروں کو کیمیائی مواد ملے بارود سے
اڑادیتے ہیں جس سے مکانوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ وہاں موجود کشمیریوں کی
لاشیں گوشت کے ٹکڑوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور ان کی شناخت بھی ممکن نہیں
رہتی۔ سب سے پہلے عبدالماجد زرگر نامی کشمیری کمانڈر کو شہید کرنے کیلئے
کیمیائی ہتھیار استعمال کئے جانے کا انکشاف ہوا۔ اس کے بعد بھارتی فوج نے
سری نگر، شوپیاں، پلوامہ اور دیگر علاقوں میں کئی مرتبہ کیمیائی ہتھیار
استعمال کئے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں ایک پی ایچ ڈی اسکالر نثار احمد کو بھی
پلوامہ میں کیمیائی ہتھیاروں کااستعمال کر کے شہید کیا گیا۔ جنیوا کنونشن
کے تحت کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال انتہائی سنگین جرم ہے۔ پاکستان کی جانب
سے بھی کشمیر میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کی گئی اور عالمی
برادی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن بھارت بین الاقوامی قوانین کو
پاؤں تلے روندتے ہوئے کشمیریوں کیخلاف مہلک ہتھیاروں کے استعمال میں مصروف
ہے اور اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی اداروں اورملکوں نے مودی سرکار
کے بھیانک جرائم پرمجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔بھارتی فوج نے مقبوضہ
کشمیر میں حریت پسند کشمیری قائدین کی سیاسی سرگرمیوں پرمکمل پابندی لگا
رکھی ہے۔ بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی طویل عرصہ سے اپنی رہائش گاہ پر
نظربند ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک کو بھی مسلسل گرفتاریوں
و نظربندیوں کا سامنا رہتا ہے اور انہیں نماز جمعہ کی ادائیگی تک کی اجازت
نہیں دی جاتی۔ مسلم لیگ جموں کشمیر کے سربراہ ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، دختران
ملت کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی، جموں کشمیر مسلم لیگ کے چیئرمین مسرت
عالم بٹ، پیپلز ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے صدر شبیر احمد شاہ بھی جیلوں میں
قید ہیں ۔ بی جے پی سرکار ہندوستانی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کو کشمیری
لیڈروں کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور متعدد کشمیری
لیڈروں پر جھوٹے مقدمات بنا کر نئی دہلی اور انڈیا کے دیگر شہروں میں موجود
جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ سرگرم کشمیریوں کو تاحیات عمر قید کی سزائیں
سنائی گئی ہیں اور بغاوت کے مقدمات بنا کر ہمیشہ کیلئے جیلوں میں ڈال دیا
گیا ہے ۔بھارتی سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ ہے کہ کشمیریوں کو ان کی رہائش
گاہوں کے قریب جیلوں میں رکھا جائے تاہم بھارتی حکومت اپنی ہی عدالتوں کے
فیصلے تسلیم نہیں کر رہی اور کشمیری قیدیوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک رو
ا رکھا جارہا ہے۔ انہیں جیلوں میں نمازوں کی ادائیگی اور قرآن پاک کی تلاوت
کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور زبردستی بھجن گانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
اسی طرح کشمیری قیدیوں کو ناقص خوراک دی جارہی ہے اور سلوپوائزننگ کا نشانہ
بنایا جارہا ہے جس سے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے سبھی لیڈر
مختلف قسم کے جان لیوا امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں
بھارتی فوج کی جانب سے پیلٹ گن کا استعمال بھی بہت بڑھ چکا ہے۔ پیلٹ گن کے
استعمال کا آغاز 2010ء میں جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک کے دوران کیا گیا تاہم
2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد عوامی تحریک شدت اختیار کرنے پر اس
انتہائی مہلک ہتھیار کا استعمال تیز کر دیا گیا۔ برہان وانی کی شہادت کے
بعد اب تک ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد کشمیری پیلٹ گن کے چھروں سے زخمی ہوئے
ہیں جن میں سے سینکڑوں کشمیریوں ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی متاثر ہوئی
ہے۔ 2014 میں افریقن جرنل آف ٹراما میں شائع ہونے والی سری نگر کے علاقے
بیمینا میں واقع شیر کشمیر آف میڈیکل سائنسز کے ماہر امراض چشم کی تحقیق کے
مطابق، پیلٹ گن کا شکار ہونے والوں میں سے ایک تہائی مریض دوبارہ بینائی
حاصل نہیں کر پاتے۔پیلٹ متاثرہ مریضوں پر تحقیق کرنیو الے ڈاکٹروں کاکہنا
ہے کہ 33فیصد مریضوں کی بینائی واپس نہیں آتی اور جن کی بینائی مسلسل
آپریشنز کے بعدواپس آتی ہے وہ بھی اپنی نارمل بینائی حاصل نہیں کر پاتے
بلکہ ان کی آنکھ میں ہمیشہ کیلئے نقص رہ جاتا ہے۔
بھارت کی بی جے پی حکومت اس وقت مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کاتناسب تبدیل
کرنے کی بھی خوفناک سازشیں کر رہی ہے تاکہ اگر بین الاقوامی دباؤ کے نتیجہ
میں اگر کبھی رائے شماری کروانا بھی پڑے تو ہندوؤں کی اکثریت زیادہ ہو۔ اس
کیلئے جموں میں وہ مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کر چکے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی
بڑی تعداد کو ڈرا دھمکا کر ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا اور ابھی تک
مسلمانوں کی عزتیں و حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب وادی کشمیر میں
آباد ہندوؤں کو سازش کے تحت جموں میں لاکر آباد کیا گیا تاکہ یہاں ان کی
آبادی زیادہ ہو۔ بھارت سرکار اب وہی کھیل جو اس نے جموں میں کھیلا تھا وادی
کشمیر میں بھی کھیلنا چاہتی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ کشمیر میں ڈیوٹی کرنے
والے لاکھوں ہندوستانی فوجیوں کو ریٹائرڈ ہونے کے بعد کشمیر میں ہی بسا دیا
جائے اور ان کیلئے مختلف شہروں و علاقوں میں باقاعدہ سینک(فوجی) کالونیاں
بنائی جائیں تاکہ ہندوؤں کی آبادی بھی بڑھے اورہر شہر میں بہت بڑی تعداد
میں ان تربیت یافتہ اہلکاروں کو بسا کر تحریک آزادی کچلنے میں بھی انہیں
آسانی ہو۔انڈیاکے ان مذموم عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارتی آئین
کی دفعہ 370 اور 35اے ہے جو کشمیریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ اس
قانون کی وجہ سے غیر کشمیریوں کو یہاں زمینیں و جائیداد خریدنے، شہریت حاصل
کرنے اور ووٹ وغیرہ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اگریہ ختم کر دی جاتی ہے تو
بھارت بآسانی یہاں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششوں
میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ کشمیری قوم اسے اپنے لئے زندگی
اور موت کا مسئلہ سمجھتی ہے۔ جموں کشمیر میں دفعہ 370یعنی سٹیٹ سبجیکٹ کا
یہ قانون 1927سے نافذ ہے جبکہ 35اے 1954میں نافذ کی گئی تھی۔مقبوضہ کشمیر
کو ایک طرف رکھ کر بھارت کی دیگر ریاستوں میں نافذ قوانین کا جائزہ لیا
جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آسام، اروناچل پردیش،ناگا لینڈ،
میزورام،سکم، آندھراپردیش، منی پور ، گوا اور دیگرریاستوں میں بھی ایسے
قوانین نافذ ہیں جن کی وجہ سے دوسری ریاستوں کے شہریوں کو یہاں جائیداد
وغیرہ خریدنے کی پابندی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کا معاملہ چونکہ خالصتا
مسلمانوں کا ہے اس لئے مودی سرکارنے خاص طور پر اسے ٹارگٹ کر رکھا ہے تاہم
حریت کانفرنس سمیت تمام کشمیری جماعتوں اور عوام کے بھرپور احتجاج کی وجہ
سے بھارت اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔اس وقت صورتحال یہ ہے
کہ مودی سرکار عدالتوں میں رٹ پٹیشن کے ذریعہ بھی یہ قوانین ختم کرنے کی
سازشیں کر رہی ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ وہ عدالت سے دفعہ 35اے ختم
کرنے کیخلاف فیصلہ کروالیں تاکہ وہ کشمیر میں اپنا آخری راؤنڈ کھیل سکیں
جبکہ دوسری جانب کشمیری قائدین اور عوام کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اگر یہ
دفعات ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو کشمیری قوم اپنے خون کا آخری قطرہ بہانے
تک لڑے گی اور کشمیر میں ایسی مضبوط تحریک کھڑی ہو گی کہ بھارتی غاصب فوج
اور حکومت کیلئے اس پر قابو پانا کسی طور ممکن نہیں رہے گا۔
بھارت مقبوضہ کشمیر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تحریک آزادی میں
شمولیت سے بھی سخت پریشان ہے۔بھارتی حکام کی طرف سے ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کر
کے بین الاقوامی دنیا کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں کہ کشمیرمیں
بھارتی فوج کیخلاف برسرپیکار مجاہدین مبینہ طور پر سرحد پار کر کے آتے ہیں
لیکن مقامی کشمیریوں نے جس طرح حالیہ برسوں میں قربانیاں پیش کی ہیں اس سے
یہ بات ساری دنیا پر واضح ہو گئی ہے کہ کشمیریوں کی تحریک ان کی اپنی ہے
اورمقامی کشمیری ہی جدوجہد آزادی کو بھرپور انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خاص طور پر جب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تحریک آزادی میں شامل ہو رہے
ہیں بھارت سرکار کے اس مذموم پروپیگنڈہ کو کوئی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں
ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے پروفیسر رفیع الدین بٹ، ڈاکٹر ظہیر
الدین خان،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل پی ایچ ڈی ڈاکٹر
عبدالمنان وانی اور ڈاکٹر سبزار احمد سمیت متعدد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان
غاصب بھارتی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے ہیں اور انہوں نے نوجوانوں کیلئے
نقش راہ متعین کیا ہے۔اسی طرح تحریک حریت کے سربراہ محمد اشرف صحرائی کے
بیٹے جنید اشرف سمیت درجنوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان غاصب بھارتی فوج
کیخلاف برسرپیکار ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ کشمیر میں
جس تیزی سے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، انجینئرز، بزنس ایڈمنسٹریشن اور دیگر اعلیٰ
ڈگریاں رکھنے والے تحریک آزادی میں شامل ہو رہے ہیں‘ اس صورتحال نے بھارتی
فوجی حکام اور عسکری ماہرین کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ بھارتی ایجنسیوں نے
بوکھلاہٹ میں کشمیرسمیت ہندوستانی ریاستوں میں زیر تعلیم طلباء کیخلاف
گھیرا تنگ کر رکھا ہے اور انہیں بلاوجہ گرفتار کر کے مقدمات بنائے جارہے
ہیں لیکن اس کے باوجود کشمیری طلباء تحریک آزادی میں ہراول دستہ کا کردار
ادا کر رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی فوج کے بدترین ظلم و دہشت
گردی کے باوجود آج کشمیر میں ہر طرف سبز ہلالی پاکستانی پرچم لہراتے دکھائی
دیتے ہیں۔ کبھی وقت تھا کہ اکا دکا نوجوان چہروں پر نقاب چڑھائے جہاں کہیں
موقع ملتا پاکستانی پرچم لہرادیتے تھے لیکن اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ
کشمیر میں اس طرح پاکستانی پرچموں کی بہار دکھائی دیتی ہے جس طرح پاکستان
میں لاہور،اسلام آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں لہرائے جاتے ہیں۔ کشمیری
مائیں شہید ہونیوالے اپنے بیٹوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرنے میں
فخر محسوس کرتی ہیں۔ بھارت سرکار نے کشمیریوں کو اس عمل سے روکنے کی بہت
کوشش کی، شہداء کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی، شہید کشمیریوں کو زبردستی رات
کی تاریکی میں دفن کرنے پر مجبور کیا گیا ، اسی طرح پورے کشمیر میں سبز
کپڑے کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی تاکہ لوگ پاکستانی پرچم تیار نہ کر
سکیں۔ دختران ملت جموں کشمیر کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور
ناہیدہ نسرین پر محض اسی جرم کی بنیاد پر بغاوت کے مقدمات بنا کر نئی دہلی
کی جیل میں ڈال دیا گیا ہے کہ انہوں نے یوم پاکستان کے موقع پر پاکستانی
پرچم لہرایا اور پاکستان کا قومی ترانہ پڑھا تھا لیکن یہ سب پابندیاں،
رکاوٹیں اور کشمیریوں پر بغاوت کے مقدمات بنا کر انہیں جیلوں میں ڈالنے
جیسے اقدامات کشمیریوں کے عزم و حوصلہ میں رکاوٹ نہیں بن سکے۔آج بھی کشمیری
شہداء کے جنازوں میں کرفیو کی پابندیوں کے باوجود لاکھوں کشمیری جوق درجوق
شریک ہوتے ہیں اور کشمیر کے گلی کوچوں میں سبز ہلالی پرچم بھی اسی طرح
لہراتے دکھائی دیتے ہیں۔بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری
کوشروع دن سے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے یہی وجہ ہے کہ سانحہ
کنن پوش پورہ جیسے کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جب بھارتی فوج کی طرف سے دس
سال کی کم عمر کشمیری بیٹی سے لیکر ستر سال کی بوڑھی عورتوں کی اجتماعی
عصمت دری کی گئی تاکہ کشمیریوں کی عزت و غیرت کو نشانہ بنا کر انہیں تحریک
آزادی میں شمولیت سے باز رکھا جائے تاہم آفرین ہے مظلوم کشمیری قوم پر کہ
وہ اپنا سب کچھ لٹا کر بھی آنے والے کل کیلئے اپنے آج کو قربان کر رہے ہیں۔
1989سے اب تک تیس ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں اور 11 ہزار سے زائد
خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔1981ء میں کپواڑہ کے علاقہ کنن پوش پورہ میں
ایک سو سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی، 2009ء میں آسیہ اور نیلوفر نامی
دو بہنوں کو زبردستی اغواء اور زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا جس پر پوری
دنیا میں شور اٹھالیکن کسی بھارتی فوجی کو آج تک سزا نہیں دی گئی۔ مقبوضہ
کشمیر میں جس قدر بڑی تعدا د میں خواتین کی عصمت دری کی گئی اس کی مثال
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی نہیں ملتی۔ مقبوضہ کشمیر دس ہزار سے زائد
شہریوں کو لاپتہ کیا گیااور جگہ جگہ سے اجتماعی قبریں برآمد ہو رہی ہیں، اس
صورتحال سے کشمیریوں کی بڑی تعداد نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے۔
ہزاروں خواتین ایسی ہیں جو نیم بیواؤں کی زندگی بسر کر رہی ہیں اور انہیں
کچھ معلوم نہیں کہ ان کے خاوند زندہ بھی ہیں یا نہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں
بھارتی فوج کے ظلم و دہشت گردی کے سبب نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہونے
والے افراد میں سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ دنیا بھر میں فوجوں کے ہاتھوں
خواتین کی عصمت دری کو بین الاقوامی سطح پر ایک سنگین جنگی جرم اور بدترین
اذیت پہنچانے کا طریقہ قرار دیا گیا ہے۔ حریت قائدین کی جانب سے اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل ، انسانی حقوق کونسل، آئی آر سی اور آئی ایف آر سی
جیسے اداروں سے بارہا اپیل کی گئی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق
کی خلاف ورزیوں کی سنگین صورتحال کا نوٹس لیں اور غاصب بھارتی فوج کو
خواتین کیخلاف جنگی جرائم سے روکا جائے لیکن کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی فوج
جو کچھ کر رہی ہے اس دہشت گردی پر کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے اور
نام نہاد انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے بھی اس پر مجرمانہ خاموشی
اختیار کر رکھی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور
قیام پاکستان کے وقت سے مسئلہ کشمیر وطن عزیز پاکستان کی خارجہ پالیسی کا
بنیادی جزو رہا ہے۔ کشمیری قوم بھی پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتی
ہے اور الحاق پاکستان کیلئے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی ہے۔وہ آج
بھی پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ وہ اپنی
عیدیں پاکستان کے ساتھ مناتے ہیں اور اپنی گھڑیوں کو پاکستانی وقت کے مطابق
رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان
مظلوم کشمیریوں کی ہرممکن مددوحمایت کا فریضہ انجام دے۔محض اقوام متحدہ کے
کسی اجلاس میں کشمیر کا نام لے دینا کافی نہیں ہے دنیا بھر میں اپنے سفارت
خانوں کو متحرک کرتے ہوئے تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیریوں کے حق میں
مضبوط آواز بلند اور انڈیا کی ریاستی دہشت گردی بند کروانے کیلئے بھرپور
کردارادا کرنا چاہیے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں بعض حکومتیں انڈیا
سے دوستی پروان چڑھانے کیلئے کشمیری تنظیموں اورشخصیات کی سیاسی و رفاہی
سرگرمیوں میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہی ہیں۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ پروفیسر
حافظ محمد سعید نے2017ء کو کشمیر کا سال قرار دیااور ملک بھر میں پروگراموں
کے انعقاد کا اعلان کیا تو محض بھارتی خوشنودی کیلئے انہیں نظربند کر دیا
گیاتاہم بعد میں عدالت میں کیس چلا اور ان کی رہائی ممکن ہوئی۔ اسی طرح
2018ء میں بھی حافظ محمد سعید نے کشمیریوں کیلئے عشرہ یکجہتی کشمیر منانے
کا اعلان کیا تو ایک مرتبہ پھر انہیں حراست میں لیکر نظربند کر دیا گیا جس
پر دس ماہ تک لاہور ہائی کورٹ میں کیس زیر سماعت رہا اور پھر عدالتی
احکامات کے نتیجہ میں ان کی رہائی ہوئی۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد
سعیدپاکستان میں مظلوم کشمیریوں کے حق میں سب سے مضبوط آواز سمجھے جاتے ہیں
تاہم جس طرح انہیں کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے سے روکنے کی کوششیں
کی جاتی رہی ہیں اس سے کشمیریوں کا اعتماد مجروح ہوااورمقبوضہ کشمیر میں
حریت کانفرنس سمیت تمام کشمیری جماعتوں اور شعبہ ہائے زندگی کی جانب سے اس
عمل کی شدید مذمت کی گئی۔ لہٰذا پاکستان میں برسراقتدار آنے والی تمام
حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی قومی کشمیر پالیسی پر
کاربند ہوں اورمحض بیرونی قوتوں کی خوشنودی کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے سے
گریز کیا جائے جس سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچتا ہو اور
کشمیری و پاکستانی قوم کے مورال پر اثر پڑتا ہو۔ |