بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کلیم اﷲ
جموں کشمیر برصغیر کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے‘ جس طرح حیدر
آباد،جونا گڑھ اور مناوا درجیسے مسلم اکثریتی علاقوں پر بھارت نے غاصبانہ
قبضہ کیا اسی طرح قیام پاکستان کے اڑھائی ماہ بعد 29اکتوبر1947کو انڈیا نے
کشمیر پر لشکر کشی کی اور ریاست ہائے جموں کشمیر پر بھی اپنا تسلط جما لیا۔
بھارت کشمیر پر چڑھائی کیلئے مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے 26اکتوبر 1947ء
کو بھارت کے ساتھ الحاق کو جواز کے طور پر پیش کرتا ہے اور دنیا کو دھوکہ
دیا جاتا ہے کہ مہاراجہ کی گزارش پر ہی الحاق کی دستاویز پر دستخط ہوئے اور
ان کے کہنے پر ہی بھارت نے اپنی فوج سری نگر میں اتاری تھی تاہم یہ باتیں
اب واضح طور پر منظر عام پر آچکی ہیں کہ الحاق کی دستاویز پر دستخط کی
باتیں جھوٹ کا پلندہ ہیں اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ معروف تاریخ دان
وکٹوریہ شو فیلڈ کا بھی کہنا ہے کہ ہندوستان سے الحاق کی دستاویز کا کوئی
وجود نہیں ہے یہی وجہ ہے یہ آج تک دنیا کے سامنے نہیں لائی گئی۔بہرحال
مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی طرف سے نہتے کشمیریوں کی بدترین
قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔ جس قدر وحشیانہ انداز میں ظلم و دہشت
گردی جاری ہے اس پربھارتی میڈیا، سیاستدان اور دانشور وں کے بعض حلقے بھی
خاموش نہیں رہ سکے۔بھارت کے سابق وزیر خزانہ اور بی جے پی کے مرکزی لیڈر
یشونت سنہا نے اعتراف کیا ہے کہ ہم کشمیر کھوچکے ہیں اور کشمیریوں کو اب ہم
پر اعتماد نہیں رہا۔ ہم نے کشمیر میں ایک کے بعد ایک غلطی کی ہے اوربھارتی
حکومت نے وحشیانہ طاقت کے استعمال کا نظریہ اپنا رکھاہے۔کولگام میں
ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں درجنوں کشمیریوں کا قتل ہمارے سامنے ہے۔یشونت
سنہا کی طرح سابق بھارتی چیف جسٹس مارکنڈے کاٹجو اور اداکار نصیر الدین شاہ
بھی کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں پر ہونیو الے مظالم کیخلاف آواز بلندکرتے
دکھائی دیتے ہیں۔ سابق بھارتی جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے ہندوستانی آرمی چیف
جنرل بپن راوت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاکہ انہیں مبارک ہو پلوامہ اور
شوپیاں میں نہتے کشمیریوں کا قتل عام کر کے انہوں نے جلیاں والا باغ اور
ویت نام کی یاد تازہ کردی ہے۔ بھارتی فوج کشمیر میں ایک ایسی جنگ میں مصروف
ہے جو وہ کبھی نہیں جیت سکتی۔ بھارتی جسٹس کا کہنا تھا کہ کشمیری مجاہدین
کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ کسی ملک کی فوج دوسرے ملک کی فوج سے تو لڑ سکتی ہے
لیکن عوام سے نہیں لڑ سکتی۔ انہوں نے بھارتی فوج کو مشورہ دیا کہ وہ فیلڈ
مارشل کیٹل اور جنرل جوڈل یاجنرل ٹوجو اوریاماشیتا کی طرح پیش نہ آئیں
جنہیں مظالم کا قصوروار قرار دیا گیا اورنیورمبرگ اورٹوکیو ٹریبونلز نے
انہیں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر
بھارتی میڈیا میں موجود انصاف پسند حلقے بھی آواز بلند کرتے دکھائی دیتے
ہیں۔ بھارت کے ایک نامور انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف نے حال ہی میں ریاست
کیرالہ میں ہندو انتہاپسندوں کے ہنگامے کی ایک تصویر شائع کرتے ہوئے لکھاہے
کہ کشمیر میں ہم انہیں مارتے ہیں ،کیرالہ میں ہم انہیں عقیدت مند کہتے
ہیں۔مغربی بنگال سے شائع ہونے والے اپنے شمارے کی شہ سرخی میں کشمیر اور
جنوبی کیرالہ کی ریاستوں میں پولیس کے رویوں میں پائے جانے والے فرق کو
بیان کیاگیاہے۔ٹیلی گراف کی مذکورہ ہیڈلائن اور مضمون کو مقبوضہ کشمیر کے
نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بھارت کے نامور صحافیوں اور سیاسی رہنماؤں نے بھی
سوشل میڈیا پر شیئر کیاہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور
قیام پاکستان کے وقت سے مسئلہ کشمیر وطن عزیز پاکستان کی خارجہ پالیسی کا
بنیادی جزو رہا ہے۔ کشمیری قوم بھی پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتی
ہے اور الحاق پاکستان کیلئے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی ہے۔وہ آج
بھی پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ وہ اپنی
عیدیں پاکستان کے ساتھ مناتے ہیں اور اپنی گھڑیوں کو پاکستانی وقت کے مطابق
رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان
مظلوم کشمیریوں کی ہرممکن مددوحمایت کا فریضہ انجام دے۔محض اقوام متحدہ کے
کسی اجلاس میں کشمیر کا نام لے دینا کافی نہیں ہے دنیا بھر میں اپنے سفارت
خانوں کو متحرک کرتے ہوئے تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیریوں کے حق میں
مضبوط آواز بلند اور انڈیا کی ریاستی دہشت گردی بند کروانے کیلئے بھرپور
کردارادا کرنا چاہیے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں بعض حکومتیں انڈیا
سے دوستی پروان چڑھانے کیلئے کشمیری تنظیموں اورشخصیات کی سیاسی و رفاہی
سرگرمیوں میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہی ہیں۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ پروفیسر
حافظ محمد سعید نے2017ء کو کشمیر کا سال قرار دیااور ملک بھر میں پروگراموں
کے انعقاد کا اعلان کیا تو محض بھارتی خوشنودی کیلئے انہیں نظربند کر دیا
گیاتاہم بعد میں عدالت میں کیس چلا اور ان کی رہائی ممکن ہوئی۔ اسی طرح
2018ء میں بھی حافظ محمد سعید نے کشمیریوں کیلئے عشرہ یکجہتی کشمیر منانے
کا اعلان کیا تو ایک مرتبہ پھر انہیں حراست میں لیکر نظربند کر دیا گیا جس
پر دس ماہ تک لاہور ہائی کورٹ میں کیس زیر سماعت رہا اور پھر عدالتی
احکامات کے نتیجہ میں ان کی رہائی ہوئی۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد
سعیدپاکستان میں مظلوم کشمیریوں کے حق میں سب سے مضبوط آواز سمجھے جاتے ہیں
تاہم جس طرح انہیں کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے سے روکنے کی کوششیں
کی جاتی رہی ہیں اس سے کشمیریوں کا اعتماد مجروح ہوااورمقبوضہ کشمیر میں
حریت کانفرنس سمیت تمام کشمیری جماعتوں اور شعبہ ہائے زندگی کی جانب سے اس
عمل کی شدید مذمت کی گئی۔ لہٰذا پاکستان میں برسراقتدار آنے والی تمام
حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی قومی کشمیر پالیسی پر
کاربند ہوں اورمحض بیرونی قوتوں کی خوشنودی کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے سے
گریز کیا جائے جس سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچتا ہو اور
کشمیری و پاکستانی قوم کے مورال پر اثر پڑتا ہو۔کشمیر میں اس وقت صدارتی
راج نافذ ہے۔ مودی حکومت آخری حربہ کے طور پر بدترین ظلم و دہشت گردی اور
قتل و غارت گری کے ذریعہ کشمیری قوم کو ہراساں کرکے تحریک آزادی کمزور کرنا
چاہتی ہے ۔ شدید سردی میں کشمیریوں کے گھراور بستیاں برباد کی جارہی ہیں۔
نہتے کشمیریوں کیخلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ پوری
کشمیر ی قیادت اس وقت جیلوں میں بند ہے۔ پیلٹ گن کے چھروں سے سینکڑوں
کشمیریوں کی بینائی چھین لی گئی ہے۔ مودی سرکار مسلسل جموں کشمیر کی آبادی
کا تناسب تبدیل کرنے کی سازشیں کر رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بڑی
تیزی سے تحریک آزادی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ برستی گولیوں میں
کشمیرمیں ہر طرف پاکستانی پرچموں کی بہار دکھائی دیتی ہے۔ بھارتی فورسز نے
تنگ آکر سبز کپڑے کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے لیکن اس کے باوجود کشمیری
اپنے شہداء کو پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ
تحریک آزادی اس وقت آخری مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ
حکومت پاکستان مصلحت پسندی ترک کرکے مظلوم کشمیریوں کی ہر ممکن مددوحمایت
کا فریضہ سرانجام دے تاکہ مظلوم کشمیریوں کو آٹھ لاکھ بھارتی فوج کے پنجہ
استبداد سے نکالا جاسکے اور کشمیری قوم آزاد فضا میں سانس لے سکے۔
|