مودی جی اپنے بہت سارے کارناموں کے لیے یاد کیے جائیں گے
۔ ان میں سے ایک ۵ سال میں ۶ بجٹ بھی ہے۔عام بجٹ ایک سال کا ہوتا ہے۔
درمیان میں عبوری بجٹ کی ضرورت پڑ تی ہے لیکن مودی سرکار نے بیچ ہی میں
پورا بجٹ پیش کردیا یعنی اپریل کا کام فروری میں نمٹا کر اپریل فول بنادیا۔
یہ عبوری نہیں جڑواں بجٹ پیدا ہے۔ پچھلے بجٹ کی پیدائش کے بعد وزیرخزانہ کی
طبیعت ایسی بگڑی کہ ابھی تک سنبھل نہیں پائی اس لیے یہ نئے ٹیسٹ ٹیوب بجٹ
کو جنم دینے کے لیے سروگیٹ مدر کے طور پر پیوش گوئل کی خدمات حاصل کی گئیں
۔انہوں نے ایک گول موسل نونہال پیش کردیا۔ حزب اختلاف کا تو کام ہی رونا
دھونا ہوتا ہے چلیے اس کو نظر انداز کرکےدیکھیں کل یگ کے چانکیہ امیت شاہ
جی اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا اس بجٹ سے ثابت ہوگیا ہےکہ
مودی حکومت غریبوں، کسانوں اورنوجوانوں کے خوابوں اوران کے عزائم کے لئے
وقف ہے۔ یعنی پونے پانچ سالوں کی ناکام کارکردگی جو چیز ثابت نہیں کرسکی اس
کا ثبوت اس بجٹ میں مل گیا ۔ جوش میں انہوں نےاسےمکمل بجٹ بتا دیا جبکہ یہ
اس کا موقع نہیں تھا ۔ ارون جیٹلی اگرگزشتہ سال مکمل بجٹ پیش کرتے تو پیوش
گوئل کو یہ زحمت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
بی جے پی صدرنےکہا کہ دوہیکٹرسے کم زمین والےغریب کسانوں کے لئے’پردھان
منتری کسان سمان یوجنا‘ ایک تاریخی پہل ہے، جس کے تحت ملک کے تقریباً ۱۲
کروڑکسانوں کو مودی حکومت کی طرف سے ۷۵۰۰۰کروڑروپئےکےبجٹ سے سالانہ ۶۰۰۰
روپئے دیئے جائیں گے۔ امیت شاہ جی بنیا ہیں اس لیے ان کا حساب کتاب بہت
چوکھا ہوتا ہے ۔اس تاریخی بیان میں یہ تسلیم کیا گیا ہے ملک کے ۱۲ کروڈ
کسان سرکاری امداد کے مستحق ہیں ۔ ان کی حالت اتنی خستہ ہے کہ اگر انہیں
سالانہ ۶۰۰۰ روپئے ، دو دوہزار کی تین قسطوں میں بھی دیئے جائیں تو وہ خوش
ہوکر کمل پر مہر لگا دیں گے کیونکہ پردھان منتری کسان یوجنا میں ان کا سمان
کیا گیا ہے۔ یہ کسانوں کا اپمان ہے یا سمان اس کا فیصلہ تو انتخاب میں ہوگا۔
شاہ جی نے کہا کہ یہ فیصلہ کسان کی آمدنی دوگنا کرنے کی کوشش میں سنگ میل
ثابت ہوگا۔ کسانوں کی آمدنی دوگنا ہوجائے گی کا مطلب ہے وہ آگے چل کر۱۲۰۰۰
روپئے سالانہ کمانے لگیں گے ۔ اس سے بہتر حالت میں تو وہ غریب بزرگ ہیں
جنہیں حکومت سال میں ۳۶۰۰۰روپئے پنشن دینا چاہتی ہے۔
امیت شاہ نےبجٹ میں ۷۵ہزار کروڈ کا ذکر کرکے کسانوں کو متاثر کرنے کی کوشش
کی لیکن اس رقم کو ۱۲ کروڈ کسان اور ۱۲ ماہ میں تقسیم کیا جائے تو کل ۵۲۰
روپئے بنتی ہے اس میں سے ۲۰ روپئے رقم کی فراہمی پر خرچ ہوگئے تو ۵۰۰ روپئے
ماہانہ بنتے ہیں ۔ اس میں غریب کسان کو اپنے بیوی اور بچوں کو پالناہے۔ اس
سے تو بہتر ہے وہ گائے پالے اس لیے کہ ایسا کرنے پر اسےسرکار کی طرف ۷۵۰
روپئے ماہانہ ملیں گے لیکن یہ بھی نقصان کا سودہ ہے۔ اس رقم میں گائے کے
چارے کا خرچ بھی پورا نہیں ہوگا یعنی عبوری بجٹ میں کسان کے ساتھ گئوماتا
کا بھی اپمان کیا گیا ہے ۔ جو بھگوا دھاری کسان اس بات پر خوش ہورہے ہیں کہ
ان کے لیے حکومت نے ۷۵ ہزار کروڈ مختص کردیئے انہیں چاہیے کہ دفاعی خرچ پر
بھی ایک نظر ڈال لیں ۔ گوئل جی نے دفاعی بجٹ میں ۳ لاکھ کروڈ سے زیادہ کی
رقم رکھی ہے یعنی جئے جوان پر ۴ گنا زیا دہ اور جئے کسان پر ۴ گنا کم ۔ اس
خطیر رقم کا کتنا حصہ جوانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گااور کتنا
رافیل جیسے گھوٹالوں کی نذر ہوجائے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
وزیراعظم چائے کی تجارت کے بجائے اگر کچھ دن زراعت کرتے تو انہیں کسانوں کے
مسائل سے تھوڑی بہت واقفیت ہوجاتی ۔ ویسے اگر وہ اپنے بھکتوں کے ٹویٹ
دیکھنے کے بجائے کچھ وقت اخبار بینی پر صرف کریں تب بھی ان کی معلومات میں
تھوڑا بہت اضافہ ہوسکتا ہے۔ پردھان سیوک اگر اپنے دفتر کی خیر خبر لیتے تب
بھی انہیں پتہ چلتا کہ دوماہ قبل پی ایم او کوناسک ضلع کے کسان سنجے
ساٹھےکا ایک منی آرڈر موصول ہوا تھا جسے قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا ۔
سنجے ساٹھے کی ناراضگی اس لیے تھی کہ اس نے چار مہینے سخت محنت کرکے ۷۵۰
کلو پیاز اگائی مگر اپنی فصل کو اسے صرف ۱۰۶۴ روپے میں بیچنے پر مجبور ہونا
پڑا۔بازار میں پیاز لے جانے اور واپس گھر آنے کے لیے ساٹھے نے کم ازکم ۴۶۰
روپئے خرچ کردئیے ہوں گے ۔ اس طرح چار ماہ کی محنت کا معاوضہ ڈیڑھ سو روپئے
ماہانہ کے حساب سے کل ۶۰۰ روپئے ۔ اس میں اگر مودی جی کا انودان ۵۰۰ روپئے
ملا دئیے جائیں تو ۶۵۰ روپئے بنتے ہیں ۔ناسک میں تو خیر ساٹھے نے مول بھاو
کرکے ایک روپیہ چالیس پیسے فی کلو کے نرخ پر پیاز فروخت کی لیکن نیمچ میں
تو وہ ۵۰ پیسہ فی کلو کے حساب سے خریدی گئی۔ ایسے میں اگر کا ن قرضدار بھی
ہے تو وہ خودکشی نہ کرے تو کیا کرے؟ سچ تو یہ ہے کہ سرکاری مدد کی ایک قسط
۲۰۰۰ روپئے میں توکسان کے انتم سنسکار بھی ممکن نہیں ہے۔
ملک کا کسان شاذو نادر ہی بی جے پی کے چنگل میں پھنستاہے لیکن شہروں میں
رہنے والا متوسط طبقہ اس جماعت کا سب سے وفادار ووٹر ہے۔ پیوش گوئل نے ان
میں سےٹیکس ا داکرنے والے ۳ کروڈ لوگوں پر خصوصی عنایت کرتے ہوئے پانچ کروڈ
تک کی آمدنی کو ٹیکس سے راحت دی ہے۔ چند ماہ قبل اسی حکومت نے ملک کے
معاشی طور پر پسماندہ لوگوں کے لیے ریزرویشن کا قانون بنایا ۔ اس میں
سالانہ ۸ لاکھ سے کم کمانے والوں کو معاشی طور پر پسماندہ طبقات میں شامل
کرکے انہیں تحفظ فراہم کیا گیا۔ اب اگر ٹیکس کی سہولت میں اضافہ کرنا ہی
تھا تو اسے کم ازکم ۸ لاکھ تک لے جاتے تاکہ یہ دونوں فیصلے آپس میں ا ہم
آہنگی ہوجاتے اور اضافہ کا جواز نکل آتا ۔ اب حالت یہ ہے ملک کا معاشی
طور پسماندہ طبقہ ٹیکس ادا کرتا ہے اور خوشحال سرمایہ ٹیکس چراتے ہیں ۔ اس
کام میں جب مشکلات پیش آتی ہیں تو وہ بیرون ملک سرمایہ کاری کرکے فرار
ہوجاتاہے۔ حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے خلاء میں تاکتی رہتی ہے۔
حزب اختلاف نے تو حسب توقع اس قبوری نما عبوری بجٹ کو انتخابی تماشہ قرار
دیا لیکن خلاف توقع مودی جی نے خود بھی اسے ایک ٹریلر کہہ کر اپنی سفید
داڑھی کا سیاہ تنکا دکھا دیا ۔ انہوں نے یہ بھویشہ وانی کی کہ یہ بجٹ لوک
سبھا انتخاب کے بعد ملک کو خوشحالی کی جانب لے جائے گا یہ بھاگوت جی کے
بھاشن کی طرح اعلان ہے کہ الیکشن کے بعد مندر بناجائے گا۔ اس لیے مندر کو
بھول کر یہ دیکھیں کہ کون سی سرکار مندر بنا سکتی ہے۔ مودی جی بھول گئے کہ
عبوری بجٹ کی مدت کار لوک سبھا انتخاب کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ نئی سرکار نے
اگر اسے کوڑے دان میں ڈال کر نیا عبوری بجٹ پیش کردیا ہے تواس خیالی
خوشحالی کا کیا ہوگا؟ ایک سوال یہ بھی ہے اچھے دنوں کے بستر مرگ پر یہ
خوشحالی کے بجٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس عرصہ میں بجٹ نہیں بلکہ
خوشحالی کو آجانا چاہیے تھا نیز اگر ٹریلر بنانے میں پانچ سال لگ گئے تو
پوری فلم کتنے سالوں میں بنے ؟ بفرضِ محال اگر وہ بن بھی گئی تو ریلیز
ہوسکے گی یا ڈبے میں چلی جائیگی ؟ ویسے’اب کی بار‘نامی اس فلم کے سپر فلاپ
ہونے سے بہتر ہے کہ وہ منظر عام پر نہیں آئے۔ پردھان سیوک اور دیش کی
سواسوکروڈ جنتا کی بھلائی اسی میں ہے کہ یہ فلم جلد ازجلد اتر جائے۔ ملک کے
عوام ’بھائیو بہنو‘ والے گھسے پٹے مکالمہ سے پک چکا ہے۔ اب ووٹر گننے وقت
آگیا ہےاور یہ پوچھنے کا بھی کہ ’کتنے آدمی تھے؟‘۔ اس لیے کہ رام گڈھ کا
گبرّ آچکا ہے اور شعلے برسا رہا ہے۔ |