ہمارے ہاں روائت ہے کہ ایک عمل کسی مخالف جماعت اور لیڈر
سے سر زد ہو تو باعثِ تنقید لیکن وہی عمل اپنی جماعت اور ذات سے سرزد ہو
تومستحسن قرار پاتا ہے ۔ حکومت کی مسند پرجلوہ افروز جماعت اپوزیشن کے ہر
مشورہ اور رائے کو غیر اہم سمجھ کر بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتی ہے اور پھر
جب خود اپوزیشن میں بیٹھنا پڑتا ہے تو اسے خود بھی اسی رویہ کا سامنا کرنا
پڑتا ہے جو اس نے اپنے وقت کی اپوزیشن کے ساتھ روا رکھا ہوا تھا تو اسے بہت
تکلیف ہوتی ہے لیکن یہ تو کرنی کی بھرنی ہوتی ہے ۔وہ اس وقت بہت سٹپٹاتی ہے
لیکن اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔ اقتدارکے دنوں میں جب اپوزیشن کو
دیوار کے ساتھ لگایا تھا تو اس وقت تو بڑے اکڑ اکڑ کر اور کندھے اچک اچک کر
چلتے تھے اور ان کی بے بسی کا خوب ٹھٹھہ کرتے تھے لیکن جب خود دیوار کے
ساتھ لگنے کا مرحلہ آیا تو چیخ و پکار شروع ہو گئی (رو ہ نوں کو ہ ہون روہ
محمد ہون جے روے تاں مناں)۔ایک زمانہ تھا کہ پی پی پی کو سارے مل کر خوب
مارا کرتے تھے۔اسے سیکورٹی رسک قرار دے کر اس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا
جاتا تھا ۔ ۵۸ ٹو بی کی تلوار کو بڑی فراخدلی سے اس کے خلاف استعمال کیا
جاتا تھا اور اس کامزہ لیا جاتا تھا ۔ ایک نہتی لڑکی کے ساتھ جو ظلم روا
رکھا گیا تھا وہ سب کیلئے شرم کا مقام تھا لیکن مقتدر حلقے پھر بھی اسے
تختہِ مشق بنانے سے باز نہیں آتے تھے لیکن پی پی پی جمہوریت کی بقا کی خاطر
سب کچھ برداشت کر جاتی تھی ۔آصف علی زرداری کی گرفتا ری اور گیارہ سالہ قیدِ
تنہائی اسی دور کا تحفہ تھا۔ اب ایک نئی قید خفیہ ہاتھوں کی زنبیل کے ساتھ
لٹک رہی ہے دیکھتے ہیں اسے کب حقیقت کا جامہ پہنایا جاتا ہے۔مسلم لیگ(ن)
گزرے زمانوں میں اسٹیبلشمنٹ کی محبوبہ تھی لہذا اس رومانس کے ہر سو چرچے
ہوا کرتے تھے۔میاں برادران بھی خوش تھے کہ ان کے حریف زندانوں اور عدالتوں
کی گردشوں میں مصروفِ جادہ پیمائی ہیں اور ایک انجانی مشکل میں پھنے ہوئے
ہیں۔دائروں کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا لہذا زندانوں اور عدالتوں کا دائرے
والا سفر پی پی پی کے مقدر کا حصہ بنا دیا گیا تھا تاکہ وہ انہی دائرو ں
میں دم گھٹ کر مر جائے ۔پی پی پی ان کھینچے گے دائروں سے باہر نکل کر عوام
کی خدمت سے سرفراز ہونا چاہتی تھی لیکن اس کی آوازنقار خانے میں طوطی کی
آواز تھی لہذا کسی کو سنائی نہیں دیتی تھی۔وقت گزرتا گیا اور ایک دن صیاد
نے خود ہی قفس میں بند پنچھی کی فریاد پرشنوائی کا ارادہ کیا اور اس کو
رہائی دینے کاقصد کیا تاکہ اس کا اپنا اقتدار محفوظ ہو جائے ۔یاد رہے رہائی
کا فیصلہ بھی ذاتی اقتدار کی خاطر تھا انسانی اقدار کی خاطر نہیں تھا ۔لیکن
مانگے کا اقتدار کبھی پائیدار نہیں ہوا کرتا لہذا اس صیاد کے ساتھ بھی یہی
ہوا ۔پنچھی کو رہائی تو دے دی لیکن اسے خود اقتدار کے ایوانوں سے بڑی
رسوائی کے ساتھ رخصت ہو نا پڑا ۔،۔
اس زمانے میں پی پی پی سب کا آسان شکار تھی کیونکہ پی پی پی کی عوامی
مقبولیت سب کو بے چین کئے رکھتی تھی۔عوامی طاقت اقتدار کے ایوانوں میں
بیٹھے ہوئے پہرے داروں کو کو لرزہ بر اندام کرنے کا سبب بنی رہتی تھی
کیونکہ ووٹ کی پرچی پی پی پی کو اقتدار کی مسند پر بٹھانے سے باز نہیں آتی
تھی اور یہی چیز پہرے داروں کو پسند نہیں تھی ۔اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور اس کے
حواری پی پی پی کو دبا کر رکھتے تھے اور اس کے خلاف اپنے عناد کا کھلے عام
مظاہرہ کرنے میں کوئی شرم اور عار محسوس نہیں کرتے تھے۔وہ زمانہ جبر کا
زمانہ تھا،زبان بندی کا زمانہ تھا لہذاایسے اوچھے ہتھکنڈے چل جایا کرتے
تھے۔یہ تو میڈیا کی طاقت ہے جس نے منہ زور گھوڑوں کو قدرے قابو میں کیا ہوا
ہے لہذا آج وہ کھل کر اپنا کھیل نہیں کھیل سکتے اور شائد یہی وجہ ہے کہ
انھیں آج اپنی سپرمیسی کیلئے عدلیہ اور دوسرے اداروں کا سہارا لینا پڑتا ہے
تا کہ ان کاایجنڈہ آگے بڑھ سکے ۔ عوامی دباؤ اور میڈیا کی طاقت نے جبر کی
فضا کو قدرے کمزور ضرورکیا ہے لیکن پھر بھی پہرے داروں کی سپر میسی قائم و
دائم ہے جس کا مظاہرہ ہر سو دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن باعثِ حیرت ہے کہ زرد
صحافت کے پروردہ کچھ صحافی آج بھی جبر کے بیانیہ کو جاری رکھنے میں حجل
محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی آمریت کی نغمہ سرائی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت
کرتے ہیں ۔وہ اب بھی جمہوریت کو محض ایک بیانیہ کے طور پر لیتے ہیں جبکہ اس
کی روح اور اس کی افادیت ان کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔آمروں کی
حاشیہ برداری نے جمہوریت سے لگاؤ اور اس سے وابستگی کو ان کی نگاہوں سے
یکسر معدوم کر رکھا ہے۔ مفاداتِ عاجلہ کے حصول نے ان سے عوامی حاکمیت کے
تصور کو دیکھنے کی ساری صلاحیتیں چھین رکھی ہیں۔ایسے دانشوروں،لکھاریوں،
صحافیوں اور ادباء کی عوام کے دربار میں کوئی ساکھ ، عزت اور وقار نہیں ہے
کیونکہ عوام سوشل میڈیا کے ذریعے سارے حقائق سے آگاہ ہو جاتے ہیں ۔ پہلے پی
پی پی نشانے پر تھی جبکہ اب مسلم لیگ (ن) بھی جرم و سزا کے اس ہدف میں شامل
ہو گئی ہے لہذا اس کی صفِ ِ اول کی ساری قیادت مختلف الزامات کے تحت
زندانوں کی قید ی ہے۔ملکی مفادات ایک ایسا نعرہ ہے جس سے کسی کو بھی کوئی
مفر نہیں ہے ۔ کون ہو گا جو یہ کہے گا کہ کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو نا چائیے؟
کون ہو گا جو یہ کہے گا کہ احتساب نہیں ہو نا چائیے؟ کون ہو گا جو یہ کہے
گا کہ لوٹی ہوئی دولت کا حساب نہیں ہو نا چائیے؟ کون ہو گا جو یہ کہے گاکہ
ملزمان کو زندانوں کی ہوا نہیں کھانی چائیے؟ کون ہو گا جو قانون کی بالا
دستی کا انکاری ہو گا؟ کون ہو گا جو شفافیت کا ورد نہیں کرے گا ؟ کون ہو گا
جو انصاف سے رو گردانی کا پرچار کرے گا؟ کون ہو گا جو جزا و سزا کے عمل سے
بغاوت کرنے کی جرات کرے گا؟ کون ہو گا جو ملکی ترقی اور اس کی عظمت کا منکر
ہوگا؟کون ہو گا جو جوابدہی سے فرار کا درس دے گا ؟ ایساکوئی شخص پاکستان کی
سر زمین پر تو شائد نہ ملے لیکن کیا جو کچھ سنایا اور دکھایا جاتا ہے وہ
سارا سچ ہے یا اپنے مخالفین کو کچلنے کیلئے کچھ نعرے ایجاد کر لئے گے
ہیں؟صحافت کا کام سچ کا کھوج لگانا اور بے گناہوں کی گردنوں کو جبر کے
شکنجے میں کسے جانے کی سازشوں کو بے نقاب کرنا ہو تا ہے اور جو کوئی بھی
ایسا کرے گا عوامی عدالت میں وہی سرخرو ٹھہرے گا۔(جو چپ رہے گی زبانِ خنجر
تو لہو پکارے کا آستیں کا) ۔عدلیہ کے بے شمار ایسے فیصلے ہیں جن کی آج خود
عدلیہ بھی پیروی کرنے سے ہچکچاتی ہے کیونکہ ان سب کی بنیاد دباؤ اور جبر پر
رکھی گئی تھی۔ کیا اس ساری مشق کا مقصد کسی با جبروت قوت کو خوش کرنا تھا،
مخالفین کو مزہ چکھانا تھا اور اندھی قوت کو ضعف سے بچانا تھا؟یا ایسے
فیصلوں کے پیچھے قانون کی حکمرانی کا جذبہ کارفرما تھا؟اگر مان لیا جائے کہ
قانون کی حکمرانی کاجنون انھیں بے چین کئے رکھتا تھا تو پھر اس کا اطلاق تو
سب پر ہونا چائیے تھا ۔لکیر کی ایک جانب والے ملزم اور لکیر کی دوست جانب
کھڑے پارساء بن جائیں تو قانون کی محبت کا سارا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے اور
بدقسمتی سے پاکستان میں تواتر سے یہی ہوتا رہا ہے اور اب بھی یہی ہو رہا
ہے۔کچھ تنگ نظر میرے تجزیہ سے چیں بچیں ہوں گے کیونکہ ایسی باتیں ان کی طبعِ
نازک پر ناگوار گزرتی ہیں ۔یاد رکھو وقت کا ریلہ گزر جا تا ہے۔کوئی اس میں
جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے،کوئی سالہا سال زندانوں کی اذیتیں برداشت کرتا
ہے اور کوئی اس میں فاتح بن کر نکل آتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اپنی ذاتی حوا ہش
کی تکمیل کی خاطر کوئی بھی تاریخ کے فیصلہ کوئی بدل نہیں سکتا کیونکہ تاریخ
کا پہیہ خاموشی سے سب کچھ رقم کرتا جاتا ہے ۔جنرل پرویز مشرف کے حواری تو
یہی سمجھتے تھے کہ جنرل پر ویز مشرف اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک پاکستان
کے حکمران رہیں گے اور وہ اقتدار کی گنگا میں سدا اشنان کرتے رہیں گے لہذا
انھوں نے مخالفین کو کچل دینے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشتہ نہ کیا ۔تاریخ نے
کیا فیصلہ صادر کیا شائد اسے یہاں بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ ہر
شخص جنرل پرویز مشرف کی بے بسی کا عینی شاہد ہے۔وہ دیکھ رہا ہے کہ جبر کے
علمبرداروں کا حشر عبرتناک ہواجبکہ عوام کی خاطر موت کو سینے سے لگانے والے
عوام کے دلوں میں دھڑکنوں کی طرح زندہ ہیں۔فتح اصولوں کی ہوتی ہے جبکہ ظلم،
نا انصافی اور جبر بے ثمر ٹھہرتے ہیں لہذا حاکموں کو انتقام کا نہیں بلکہ
انصاف کا داعی ہونا چائیے۔،۔
|