ایران میں ایک سرد اور خوشگوار شام

آج سے تقریباًچارسال قبل مجھے چند دن ایران کے ایک جزیرہ کِش میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ یہ جزیرہ مکمل طور پر سمندر کے اندر ہے اور چاروں طرف ٹھاٹھیں مارتا ہو ا سمند رہے۔ایران کی قومی زبان فارسی ہے اور وہاں پر فارسی ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے اس بات کا احساس مجھے ایران جا کر ہوا جب وہا ں کے رہنے والے لوگ باہر سے آنے والے لوگوں کو خارجی کے نام سے پکارتے تھے۔ دبئی میں کِش ائیر لائن سے دفتر سے مجھے کِش جانے والی پرواز کی معلومات ملی۔ یہ دفتر ائیر پورٹ کے اند ر ہی تھا اور ایک دن میں ایک ہی پرواز کِش جاتی اور وہا ں سے واپس آتی تھی ۔ آنے جانے کا کل کرایہ تقریباًاکیس ہزار پاکستا نی روپے تھا جو کہ سات سو درہم بنتا تھا۔ لیکن وہاں جاکر یہ بھی پتہ چلا کہ پاکستا نی ہو نے کی وجہ سے مجھے ایک ہزار درہم بطور سیکیورٹی جمع کروانے ہو گے۔ یہ سیکیورٹی صرف چند ممالک کے باشندوں کے لیئے تھی جس میں سے پاکستا ن سرفہرست ہے۔خیر پاکستا نی ہونے کے ناطے یہ سیکیورٹی بھی جمع کروادی اور مجھے اگلے دن کی فلائٹ میں جگہ مل گئی۔ میرے ساتھ فلائٹ میں فلاپائینی لڑکیا ں بھی تھیں جو عام طور پر لبا س پہننے کے معاملے میں کنجوسی سے کام لیتی ہیں لیکن ایرانی حکومت کا ایک اقدام مجھے بہت پسند آیا کہ جیسے ہی ہم لوگ ائیر پورٹ میں داخل ہوئے وہاں پرعورتوں کی انٹری کی جگہ الگ تھی اور وہاں پر ایک کیبنٹ میں تمام خواتین کے لئے عبایا رکھے ہوئے تھے ۔جو کہ ایران سے واپسی پر ائیر پورٹ میں ہی واپس کرنے ہوتے تھے۔ ایران کی حدود میں کوئی بھی عورت عبایا پہنے بغیر نہیں پھِر سکتی ۔

کِش کا ائیر پورٹ بھی چھوٹا سا ہے اور اس پر طیارے بھی چند ایک ہی کھڑے ہوتے ہیں۔کِش ائیر پورٹ پر اترنے کے بعد اگلا مرحلہ ہوٹل ڈھونڈنے کا تھا۔ ائیر پورٹ سے باہر آئے تو ایک گاڑی کھڑی ہوئی تھی جو ہمیں ہوٹل تک لے کر جانے کے لئے کھڑی تھی ۔ ہم نے سوچا کہ شاید کہ ائیر پورٹ کی فری سروس ہے لیکن ہوٹل پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ سہولت ہوٹل والوں کی طرف سے ہے تاکہ ان کا گاہک کسی اور ہوٹل میں نہ جائے اور تما م ہوٹلز کی بسیں ایک خاص ترتیب سے یہ سہولت فراہم کرتی تھی ۔ ہوٹل کی حالت سے لگ رہا تھا کہ شاید ابھی زیرِتعمیر ہے اور راستے میں بھی بہت سی عمارتیں زیر تعمیر نظر آئیں ۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ سیاحو ں کی وجہ اب اس جزیرے پر بہت سے ہوٹل بن رہے ہیں۔ اس سے اگلا مرحلہ اس سے بھی تکلیف دہ تھا جب پتہ چلا کہ ہمیں شئیرنگ والے کمر ے میں رہنا پڑے گا۔ایک کمر ے میں چار سے پانچ لوگ ہونگے اور ایک دن کا کرایہ تقریباً چالیس درہم ہے ۔ الگ روم صرف فیمیلی کو مل سکتا ہے۔ اور اس کا کرایہ بھی زیادہ تھا۔ یہاں تک بھی ہم کچھ نہ کچھ ہضم کر چکے تھے لیکن جب ہمیں یہ پتہ چلا کہ یہا ں پر پاکستا نی کھانے کا ملنا ممکن نہیں تو ہماری حالت اور خراب ہو گئی ۔ خیر سامان کمرے میں رکھ کر میں باہر نکل آیا۔ فلائٹ کے دوران ایک کشمیری اور ایک سیالکوٹ کے لڑکے سے بات چیت ہو گئی تھی اور کمر ہ بھی ہم نے اکھٹا ہی لے لیا تھا۔ ہم تینوں نے ارادہ کیا کہ باہر گھومتے پھر تے ہیں ۔ سردیوں کی شام ہو رہی تھی ۔ ہم نے ارادہ کیا کہ ساحل ِ سمند ر پر جایا جائے اور وہا ں کی خوشگوار ہوا سے لطف اندوز ہو اجائے۔ہم ہوٹل سے باہر نکلے اورسوچا کہ ساحل قریب ہی ہوگا اس لیئے پیدل ہی چلتے ہیں ۔ وہاں پر لگے ہوئے سائن بورڈ بھی فارسی زبان میں تھے اور ہم میں سے کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آرہے تھے ۔ ہم لوگوں نے پاس سے گزرتے ہوئے ایک آدمی کو اپنے پاس بلانے کے لئے اشارہ کیا اور انگریزی میں ہیلو کہا۔یہ سن کر اس نے خارجی کا نعرہ لگایا اور یہ جا و جا۔ ہم بڑے پریشان ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ عورتیں تو ہمیں وہاں نظر ہی نہیں آرہی تھیں۔ کچھ دیر بعد ہمیں کچھ طالب علم نظر آئے تو ہم نے سوچا کہ شاید یہ ہماری مدد کرسکیں۔ لیکن انھوں نے بھی زور سے خارجی کا نعرہ لگا یا اور دوڑ لگا دی۔ کافی تگ و دو کے بعد ایک آدمی ہمار ی بات سننے کے لئیے رضامند ہو ا ۔اب مشکل یہ تھی کہ اس سے بات کیسے کی جائے؟ فارسی ہمیں نہیں آتی تھی اور انگلش ،عربی،اردواور پنجابی سے وہ نابلد تھا۔ ہمیں ساحل کے ترجمعہ جن جن زبانوں میں سے بھی آتا تھا ہم نے اس کو بتا یا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ کافی سوچ بچار کے بعد وہ صرف ایک لفظ بولا ’’مستقیم‘‘۔ یعنی سیدھے چلتے جاؤ۔ ہم لوگ اﷲ کا نا م لے کر مستقیم چل پڑے۔تھوڑا آگے چلے تو ایک اور لڑکے سے پوچھا تو اس کے چہرے سے ہمیں محسوس ہوا کہ اس کو ہماری بات کی کوئی سمجھ نہیں آئی لیکن مستقیم کا نعر ہ لگا کر وہ بھی چلتا بنا۔ اس راستے پر ہمیں کوئی بس یا ٹیکسی بھی نظر نہیں آرہی تھی ۔ چاروناچار چلتے ہی گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہمیں ساحل کے کچھ آثار نظر آنے لگے اور فارسی میں لکھے ہوئے بورڈز کو بھی ہم نے اندازے سے سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ جب ہم تینوں ساحل پر پہنچے تو وہاں پر ہو کا عالم تھا۔ چند ایک لوگ وہاں پھر رہے تھے اور سائیکلوں پر سوار نوجوان طالب علمو ں کا ایک گروپ وہاں پر چکر لگا رہا تھا۔

لیکن ساحل پر آنے والی ہوا بہت سرور دے رہی تھی۔ ساتھ میں ایک لکڑی کی پُل بنی ہوئی تھی جو تھی تو علامتی لیکن اس پر چل کر ایسے ہی محسوس ہوتا تھا جیسے سمند ر کے اندر چل رہے ہوں۔ ساحل پر پہنچ کر ہم ساری تھکان دور ہو گئی۔ننگے پاؤں تھوڑی دیر ریت پر چلتے رہے اور وہاں کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہو ا سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ دبئی میں رہتے ہوئے ہر جگہ رش ہی رش کا عالم ہوتا تھا۔ آپ جدھر بھی چلے جائیں وہاں لوگ ہی لوگ اور گاڑیاں ہی گاڑیاں نظر آتی تھیں۔کِش میں آ کر ہر طرف ویرانی دیکھ کر عجیب سا لگنے لگا۔ کہیں پر بھی کوئی رش نہ تھا۔ وہاں کے مقامی لوگ بہت کم تھے اور چند سیاح ہی نظر آتے تھے ۔وہاں کی ریت کا رنگ بھی تھوڑا مختلف تھا اور پانی کا رنگ بھی۔ سمند ر کی لہیریں بہت اچھا نظارہ بیان کررہی تھیں وہاں کی سحر انگیزی کی وجہ سے وقت گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا اور شام سے رات ہونے لگی تو ہم سب نے ہوٹل واپسی کا قصد کیا۔
 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 80952 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.