بحریہ ٹاون لاہور کے متعلق جو سنا تھا اس سے کئی گنا بہتر
پایا۔۔۔۔۔ایک پایہ کی جامع مسجد تعمیرکروائی گئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔۔۔۔۔
مسجد میں روزانہ ہزاروں زائرین آتے ہیں۔مسجد میں گھومتے پھرتے ہیں۔تصویریں
بناتے ہیں۔یہ مسجد بھی فیصل مسجد اسلام أباد اور بادشاہی مسجد لاہور کی طرح
سیاحتی پواٸنٹ بنتا دکھاٸی دے رہی ہے۔مسجد کے انتظامات قابل تعریف تھے۔باتھ
روم سے لے کر جوتے رکھنے اور کارکنگ تک کی بہترین سہولیات مسجد کا حصہ
ہیں۔یہ مسجد فنِ تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے۔مسجدیں شعاٸرِ اسلام ہیں۔مسجد
اقصی،حرام ،نبوی سے مسجد تقوی تک ہزاروں مساجد ہیں جو انتہاٸی معروف ہیں۔
ہر دور کے مسلم حکمرانوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بڑی بڑی مساجد تعمیر
کرواٸی ہیں۔یہ مسجد بھی أنے والے کل انسانی تاریخ کی بڑی مساجد میں شمار
ہوگی۔ہم نے مسجد کی زیارت کی، رب العالمین کے حضور دو رکعت نماز ادا کی۔۔۔۔۔سجدہِ
شکر بجا لایا۔
مسجد کے ایک کونے میں ایک شیخ کسی دوشیزہ کا نکاح پڑھا رہا تھا۔ دو گواہ
تھے ایک لڑکا تھا اور اکیلی دوشیزہ،شکل و صورت اور رنگت سے یہ دوشیزہ گلگت
بلتستان کی لگتی تھی۔ میں نے ذرا فاصلے سے کافی غور سے نکاح کی یہ مختصر
تقریب کا جاٸزہ لیا۔مجھے یہ نکاح، نکاحِ عارضی کی کوٸی صورت نظر أٸی۔ ایجاب
و قبول کے یہ مناظر کیا دیکھا کہ اپنے عقد ثانی کے سنہرے خواب میں کھو گیا۔
مسجد کی جالی سے لگے یہ خواب کا دورانیہ کافی طویل ہوگیا۔اچانک مٶذن نے *اللہ
اکبر* کی صداٸیں بلند کی جس سے پوری مسجد کے فضاٶں میں تکبیر کی گونجوں نے
رس گھول دیا۔میں سنتا گیا سنتا گیا بالأخر بے اختیار *جل جلالہ* کہا۔
بحریہ ٹاون لاہور میں ایک بہت اونچا ٹاور بھی ہے جو بلاشبہ اپنی اونچائی کے
اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ٹاور کا نام eiffel tower ہے۔یہ ٹاور اپنی
نوعیت کا دوسرا ٹاور ہے۔ اسی نام سے ایک ٹاور فرانس میں بھی ہے جس کو عجوبہ
کہا جاتا ہے۔لاہور والا ٹاور اسی کی نقالی ہے۔ ہم بھی اس ٹاور میں چڑھے۔تین
سو ٹکٹ تھا۔۔۔ٹاور کی بالاٸی سے نیچے دیکھتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا۔بلندی کی
وجہ سے ٹاور ہل رہا تھا۔۔۔۔اچانک برادرم ہارون الرشید نے کہا کہ زلزلہ
أگیا۔۔۔۔۔۔۔
*اف اللہ*
میں تو کانپ کر رہ گیا۔۔قرأن کریم میں موجود زلزلوں والی أیات اور اسکے
مفاہیم یاد أنے لگے اور زلزلوں کی ہولناکیاں بھی۔ہارون میری حالت غیر پھر
ہنس رہے تھے۔ انہوں نے مذاق کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ہم کافی دیر تک ٹاور کی بالائی
سطح پر رہ کر پورے بحریہ ٹاون اور لاہور کا نظارہ کرتے رہے۔ٹاور سے لاہور
کے تمام مناظر بولتے تھے بلکہ خوب بولتے تھے چیختے چنگاڑتے تھے۔ بلندی سے
نیچے زمین پر چلنے والے خواتین و حضرات بچے جتنے چھوٹے دکھاٸی دے رہے
تھے۔۔اللہ کی عظمتوں کے معترف ہوئے ، میں نے براردم ہارون سے کہا کہ تلاوت
شروع کریں پھر خود بھی تلاوت کرنے لگا۔۔۔۔۔بہت محظوظ ہوا، اتنی اونچائی سے
سورج کے ڈوبنے کا منظر بھی دیکھا۔۔۔۔۔۔کیا خوب منظر تھا۔ بار بار دیکھنے کو
جی چاہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔تب سمجھ آیا کہ اللہ کے سوا سب کو فنا ہے۔بقا ٕ اسی
کو ہے اور وہ واحد ذات ہے جو بقإ کے لاٸق ہے۔ازل سے ابد تک۔۔باقی سب کاغذی
پیرہن ہیں اور بلبلے۔سورج کی طرح سب کو بالأخر ڈوبنا ہی ہے۔۔۔۔۔
بہر صورت ملک ریاض نے باوجود مہنگائی کے، لوگوں کا لائف اسٹائل بدل کررکھ
دیا ہے۔رٸیل اسٹیٹ کی داغ بیل ڈال دی۔انہوں نے کراچی اور راولپنڈی میں بھی
بحریہ ٹاون شروع کررکھا ہے جہاں رہاٸشی زندگیوں کی ایک نٸی ماڈل وجود میں
أچکی ہے ۔ اس ماڈل نے بحریہ کے ٹاٶنوں میں اربوں انویسٹ کی ہیں۔ اس کی
بدولت لاٸف سٹاٸل تو چینج ہوہی گٸی مگر لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی مل گیا
ہے۔ملک ریاض نے جس ایریا میں بھی ہاتھ ڈالا وہ زمین سونا بن گٸی۔لوگوں نے
اعتماد کیا اور پلاٹوں کی خریداری شروع کی۔ بحریہ ٹاونوں میں بیرون ملک
رہاٸش پذیر پاکستانیوں نے بھی پلاٹ لیے یوں اربوں کا زرمبادلہ بھی ہوا لیکن
بدقسمتی سے پھر ملک ریاض کو کورٹ کچہری کا سامنا کرنا پڑ گیا یوں وہ مزید
کام کرنے کے بجاٸے زیادہ وقت کورٹ کچہری اور وکلإ کے ساتھ گزارنے پر مجبور
ہوٸے۔ شاید ان کو جلد ملک سے فرار بھی ہونا پڑے،کیونکہ پاکستان میں ہر اس
انسان کو بھگا دیا جاتا ہے جو یہاں انویسمنٹ کرتا ہے اور پراجیکٹ شروع کرتا
ہے۔۔۔۔ہمارے ساتھ پروفیسر زمان چلاسی صاحب ، برادرم عبید اور محسن کشمیری
بھی تھے۔۔۔۔۔۔بحریہ ٹاون میں ہم نے بہت انجوائی کی۔مہنگی چاٸے پی۔غیر
ملکیوں کیساتھ سیلفیاں لیں۔۔۔بحریہ ٹاون کو جہاں سے بھی دیکھا بہت پیارا
لگا۔۔۔۔۔۔۔۔تاہم ٹاور سے نیچلی سطح کا منظر بہت ہی پیارا لگتا ہے۔۔۔ ٹاور
پر ایک نوجوان *پریمی جوڑا* اپنی مستیوں میں مگن تھا۔ ہارون بھاٸی نے میری
توجہ اس کی طرف مبذول کراوٸی۔ ہم کافی دیر تک ان کی اٹھکھیلیوں سے محظوظ
ہوٸے۔وہ سب سے بے فکر ہوکر اتنی اونچاٸی میں شاید فروری کے پہلے ہفتے میں
*ویلنٹاٸن ڈے* کا پلان بنارہے تھے۔اور اس کی ابتداٸی مشقوں میں مصروف
تھے۔سچ یہی ہے کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
میں نے ٹاور کے اوپر سے بہت ساری تصاویر لی تھی تاہم مجھ سے ضائع ہوئی
ہیں۔۔۔۔۔۔۔میں نے اندازہ کیا کہ بحریہ ٹٓاون کی رونقیں عروج پر
ہیں۔۔۔۔۔لوگوں نے اس کو ایک انجوائی پلیس کے طور پر لیا ہوا
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فیملیز بڑی تعدا میں پہنچ جاتیں٧ ہیں۔۔۔۔۔بہت سار ے غیرملکیوں
کو بھی دیکھا جو بحریہ ٹاٶن کی رونقوں اور پاکستانیوں بلکہ لاہوریوں کی
زندہ دلی کا مشاہدہ کررہے تھے اور أپس میں تبصرے بھی۔بحریہ ٹاون کے ایک نٸے
ریسٹورنٹ میں ایک نئی ڈش سے شکم سیر بھی ہوئے۔شاید اس کو واٹٹ بیف کڑھاٸی
کا نام دیا گیا تھا۔بحریہ ٹاون راولپنڈی کو سرسری ایک نظر دیکھا ہے۔کراچی
کا بحریہ ٹاون نہیں دیکھا۔جو لوگ پراپرٹی کا کام کرتے ہیں یا اس سے دلچسپی
رکھتے ہیں انہیں چاہیے کو ملک ریاض کو گلگت بلتستان کی طرف بھی متوجہ
کراٸیں۔بالخصوصی دیامر کے بنجر اراضیوں پر رہاٸشی سوساٸیٹیاں بنادی گٸی تو
معاشرتی زندگیوں میں انقلاب أجاٸے گا۔ملک ریاض جیسے وژنری لوگ جی بی کی طرف
متوجہ ہوٸے تو جی بی کے اونچے اونچے پہاڑی علاقوں میں بھی بہترین سوساٸیٹاں
وجود میں أسکتی ہیں اور پھر یہ علاقے ہر اعتبار سے دنیا کی توجہ کا مرکز بن
جاٸیں گے یوں جی بی سیاحتی دنیا کا عظیم مرکز بن سکتا ہے۔۔۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔؟ |