مشرف کے سر کا بھوت

سابق آرمی چیف پرویز مشرف ان دنوں الٹی ہوگی سب تدبیریں کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔مستقبل قریب میں ان کی وطن واپسی کی کوئی امید نہیں ۔ان کے آخری جانثار ڈاکٹر امجد صاحب بھی انہیں چھوڑ کر تحریک انصا ف میں شامل ہوچکے۔حوادث زمانہ ہی ہے کہ خود کا ناگزیر او رسب سے افضل سمجھنے والے جرنیل صاحب خو دبھی تحریک انصا ف کے حق میں بیان دے رہے ہیں وہ اس جماعت کو تیسری قوت قرار دیتے ہیں اور اس کے وجود کوضروری اور عین مناسب سمجھتے ہیں۔جس طرح کی لمبی خاموشی وہ اختیار کرچکے ہیں اس سے اس بات کا تاثر بھی ملتا ہے کہ شاید وہ سیاست ہی ترک کرکے باقی عمر گمنامی سے گزاریں۔انہیں شاید آج بھی سمجھ نہ آرہی ہو کہ انہوں نے کہاں غلطی کی۔انہوں نے پوری جان مار لی۔سارے جتن کردیکھے پھر بھی دال نہیں گلی۔وہ بڑی تیاری سے پاکستان آئے تھے۔ڈاکٹر امجد جیسے لوگوں کے حوصلہ افزاء پیغامات انہیں واپس آنے پر مجبور کرگئے۔ٹھاٹھیں مارتا لوگوں کا سمند ران کا منتظر بتایا گیا۔انہیں میسج بھجوائے گئے کہ پاکستان ایک بھانجھ دھرتی ہے یہاں قحط الرجال ہے سوائے آپ کے کوئی مرد نظر نہیں آرہا۔دھمکایا گیا کہ اگر واپس نہ آئے تو ملک کی تباہی کے ذمہ دارآپ ہونگے۔جرنیل صاحب ان ہوائی باتوں میں آگئے اور نیکی کرنے وطن واپس لو ت آئے۔انہیں آسانی سے الیکشن جیت جانے کی با ت بتائی جارہی تھی۔پکے وزیر اعظم قرار دیے جارہے تھے۔مشرف کو چکنی چپڑی باتیں بتا کرکچھ مفاد پرست اپنا دانہ پانی سمیٹتے رہے۔انہی باتوں کے سبب ایک پر آسائش ماحول کو چھوڑ کر جرنیل صاحب دن رات کی نان سٹاپ اذیت دیکھنے پاکستان آگئے۔انہیں اب بھی اپنے وفاداران پر گلہ ہے۔جنہوں نے جھانسہ دیا۔انہیں نوازشریف پر بھی حیر ت ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنا سب کچھ گنوانا منظور کرلیا مگر انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش ترک نہ کی۔

پاکستانی سیاست کی تلخیوں اور مشکلات کا اندازہ مشرف کو بخوبی ہوچکا۔کہاں ایک چھوٹی سی سٹک کے بل پر پورے ملک کی حکومت آسانی سے مل جانا اور کہاں الیکشن کے جھمیلے عوام اور پارٹی کی رنگا رنگ فرمائشیں جلسے جلوسو ں کا اذیت نا ک مرحلہ جرنیل صاحب کو آٹے دال کا بھاؤ محسوس ہوگیا۔تحریک انصا ف کی قیادت بھی اس آٹے دال کے بھاؤ میں الجھی ہوئی ہے۔سوچا تو یہ تھا کہ معامالات بڑے سیدھے سادے ہیں بڑی آسانی سے طے کرلیں گے۔خیال تھا کہ کرپٹ اور بے ایمان قیادت کے سبب مسائل ہیں۔اچھے اور ایماندار لو گ آگئے تو آٹو میٹک معاملا ت سدھر جائیں گے۔دنوں مہینوں میں ہن برسنے لگے گا۔دو ہفتوں میں آدھے معاملات درست کرلیں گے۔مہینوں میں یہاں تبدیلی نظر آجائے گی اب جب کہ چھ ماہ ہونے کو ہیں حالات کی ابتری دیکھ کر خود تبدیلی کے نعرے والے بھی پریشان ہیں ۔سب خواب ٹوٹ چکے۔سارے اندازے غلط نکلے ۔مشرف نے بھی عملی میدان میں آکر خود کو بے بس پایا۔اب عمران خاں بھی خود کو بے آسرا اور گھرا ہوا پارہے ہیں۔اربوں روپے ریکور کرنے کا منصوبہ ناکا م ہوچکا۔ الٹا اس ریکوری پراسس نے جو تھوڑا بہت دھندہ چل رہا تھا وہ بھی روک دیا۔کرپٹ اور بے ایمان لوگ کسی نہ کسی طرح ملک کو چلاتے چلے جارہے تھے۔اب ایماندار اور اچھے لوگ آئے تو عوام اس تھوڑے بہت سے بھی محروم ہوگئے۔قیادت کو سمجھ نہیں آرہی کہ غلطی کہا ہورہی ہے۔حکومتی اتحادیوں کی طرف سے تبدیلی اور سادگی کے منشور کی دھڑلے سے خلاف ورزی کی جارہی ہے۔خود پارٹی کے اندرسے بھی اکثریت اپنی انویسٹ منٹ کی ریکوری پر تلی دکھائی دے رہی ہے۔ایک عجب مصیب نادیدہ ہاتھون کی کارستانیاں بھی ہیں۔وہ بھی اپنی بالادستی منوانے کے لیے کبھی کبھی کوئی عجوبہ کرتے رہتے ہیں۔عمران خاں بظاہر چیف ایکزیکٹو ہیں مگرنادیدہ ہاتھ انہیں بھی نچارہے ہیں ۔پنجاب کے سینئر وزیر کی گرفتاری اس بے اختیاری کی دلیل ہے۔اس گرفتاری کو وزیر اعظم سے لے کر پارٹی کے عام ورکر تک سبھی نے ہلا کرکھ دیا ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک پر آخر حکمرانی کس کی ہے۔

سابق وزیر اعظم نوازشریف ہسپتال سے دوبارہ کوٹ لکھپت جیل پہنچ چکے۔ان کے مطابق علاج کے نام پر ان سے مذاق کیا جارہا تھا۔کبھی ادھر سے کبھی ادھر سے خواہ مخواہ کے ٹیسٹ اور شفٹگ میاں صاحب کو پریشان کرنے کی کوشش ہورہی تھی۔جب میاں صاحب نے دیکھا کہ علاج کا مقصد آرام دینے کی بجائے مذید بے سکونی دلوانا ہے تو انہوں نے جیل واپس بھجوانے کی خواہش ظاہر کردی۔جانے یہ سرد جنگ کب ختم ہوگی۔ابھی تک اس جنگ کا نتیجہ ففٹی ففٹی نکلا ہے۔مخالفین کی جیت یو ں سمجھی جارہی ہے کہ وہ انہیںٍ تخت سے اتروانے میں کامیاب رہے۔وہ انہیں الیکشن ہروانے میں کامیاب رہے۔وہ انہیں جیل بھجواچکے ۔دوسری طرف میاں صاحب بھی اپنی فتح اعلان کرہے ہیں۔وہ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے سترسالہ بے ایمانی کے کھیل کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے مشرف کو ایک ایسی مات دی ہے کہ وہ تاعمر حکمرانی سے بھاگے گا۔میاں کا دعوی بھلے ہی غلط ہوسکتاہے مگر جس طرح سے سابق جرنیل کی جانب سے خاموشی ہوچکی لگتاہے ان کے سرسے سیاست کا بھوت بالکل اتر چکا ۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 2 Articles with 1648 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.