بازار میں جشنِ آمد مُصطٰفی صلی
اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کی تیاری میں رنگ بِرنگی لیڈ لائٹس خریدتے ہُوئے
ایک چہرے نے مُجھے اپنی جانب ایسا متوجہ کیا کہ ہزار کوشش کے باوجود بھی
اُس چہرے سے نِگاہ ہٹانا بُہت مشکل اَمر نظر آرہا تھا میرے بار بار دیکھنے
پر و ہ صاحب بھی میری جانب متوجہ ہوگئے کُچھ دِیر وہ صاحب میری جانب
دِیکھتے رَہے اور پھر میرے قریب چلے آئے اور یُوں گُویا ہُوئے کیا آپ کا
نام عشرت اقبال ہے؟
اُس خُوبرو باریش نوجوان کے مُنہ سے اپنا نام سُن کر مجھے مزید حیرت ہوئی
اور اب مُجھے اس بات کا قوی یقین ہو چلا کہ ضرور وہ خُوبرو نوجوان میرا
شناسا ہے ورنہ میرا نام کیسے پُکارتا میں نے خندہ پیشانی سے مُسکراتے ہوتے
جواب دِیا۔ جی ہاں میرا یہی نام ہے مگر آپ کون ہیں؟
وہ نوجوان ایکدم مُسرت سے بانہیں پھیلائے میری جانب بڑھا اور مُجھ سے
بغلگیر ہوتے ہوئے کہنے لگا عشرت بھائی 27 برس کے بعد یُوں اچانک سرراہ آپ
سے مُلاقات ہوجائیگی کبھی سُوچا بھی نہیں تھا۔
اُس خوبرو باریش نوجوان کے مُنہ سے 27 برس کا سُنتے ہی میرا ذہن ماضی کا
سفر کرتے ہوئے اسکول کے زمانے میں جا پُہنچا کہ 27 برس قبل ہَم میٹرک کے
امتحانات کی تیاری میں دِن رات مصروف رَہا کرتے تھے اور اُن دِنوں ہمارا
ایک دوست بھی اکثر ہمارے ساتھ کبھی گھر اور کبھی پارک میں امتحان کی تیاری
میں ساتھ ساتھ رَہا کرتا تھا اور اب ہمیں سمجھ آرہا تھا کہ کیوں ہماری
نظریں اس نوجوان سے نہیں ہٹ پارہی تھیں میرے مُنہ سے فوراً نِکلا ریحان یہ
تُم ہو ؟
ریحان نے اپنا نام سُن کر اپنی گرفت کو میری کمر پر مزید سخت کرتے ہوئے
کہا،، ہاں میرے یار میں رِیحان ہی ہُوں۔
مگر ریحان میں نے تو سُنا تھا کہ تُم امریکہ چلے گئے تھے۔ اور تُمہارے چہرے
پہ داڑھی دیکھ کر مجھے یقین ہی نہیں آرہا ۔ وہ تُم ہی تھے نا جو اکثر اسکول
لائف میں مولویوں پر پھبتی کسا کرتے تھے یہ انقلاب کیسے آیا اور تُم امریکہ
سے کب واپس آئے؟
یار سانس تو لینے دِے کیا سارے سوال یہیں بازار میں پُوچھ لے گا ۔گھر لیکر
نہیں چلے گا؟ ریحان نے مُسکراتے ہوئے کہا۔
کیوں نہیں میرے یار چلو ابھی گھر چلتے ہیں میں نے خریداری کا اِرادہ موقوف
کرتے ہُوئے کہا۔
وہ کہنے لگا میں ضرور تُمہارے گھر آؤں گا لیکن ابھی نہیں چل سکتا کیونکہ
اپنی فیملی کیساتھ ہُوں تُم اپنا کارڈ مُجھے دے دو ۔ تاکہ میں آنے سے قبل
تُمہیں فون پر اِطلاع دے سکوں۔
میں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ اُسکے ہاتھ میں تھمایا اور الوداع ہونے سے قبل ایک
مرتبہ ہم دونوں پھر بغلگیر ہُوگئے۔
اگلے دِن دوپہر میں مجھے ایک گُمنام نمبر سے کال رِیسیو ہوئی جسے میں نے
اپنی عادت سے مجبور ہو کر اَٹیند نہیں کیا چند ایک مِس کالوں کے بعد اگلے
چند منٹوں میں مجھے اُسی نمبر سے ایک میسج موصول ہوا جس میں ریحان فرام
امریکہ لکھا دیکھ کر میں کال بیک کی تو دوسری جانب سے رِیحان کی آواز
سُنائی دِی،، عشرت بھائی ابھی آپ کہاں ہیں میں نے بتایا کہ اس وقت میں اپنی
فیکٹری میں موجود ہُوں اُنہوں نے پتہ معلوم کرنے کے بعد کہا کہ اس وقت میں
آپ کے نزدیکی علاقے میں ختم بُخاری کی محفل میں موجود ہُوں اگر اِجازت ہُو
تو یہاں سے فارغ ہونے کے بعد آپکی فیکٹری چلا آؤں ؟
میں نے کہا اِس میں پُوچھنے والی کیا بات ہے ۔سر آنکھوں پہ میرے یار،، جب
جی چاہے چلے آؤ۔
کُچھ لمحے اِنتظار کے بعد میں اپنے اسٹاف کیساتھ فیکٹری کو جشنِ آمد سرکار
صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کیلئے سجانے میں مصروف ہُوگیا تبھی ایک کار
فیکٹری کے گیٹ پر آکر رُکی جِس میں سے رِیحان برآمد ہُوا۔ میں نے آگے بڑھ
کر ریحان کا استقبال کیا اور اُسے لیکر اپنے آفس کی جانب بڑھنے لگا۔
ریحان کی آمد کیساتھ ہی میں اُسکی خاطر مدارت میں لگ گیا اور وہ مُجھے اپنے
امریکہ کے قصے سُناتا رَہا اور وہ بھی اس بات پر بے حد خُوش تھا کہ 27 برس
بعد ہی سہی لیکن کسی کلاس فیلو کے یُوں اچانک مِل جانے کی اُسے بالکل توقع
نہیں تھی۔
اچانک وہ کہنے لگا عشرت بھائی میں نے آپکو ڈسٹرب کردِیا ۔آپ شائد کسی تقریب
کی تیاری میں مصروف تھے۔
میں نے اُسے بتایا کہ یہ کوئی دُنیاوی تقریب کی تیاری تُو ہے نہیں جو آج
شروع اور آج ہی خَتم ہوجائیگی بلکہ عید مِیلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ
وبارک وسلم کی تیاری ہے جو 12 ربیع الاول تک جاری رہے گی۔
رِیحان : اسکا مطلب ہے کہ تُم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کی
پیدائش کے جشن کی تیاری کر رَہے تھے؟
میں نے کہا ۔ تُم بالکل ٹھیک سمجھے ہُو۔ میں اپنے آقا علیہ السلام کے یوم
ولادت کی خُوشی میں اپنی فیکٹری پر چراغاں کررہا ہُوں۔
ریحان : عشرت بھائی آپ بھی ایسی باتیں کر رہے ہیں جبکہ میں تو آپکو کافی
سمجھدار سمجھ رہا تھا۔ یہ تُو بِدعت ہے۔
بِدعت ہے مگر وہ کیسے ؟ ریحان کے جواب سے میں حیرت زدہ رِہ گیا۔
رِیحان : عشرت بھائی سیدھی سی بات ہے جو کام نہ ہمارے نبی صلی اللہُ علیہ
وآلہ وسلم سے ثابت ہُو نہ ہی صحابہ کرام رِضوان اللہ اجمعین نے کیا ہو اُسے
بدعت نہیں تو کیا سُنت کہیں گے؟
رِیحان میرے بھائی میں نے تُم سے ایک سوال کیا تھا لیکن تُم نے مزید ایک
سوال اور داغ دِیا۔ لیکن خیر میں تُمہاری بات سمجھ گیا ہُوں۔ تُمہارے کہنے
کا مطلب ہے کہ جو کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یا صحابہ کرام
رِضوان اللہ اجمعین کے زمانے میں نہ پایا جائے وہ بدعت ہے اور ایسے کام کو
نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن میرے بھائی اس طرح کے تو ہزاروں کام ہیں جو آج تمام
مسلمان کرتے ہیں۔ اور اُنہیں کوئی بدعت کا نام نہیں دِیتا جیسے کہ ہوائی
سفر یا مسجد کی توسیع یا قرآن مجید میں اعراب کا اضافہ وغیرہ ۔وغیرہ۔
رِیحان : لیکن عشرت بھائی یہ بھی تو دیکھیں کہ کوئی بھی مسلمان اِنہیں دین
کا حِصہ سمجھ کر نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی ہَوائی جہاز میں سفر کرتے ہُوئے
ثواب کی نیت رکھتا ہے اور نہ ہی ٹرین یا کار میں سفر کرنے کو ثواب کا ذریعہ
سمجھتا ہے۔
ریحان بھائی لگتا ہے تُم کوئی ایسی کتاب پڑھ کر آرہے ہُو جس میں میلاد
النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کی ممانعت لکھی ہے کیا تُم مجھے اپنی
معلومات کا ماخذ بتانا پسند کرو گے تاکہ میں جان سکوں کہ تُم کس قبیل کے
لوگوں کی کتابیں آجکل پڑھ رہے ہُو؟
نہیں عشرت بھائی نہ ہی میں کسی خاص فرقہ کی کتابیں پڑھ رہا ہوں اور نہ ہی
فرقہ واریت پر یقین رکھتا ہوں البتہ میری معلومات کا ذریعہ کُچھ وڈیو کلپس
ہیں جنکے لنکس گاہے بگاہے میرا ایک دوست بقول اُسکے وہ ثواب کی نیت سے مجھے
ای میل کے ذریعہ بھیجتا رِہتا ہے۔
اچھا اُن مولوی صاحب کا نام کیا ہے ؟ جو اُن وڈیوز میں بیان کرتے ہیں۔ میں
نے اگلا سوال دہرایا۔
رِیحان : عشرت بھائی نام تُو مجھے یاد نہیں ہیں البتہ دونوں ہی زبردست
عالمِ دین ہیں اُن میں سے ایک عالم دِین ہمیشہ سُرخ رنگ کا رومال سر پہ لئے
ہُوتے ہیں اور اُنکی داڑھی کافی بڑی اور خوبصورت دِکھائی دیتی ہے وہ دیکھنے
میں بالکل عربی عالم محسوس ہُوتے ہیں۔ جبکہ دوسرے عالم دین تقابل ادیان میں
خاص مہارت رکھتے ہیں اور ہمیشہ جالی والی ٹوپی میں ہی نظر آتے ہیں اور
اُنکے جلسہ میں ہزاروں لوگ موجود ہوتے ہیں اور ماشاءَ اللہ دونوں ہی علمائے
کرام میڈیا کے ذریعہ زبردست تبلیغی خِدمات سر انجام دے رَہے ہیں۔
اچھا تو کیا کہتے ہیں یہ علمائے کرام اپنی وڈیوز میں ؟ میں نے اگلا سوال
پیش کرتے ہوئے استفسار کیا۔
رِیحان : وہ کہتے ہیں کہ جس کام کی قرآن میں اصل موجود نہ ہو یا دُورِ نبوی
صلی اللہ علی وآلہ وسلم میں موجود نہ ہو اور بعد میں ثواب کی نیت سے کیا
جائے تو ایسا عمل بدعت اور ناجائز ہے۔
اچھا رِیحان بھائی اب میرے کُچھ سوالات ہیں جنہیں میں چاہونگا کہ تُم بغور
سُنو اور ہر سوال کے اِختتام پر اسکا جواب مجھے خُوب سوچ سمجھ کر دو تاکہ
ہم کسی نتیجے پر پُہنچ سکیں۔
سب سے پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے آج جو خَتم بُخاری کی مِحفل اٹینڈ
کی ہے تو آپ وہاں کس اِرادے سے گئے تھے؟
عشرت بھائی سیدھی سی بات ہے میں اس جلسہ میں حُصول ثواب کی نیت سے گیا تھا
اور اسکے ذریعہ سے مُجھے کافی علمی مسائل بھی سیکھنے کو مِلے ہیں۔
ریحان بھائی ویسے تو میں بھی ایسی محافل کو حُصولِ خیر وبرکت کا ذریعہ
مانتا ہُوں لیکن جو قواعد ابھی تُم نے بدعت ہونے کیلئے ثابت کئے ہیں اُسکی
روشنی میں تو آپکا یہ عمل بھی بدعت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ صحابہ کرام
نے کبھی ختم بُخاری کی مجلس اٹینڈ نہیں کی کیونکہ بُخاری تو صحابہ کرام
رضوان اللہ اجمعین کے زمانے میں تھی ہی نہیں۔
اچھا یہ بتاؤ کہ جب نبی اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وبارک وسلم کے خاکے بنائے
گئے تھے تو کیا امریکہ میں بھی مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ اور
احتجاج کی نوعیت کیا تھی اور کیا تُم اس احتجاج میں شریک ہُوئے تھے اور
کیوں ہُوئے تھے؟
رِیحان : جی ہاں عشرت بھائی پوری دُنیا کی طرح امریکہ میں بھی اُس گُستاخ
کارٹونسٹ کے خلاف الحمدُللہ احتجاج ریکارڈ کرایا گیا تھا البتہ دُنیا کے
دوسرے ممالک کی طرح ہمیں ہڑتال کرانے کی اجازت حاصل نہیں تھی اُس وقت مجھے
خاص طور پر پاکستانی مسلمانوں پر رشک آتا تھا جنہوں نے نہ صرف بھرپور
احتجاج ریکارڈ کرایا بلکہ کئی دِن احتجاجاً اپنے کاروبار کو بھی بند رکھا
اور مُجھے اس بات کی بھی بے حد خوشی تھی کہ تمام مسلمانوں نے اِس میں
بھرپور یکجہتی کا مُظاہرہ کیا تھا اور ہر مکتبِ فکر کے علماءَ اس میں ایک
دوسرے کے شانہ بشانہ چل رہے تھےَ اور سبھی مسلمان صرف حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کی مُحبت اور حصول ثواب کیلئے ایسا کر رہے تھے۔ لیکن آخر آپ یہ
بات مُجھ سے کیوں پُوچھ رہے ہیں اسکا میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک
وسلم سے کیا تعلق ہے؟
تعلق ہے میرے بھائی تبھی تو پوچھ رَہا ہُوں جیسا کہ ابھی تُم نے مجھے بتایا
کہ
نمبر (ایک) تُم نے یہ احتجاج گُستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کے
خلاف رِیکارڈ کروایا تھا۔
نمبر (دو) مُحبت رسول صلی اللہُ علیہ وسلم میں یہ عمل کیاَ۔
نمبر (تین) اسے ثواب اور نیکی کا ذریعہ سمجھتے ہو۔
نمبر (چار) اسکے لئے ہڑتال کی کال کو بھی جائز اور مستحسن عمل سمجھتے ہو۔
رِیحان : جی ہاں اس میں کیا شک ہے۔ دُنیا کے کسی بھی خطہ میں بسنے والا
کوئی بھی مسلمان ایسی گُستاخی بھلا کسطرح برداشت کرسکتا ہے۔
نہیں بھائی مُجھے بھلا اسمیں کیا شک ہوسکتا ہے لیکن میرے ذہن میں ایک سوال
پیدا ہُورہا ہے کہ اگر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کا جلوس
صرف اس وجہ سے ناجائز ہے کہ نہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم
کے زمانے میں تھا اور نہ ہی صحابہ کرام رِضوان اللہِ اجمعین کے زمانے میں
تھا اور مسلمان اسے ثواب کا ذریعہ سمجھ کر کرتے ہیں تو یہ تمام علتیں تو اس
جلوس میں بھی نظر آرہی ہیں کہ ابوجہل اور دوسرے کُفار نے حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی بے شُمار مرتبہ گُستاخیاں کی تھیں لیکن نہ
ہی صحابہ کرام رضوان اللہِ اجمعین نے اس طرح کا کوئی جُلوس اُن کُفار بد
اطوار کی گُستاخیوں کے جواب میں نِکالا نہ ہی اُسکے لئے اپنی دوکانوں کو
بند کیا یعنی کوئی ہڑتال بھی نہیں کی اور نہ کافروں کے خِلاف نعرے بازی کی
لیکن آپ نے یہ سب کُچھ صرف مُحبت میں ہی نہیں کیا بلکہ اس پر ثواب کی اُمید
بھی رکھتے ہیں جو کہ نہ ہی صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہ اجمعین کے عمل سے
ثابت ہے اور نہ ہی جب کہ ہمارے پیارے آقا علیہ السلام نے اس کی تعلیمات
مسلمانوں کو دِی تو جب اسطرح کے جلوس بدعت نہیں تو یہ تلوار صرف عید میلاد
النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کیلئے ہی کیوں ہے۔ کیا آپ کے پاس اسکا
کوئی عقلی یا نقلی ثبوت ہے؟
رِیحان : نہیں میرے پاس آپ کے سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔
اچھا چلیں اسے چھوڑیں ابھی کُچھ دیر پہلے آپ نے بتایا تھا کہ آپکا دوست
آپکو دینی جذبے کے تحت حصول ثواب کی خاطر وڈیو بھیجتا ہے تُو کیا آپکا وہ
دوست ایسے کام کو دین کا حصہ اور ثواب کا ذریعہ نہیں سمجھ رہا جو صحابہ
رِضوان اللہ اجمعین نے کبھی انجام دِیا ہی نہیں کیا یہ بدعت کے زُمرے میں
نہیں آتا کہ اسمیں بھی دینی خدمت اور ثواب کی نیت بدعت کے زمرے میں آجائیگی
دونوں میں ہی وہی جذبہ موجود ہے اور طریقہ کا ثبوت یہاں بھی مفقود ہے۔
پھر آپ جِن علمائے کرام سے مُتاثر ہُو کر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وبارک وسلم کے جلوس پر بدعت کا لیبل لگانے پر مصر ہیں آپ ہی کی فراہم
کردہ معلومات کی روشنی میں اُنکے اعمال تضادات کا شکار ہیں۔
وہ کیسے عشرت بھائی میں سمجھا نہیں وہ تو خالصتاً شریعت کی پاسداری کرتے
ہیں اور سُنت کو بدعت پر مقدم رکھنے والے لوگ ہیں آپ کی یہ بات مجھے بالکل
ہضم نہیں ہُورہی لیکن ایک بات کا اعتراف میں ضرور کرنا چاہوں گا اور وہ یہ
کہ آپ سے مُلاقات کے بعد میری معلومات میں کافی اضافہ ہورہا ہے اور مجھے
ایک ہی سوال کی کئی جہتیں آپکی گُفتگو کے ذریعہ نظر آرہی ہیں۔
رِیحان بھائی یہ تو آپکا اعلیٰ ظرف ہے جو میری باتوں کو آپ اتنے غور سے سُن
بھی رہے ہیں اور اُس پر غُور بھی کر رہے ہیں ورنہ ہم مسلمانوں میں سے تو
ایسا لگتا ہے کہ جیسے برداشت کا مادہ ہی خَتم ہوچُکا ہے کوئی کسی کی بات
سننے کیلئے تیار نہیں چاہے سامنے والے کے پاس لاکھ عقلی اور نقلی دلائل
ہُوں ہم ایک دوسرے کی بات بھی تحمل سے نہیں سُن سکتے میں سچ کہتا ہُوں کہ
اگر آپ کی جگہ اگر کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اب تک مجھ پر کئی بار لاحول پڑھ
کر رُخصت ہوگیا ہوتا۔
ریحان ۔ اچھا عشرت بھائی ابھی آپ تضادات کی بات کررہے تھے میں آپکی رائے
جاننا چاہتا ہُوں کیونکہ آپ کے اِس جملے نے میرے اندر عجیب سی بے چینی پیدا
کردی ہے۔
دیکھیں رِیحان بھائی آپ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ وہ دونوں حضرات قاطع بدعات
اور شریعت اور سُنت کے حامی ہیں اور ہر ایسی بات کو گُناہ جانتے ہیں جو
اسلاف رحمُ اللہ اجمعین کے زمانے کے بعد دین میں پیدا ہوئی ہُوں اور وہ
اُنہیں ناجائز اور گُناہ میں شامل کرتے ہیں جبکہ آپ نے اُن دونوں حضرات کا
جو حُلیہ اور جو طریقۂ تبلیغ ابھی بیان کیا ہے وہ نہ صرف تضادات کا شکار ہے
بلکہ اُنکے بیان کردہ اصول کی روشنی میں بدعت اور ناجائز نظر آرہا ہے جیسا
کہ آپ نے بتایا کہ اُن میں سے ایک عالم صاحب عرب شریف کی طرز پر سر ڈھانپتے
ہیں تُو دوسرے سر پر جالی والی ٹوپی رکھتے ہیں اب آپ خود ہی کہیئے کیا وہ
اپنا سر رومال اور ٹوپی سے اس لئے ڈھانپتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہُ علیہ
وآلہ وسلم نے ہمیشہ اپنا سرمُبارک ڈھانپ کر رکھا یا یونہی شوق میں اپنا سر
ڈھانپ کر رکھتے ہیں؟
رِیحان ۔عشرت بھائی یہ تُو اچھی بات ہُوئی نا اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے
کہ وہ سُنت کی پاسداری میں کتنے مستعد ہیں اِس میں آپکو تضاد کہاں نظر
آگیا؟
تضاد ہے رِیحان بھائی لیکن آپ کی آنکھوں پر اُنکی مُحبت کی جو پٹی چَڑھی ہے
وہ آپکو یہ تضاد نہیں دِکھا پارہی ۔ دِیکھو صحاح ستہ کی تمام کُتب کو کھول
کر دِیکھ لو کوئی ایک حدیث مجھے ایسی دِکھادو کہ آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے
کبھی عمامہ کے بجائے کوئی جالی دار ٹوپی یا آجکل عرب شریف میں رائج یہ سُرخ
رومال کبھی اپنے سر مُبارک پر باندھا ہُو آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے ہمیشہ
عمامہ شریف ہی سر پر سجایا اور صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین نے بھی آپکی
اتباع اور اطاعت میں ہمیشہ عمامہ شریف ہی اپنے سروں پہ سجایا تھا پھر جب
صحابہ کرام رِضوان اللہ اجمعین کے مُبارک دور تک نہ ہی ٹوپی تھی اور نہ ہی
یہ رُومال تھا تو مجھے بتاؤ کہ یہ سب سُنت کی پاسداری ہے یا بدعت ہے؟
کیا یہ کُھلا تضاد نہیں ہے کہ اپنے لئے بدعت حلال کر لی جائے اور دوسروں
کیلئے حرام بنا دی جائے اور دوسری بات یہ بھی دِیکھو کہ جو یہ مولوی صاحبان
الیکٹرانک میڈیا کو اپنے بیانات کے لئے استعمال کر رہے ہیں کیا اسطرح کی
وڈیوز دین کی خدمت اور ثواب کی نیت سے سے شائع کر رہے ہیں یا یہ اپنا شغل
پُورا کر رہے ہیں یقیناً یہ سب کُچھ وہ دین کی خِدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر
حصول ثواب کی نیت سے ہی کر رہے ہُوں گے شغل میلہ کیلئے تو ہرگز نہیں کر رہے
ہونگے تُو کیا یہ بدعت ہے یا طریقہ ٔ سُنت ہے؟
ریحان ۔عشرت بھائی آپکی باتوں سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم سب ہی بدعت کے
چُنگل کا شکار ہیں اور کوئی بھی راہِ سُنت پر نہیں چل پارہا یہاں تک کہ وہ
لوگ بھی اس مرض میں گرفتار ہیں جو صبح شام بدعت بدعت کا نعرہ لگاتے ہیں۔
دیکھو ریحان بات دراصل یہ نہیں ہے کہ ہم کس راہ پر چل رہے ہیں بلکہ ہمیں یہ
دیکھنا چاہیے کہ آخر ہماری منشا کیا ہے اگر اللہ کریم کی رضا مقصود ہے تو
دِین اسلام اتنا تنگ نظر نہیں کہ آپکو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی محروم کر
دے جیسے خَتم بُخاری کا جلسہ مُحبت رسول میں قائم کیا جاتا ہے اور ڈھیروں
خیر و نیکیوں کا مخزن ہے اسی طرح میلاد النبی صلی اللہ علیہ کی محافل ہُوں
یا جشن میلاد کا جلسہ دونوں ہی اللہ کریم کی رضا کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں
جب عیسیٰ علیہ السلام کی اُمت پر انعام ہو تو اُسے عید کا دِن بنا دیا جائے
تو کیا جس کے صدقے ہمیں یہ زندگی عطا فرمائی گئی جو باعثِ تخلیق کون ومکاں
ہو اُس سے بڑھ کر اور کونسی نعمت ہوگی کیا ہمیں اس نعمت کا شُکر ادا نہیں
کرنا چاہیے حالانکہ اللہ کریم نے اپنے محبوب کی دُنیاوی آمد کو نا صرف اپنی
سب سے بڑی نعمت کہا بلکہ مومنین پر اِس احسان کو جتایا بھی جبکہ اپنی اور
کسی نعمت کو اسطرح نہیں جتایا۔
اور جہاں تک بات ہے کسی نئے طریقہ کی تو اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ کہیں
یہ طریقہ قرآن و حدیث سے ٹکرا تو نہیں رہا اسی لئے آقائے نامدار ہم غریبوں
کے غمخوار صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نے ارشاد فرمایا مفہوم،، جس نے
اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تُو اُسے اسکا ثواب ملے گا اور اسکا
بھی ثواب ملے گا جو (بعد والے) اُس پر عمل کریں گے اور انکے ثواب میں کُچھ
کمی نہ ہوگی (ابو داؤد شریف)۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم سے ایسے نئے کام کی وضاحت جو کتاب و سنت میں نہ ہو کہ متعلق
پوچھا گیا تو آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس امر محدث کے
بارے میں عابدین و مومنین کو غور و فکر کرنا چاہیئے۔
اس حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نئے کام کو بُرا سمجھنے کے بجائے
مجتہدین اور اہل اللہ سے اُس کے متعلق معلوم کیا جائے گا اور وہ اِس پر
اپنا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں دیں گے ناکہ ہر نئی چیز پر ڈائریکٹ
بدعت اور ناجائز کا فتویٰ صادر کردیا جائے کیونکہ دین اسلام بنی نوع انسان
کی آسانی کیلئے آیا ہے نہ کی مسلمانوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے کیلئے ورنہ
جس قسم کے فتوٰی آجکل کے ماڈرن مولوی مسلمانوں پر چسپاں کر رہے ہیں انکی
روشنی میں تو خُود یہ مولوی صاحبان بھی صرف بدعتی ہیں اور اگر ہر نئی چیز
بدعت کے زمرے میں شامل کردی جائے اور بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ میں تمیز روا
نہ رکھی جائے تو تمام مسلم اُمہ ایک ایسی پریشانی میں مُبتلا ہوسکتی ہے
جسکا حل ان جیسے کسی نام نہاد مولویوں کے پاس بھی نہیں ہوگا کیونکہ سب پر
قانون کا اطلاق ایک جیسا ہونا چاہیئے ناکہ خود کیلئے وہی چیز حلال کرلی
جائے جو دوسرے مسلمانوں کے لئے حرام تفویض کردی جائے۔
ہاں اس سے بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ اس دِن کو اپنے طریقہ سے منالیں
اور دوسرے مسلمانوں کیلئے اپنی رائے کُشادہ رکھیں جسکا جی چاہے جشن میلاد
النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم اپنے کو اپنے گھر میں درود و نوافل کے
ساتھ گُزارے اور جو جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کے جلوس
میں شریک ہوکر اس دِن کو منانا چاہے اُسکے جذبات کا بھی احترام کیا جائے۔
ریحان ۔ عشرت بھائی آپکی باتوں نے اگرچہ میرے تمام شکوک رفع کردئیے ہیں
لیکن ایک آخری سوال اور معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ سُنا ہے کہ بارہ ربیعُ
الاول وفات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کا دِن ہے تو اس دِن
مسلمانوں کا خُوشی منانا کیسا؟
میرے بھائی جب ہم تاریخ اسلام کا مُطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات کنفرم ہوجاتی
ہے کہ آپ صلی اللہُ علیہ وسلم کی ولادت مبارک اور وصال ظاہری دونوں ہی اس
ماہ مُبارک میں وقوع پذیر ہُوئی ہیں لیکن یہاں مسلمانوں کی نیت دیکھی جائے
گی کیونکہ تاریخوں میں اختلاف اپنی جگہ سہی مگر تمام مسلمانوں نے اس دِن کو
کثرت روایات کی وجہ سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کے لئے
چُن لیا ہے بس جب اُمت کا اجماع اس تاریخ پر ہوگیا تو کیا فرق پڑتا ہے کہ
ولادت با سعادت کس دِن ہوئی اللہ کریم دِلوں کے بھید خُوب جانتا ہے کہ کون
اس دِن کو کیوں اور کیسے منا رہا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ وصال ظاہری
کوئی غم منانے کا دِن نہیں ہے بلکہ انعام اور اجر دیئے جانے کا دِن ہے شرفِ
مُلاقات ایزدی کا دِن ہے اور صحابہ کرام اُس دِن اپنی تکلیف کا احساس صرف
اس لئے کر رہے تھے کہ وہ جانتے تھے کہ اب وہ ظاہری جلوؤں میں کیسے گُم رہیں
گے کس کے انتظار میں صبح کا انتظار کریں گے کہ جس سے شرف مُلاقات اور رُخ
زیبا کے دیدار کی تمنا لئے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم کی
جانب دُوڑے چلے جاتے تھے۔ وہ والضحی کا حسین چہرہ اب نظر نہیں آئے گا اور
وہ جانتے تھے کہ اب وہ جانِ جاناں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم
میں کب نظر آئے گا جس کو دوران نماز بھی وہ تکا کرتے تھے۔ نہ کہ وہ اس لئے
غمزدہ تھے کہ خُدانخواستہ اُنکا نبی زندہ نہ رَہا تھا کیونکہ ہر صحابی رضی
اللہ تعالیٰ عنہُ کا یہ عقیدہ تھا کہ ہر نبی علیہ السلام اپنی اپنی قبر میں
زندہ بھی ہے اور اللہ کریم نے زمین پر حرام کردیا ہی کہ وہ انبیا علیہم
اسلام کے جسموں کو کھائے۔
ریحان ۔ عشرت بھائی سمجھ نہیں آتا کہ آپکا شُکریہ کسطرح ادا کروں آپ نے جو
اسلامی زاویہ مجھے آج دِکھایا ہے مرتے دَم تک اِس گُفتگو کو نہیں بھول پاؤں
گا اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جتنے بھی سال میں جشن ولادت مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ وآلہ وبارک وسلم کی سعادت سے محروم رہا ہوں اسکے ازالہ کی بھی کوشش
کرونگا اور آپ کے پیغام کو مرتے دَم تک عام کرتا رہونگا۔
اور ہمیشہ یہ دُعا بھی کرتا رَہونگا کہ اللہ کریم تمام مسلمانوں کو یہ عید
کا دِن نہایت ادب و احترام سے منانے کی توفیق عطا فرمائے۔
ریحان کی دُعا پر میرے مُنہ سے خود بخود یہ جُملہ ادا ہوگیا آمین بِجاہِ
النبی الامین وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
اے کاش یہ آمین فرشوں کی آمین سے مِل گیا ہو اور ریحان کی دُعا تمام
مسلمانوں کے حق میں قبول کی جا چُکی ہُو اور اسطرح تمام مسلمان اس خوشی کی
گھڑی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہُوں۔ |