14فروری کو دنیا بھر میں محبت کا
عالمی دن منایا جاتا ہے جس کو ویلنٹائین ڈے کہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی اب
یہ دن کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا کم و بیش پندرہ سولہ سال قبل تک تو شائد
پاکستان میں خال خال لوگ ہی اس دن سے واقف ہوتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے
آج ہر تیسرا فرد اس دن سے واقف ہے۔ اس کی دن تاریخ بھی عجیب و غریب ہے اور
اس حوالے سے دو تین روایات بیان کی جاتیں ہیں ،ان روایات کے بارے میں ہم
اپنے ایک مضمون میں بات کرچکے ہیں اس لیے اس پر مزید بات نہیں کریں گے اس
مضمون کا لنک یہاں دیا جارہا ہے اس لنک پر جاکر وہ مضمون بھی دیکھا جاسکتا
ہے۔
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=2330
فی الوقت ہمارا موضوع یہ ہے کہ کیا کسی دل میں ایک ساتھ دو مختلف و متضاد
قسم کی محبتیں پروان چڑھ سکتی ہیں؟
اس بات کا جواب اگر کسی محبت کرنے والے سے مانگیں تو اس کا جواب یقیناً نفی
میں ہوگا۔بات تو درست بھی ہے کہ ایک دل میں ایک ہی قسم کی محبت پروان چڑھ
سکتی ہے۔ اگر( الف) نام کا لڑکا (ب) نام کی لڑکی سے محبت کرتا ہے تو یہ نا
ممکن ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ (ث) نام کی لڑکی کے ساتھ بھی محبت کرے۔
یقیناً وہ محبت کسی ایک کے ساتھ کرتا ہے اور ایک سے صرف محبت کے جھوٹے دعوے
کرتا ہے(یہی مثال لڑکیوں کے لئے بھی استعمال کی جاسکتی ہے)۔اسی طرح اگر ایک
فرد کو اپنے دوست سے محبت ہوگی تو یہ نا ممکن ہے کہ وہ اپنے دوست کے دشمن
سے بھی محبت رکھے،دوستی کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ دوست کے دوست کو دوست رکھے
اور دوست کے دشمن کو دشمن سمجھے۔ اگر کوئی فرد دوست کے دشمن سے بھی محبت
رکھے اور پھر دوست سے دوستی کا دعویٰ بھی کرے تو کوئی بھی عقل رکھنے والا
اور باضمیر فرد اس کے اس دعویٰ کو سچا نہیں سمجھے گا بلکہ وہ یہی کہے کہ ’’
جناب آپ جھوٹ کہتے ہیں اگر آپ کے دل میں دوست کی محبت ہوتی،دوستی کی قدر
ہوتی تو آپ کبھی بھی دوست کے دشمن کو اپنا دوست نہ کہتے،اس سے محبت نہ
رکھتے‘‘
اچھا ایک بات اور بھی ہے محبت کا معاملہ بڑا عجیب ہوتا ہے۔انسان جس سے محبت
کرتا ہے کوشش کرتا ہے کہ اس کی پسند و ناپسند کو بھی اپنائے۔ اگر محبوب کو
گلاب کا پھول پسند ہے تو عاشق بھی گلاب کے پھول کو پسند کرنا شرع کردے گا۔
چاہے اس سے پہلے اس کو گلاب کا پھو ل نا پسند ہی کیوں نہ ہو۔ اگر محبوب کہے
کہ میں شلوار قمیص کے بجائے آپ کو پینٹ شرٹ میں دیکھنا چاہتا ہوں تو عاشق
فوراً شلوار قمیص کو خیر باد کہہ کر پینٹ شرٹ کو اپنا لے گا۔اگر محبو ب کہے
کہ مجھے چوٹی کے بجائے کھلے بال پسند ہیں تو محبوبہ اگلے دن سے بالوں کو
باندھنے کے بجائے ان کو کھلا چھوڑ دے گی اگر محبوب کہے کہ تم گلابی کے
بجائے نیلے سوٹ میں زیادہ اچھی لگتی ہو تو محبوبہ گلابی رنگ کے سوٹ کر خیر
باد کہہ کر نیلے رنگ کو اپنا لے گی کہ محبت کا یہ اصول ہے،یہی تقاضا ہے۔
ایک محبت وطن کی بھی ہوتی ہے۔یہ ناممکن سی با ت ہے کہ اگر ہمیں اپنے وطن سے
بھی سچی محبت ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وطن دشمنوں سے بھی محبت ہو۔ وطن سے
محبت کا تقاضا یہی ہے کہ وطن دشمنوں سے محبت نہ کی جائے۔ جو وطن کا دشمن ہو
اس کو اپنا دشمن سمجھا جائے اگر ہم وطن سے محبت کا دعویٰ بھی کریں اور وطن
دشمنوں سے محبت بھی رکھیں تو ہمارا دعویٰ خودبخود باطل ہوجائے گا اور کوئی
بھی باضمیر فرد ہماری وطن سے محبت کے دعویٰ کو سچا نہیں سمجھے گا۔وطن سے
محبت کا تقاضا ہے کہ وطن دشمنوں سے تعلق کو محدود اور بقدر ضرورت ہی رکھا
جائے ۔
پھر اسی طرح اپنے دین ،اپنے نبی سے محبت کا معاملہ ہے۔ اگر ہمیں اپنے دین
سے محبت ہوگی تو یقیناً کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ہی دل میں نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کی بھی محبت ہو اور اس کے ساتھ ساتھ نبی مہربان صلی اللہ علیہ
وسلم کے دشمنوں کی بھی محبت بس جائے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک فرد نبی اکرم ﷺ
سے محبت کا دعویٰ بھی کرے اور پھر نبی مہربان ﷺ کی لائی ہوئی شریعت اور
احکام قرآنی کے برخلاف عمل بھی کرے؟اگر کوئی فرد ایسا عمل کرے تو کوئی بھی
باشعور فرد اس کے دعویٰ کو جھوٹا کہہ دے گا۔ ویلنٹائین ڈے ایک مغربی تہوار
جس کی بنیاد سفلی و نفسانی جذبات پر رکھی گئی ہے۔ کیوں کہ جب ویلنٹائن ڈے
کی بات آتی ہے تو دن سے مراد صرف اور صرف ایک مرد و عورت،لڑکا یا لڑکی عاشق
و معشوق کی محبت ہی لی جاتی ہے۔ دل کو بہلانے کے لئے کہہ دیا جاتا ہے کہ
محبت تو ماں باپ اور دوستوں سے بھی کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں
ہوتا۔آگے بڑھنے سے پہلے قرآن کی کچھ آیات ہمارے پیش نظر ہونی چاہئیں۔ اللہ
تعالیٰ سورہ نو ر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ترجمہ ( اے نبی مومن مردوں سے
کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان
کے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا
ہے۔ اور اے نبی ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور
اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے
جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ
اپنا بناؤ سنگھار نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے، شوہر، باپ، بھائی، شوہروں
کے باپ،اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے،
اپنے میل جول کی عورتیں ،اپنے لونڈی غلام ،وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم
کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ
ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں
نے چھپا رکھی ہو اس کا علم لوگو کو ہوجائے۔اے مومنوں تم سب مل کر اللہ سے
توبہ کرو توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ سورہ نور آیت 30.31 )
ترجمہ ( اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں
،ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق
اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔۔۔۔ ۔سور ہ الحجرات آیت 11)
مردوں اور عورتوں کا الگ الگ ذکر کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کے لئے
عورتوں اور عورتوں کے لئے مردوں کا مذاق اڑانا جائز ہے ،دراصل جس وجہ سے
دونوں کا الگ الگ ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام سرے سے مخلوط سوسائٹی کا
قائل ہی نہیں ہے۔ ایک دوسرے کی تضحیک ،عموماً بے تکلف مجلسوں میں ہوا کرتی
ہے اور اسلام میں یہ گنجائش رکھی ہی نہیں گئی کہ غیر محرم مرد اور عورتیں
کسی مجلس میں جمع ہوکر آپس میں ہنسی مذاق کریں اس لئے اس بات کو ایک مسلم
معاشرے میں قابل تصور نہیں سمجھا گیا ہے کہ ایک مجلس میں مرد کسی عورت کا
مذاق اڑائیں گے یا عورتیں کسی مرد کا مذاق اڑائیں گی۔
جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور
آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں ۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔
سورہ نور آیت 19) اے لوگوں جو ایمان لاء ہو شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اس
کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی کا ہی حکم دے گا۔۔۔ سورہ نور
آیت 21)
مذکورہ بالا آیات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اصل میں غص بصر کا حکم دیا گیا
ہے جس کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے لیکن اس
حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر
نہ دیکھنا اور نگاہوں کو دیکھنے کے لئے بالکل آزاد نہ چھوڑنا ہے۔یہ مفہوم
’’نظر بچانے سے ‘‘ سے ٹھیک ادا ہوتا ہے۔۔ اور یہ بات سیاق و سباق سے بھی
معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی ہے وہ مردوں کا عورتوں کو
دیکھنا یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا
ہے-
ایک بار پھر سوچئے اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا ایک دل میں ایک ہی
وقت میں حب اللہ حب نبی اکرم ﷺ بھی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دنیاوی و
سفلی محبت بھی ہو؟
آئیے اور دیکھیں کہ قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ ترجمہ :( اے نبی ! لوگوں
سے کہہ دو کہ ’’ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی
اختیار کرو ٗ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔
وہ بڑا مہربان کرنے والا اور رحیم ہے‘‘ ۔ اُن سے کہو کہ ’’ اللہ اور رسول
کی اطاعت قبول کرلو‘‘ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں ٗ تو یقیناً
یہ ممکن نہیں کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے ٗ جو اس کی اور اس کے رسول کی
اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔ سورہ آل عمران آیت 31.32 )
ترجمہ :( نہیں ٗ اے محمد تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک
کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ٗ پھر جو
کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں ٗ بلکہ
سربسر تسلیم کرلیں۔سورہ النساء آیت65 ) علما کرام کے مطابق اس آیت کا حکم
صرف حضورﷺ کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ قیامت کے لئے ہے۔ جو کچھ اللہ کی
طرف سے نبی ﷺ لائے ہیں اور جس طریقہ پر اللہ کی ہدایت و رہنمائی کے تحت آپ
ﷺ نے عمل کیا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کن سند
رہے گا اور اس سند کو ماننے یا نہ ماننے ہی پر آدمی کے مومن ہونے اور نہی
ہونے کا فیصلہ ہے۔ حدیث میں اسی بات کو نبی ﷺ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا
ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اس
طریقہ کی تابع نہ ہوجائے جسے میں لیکر آیا ہوں ( تفھیم القرآن از سید ابو
الاعلیٰ مودوودی جلد اول صفحہ 329)
ترجمہ ( البتہ جو ان میں سے تائب ہوجائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلیں
اور اللہ کا دامن تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کردیں۔ایسے
لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور اللہ مومنوں کو ضرور اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔
(سورہ النساء آیت46 ) یہاں اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کردینے کا مطلب یہ
ہے کہ آدمی کی وفاداریاں اللہ کے سوا کسی اور سے وابستہ نہ ہوں،اپنی ساری
دلچسپیوں اور محبتوں اور عقیدتوں کو اللہ کے آگے نذر کردے ، کسی بھی چیز کے
ساتھ اس کا ایسا لگاؤ باقی نہ رہے کہ اللہ کی رضا کے لئے اُسے قربان نہ کیا
جاسکتا ہو ۔(تفھیم القرآن از سید ابوالاعلیٰ مودودی جلد اول صفحہ 412)
آئیے دیکھیں کہ محبت اور ایمان کے بارے میں احادیث نبوی ﷺ کیا کہتی ہیں
حضرت ابو ہریرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’تو قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا
جب تک اس کو میری محبت اپنے باپ اور اولاد سے زیادہ نہ ہو۔‘‘ اور کم و بیش
یہی حدیث الفاظ کی تھوڑی تبدیلی کے ساتھ حضرت انسؓ سے بھی روایت کی گئی ہے
کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ تم
میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کو میری محبت اپنے
باپ،اپنی اولاد اور سب لوگوں سے زیاد نہ ہو‘‘ (صحیح بخاری جلد اول کتاب
الایمان )
حضرت ابنؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جس میں
تین باتیں ہونگی وہ ایمان کا مزہ پائے گا۔ایک تو اللہ اور اسکے رسولﷺ کی
محبت اس کو سب سے زیادہ ہو،دوسرے کسی بندے سے خالص اللہ کے لئے دوستی
رکھے،تیسرے پھر کفر میں جانا جب اللہ نے اس کو کفر سے چھڑا دیا اتنا ہی برا
سمجھے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔
مذکورہ بالا آیات اور احادیث نبوی ؑ ﷺ کی روشنی میں بہ آسانی اس بات کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم درحقیقت کس کے ساتھ ہیں ،کس سے محبت کرتے ہیں
بلکہ دراصل یہی تو ایک پیمانہ ہے ایک میزان ہے کہ اس میں ہم یہ اندازہ
لگائیں کہ اللہ ہم سے کتنی محبت کرتا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے
ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جو شخص یہ جاننا چاہتا ہے کہ اللہ کے
نزدیک اس کا مقام (قدر و منزلت ) کیا ہے وہ یہ دیکھے کہ اللہ کا مقام اس کے
نزدیک کیا ہے۔‘ ‘ اس حدیث مبارکہ کو سامنے رکھیں اور دیکھتے جائیے ! ہمارے
د ل میں اللہ کا کیا مقام ہے،ہمارے وقت میں اس کا کیا حصہ ہے؟ ہمارے مال
میں اس کے لئے کتنا ہے؟ ہماری یاد اور توجہ اللہ کے لیئے کس قدر ہے بس اسی
سے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کے نزدیک ہمارا مقام کیا ہے-
آج ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا ہے اسی لیے
ہم پریشان حال ہیں۔ اسی لیے رسو ا ہیں اور جب ہم نے اللہ کے احکامات پر
خواہشات نفسانی کو ترجیح دینا شروع کی تو مسائل اور آلام میں گھر گئے ہیں ۔
آج ہم نے اپنے دلوں میں دنیا کی محبتیں بھر لی ہیں لیکن دعویٰ ہے کہ ہمیں
تو اللہ اور اس کے نبی ﷺ سے محبت ہے ۔لیکن یہ ساری باتیں تو مخبر صادق حضرت
محمد مصطفیٰ نے آج سے ساڑھے سودہ سو سال قبل ہی ہمیں بتا دی تھیں کہ اگر ہم
احکامت الٰہی سے رو گردانی کریں گے تو کیا صورتحال پیدا ہوگی حضرت ابو
امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں
اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہاری عورتیں حدود سے باہر نکل پڑیں گی ٗ
تمہارے نوجوان نافرمان ہوجائیں گے اور تم جہاد کو چھوڑ بیٹھو گے! صحابہ
کرام نے کہا : اے اللہ کے رسول کیا واقعی ایسا بھی ہوگا؟
آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے عنقریب اس سے بھی
بڑھ کر ہوگا۔ صحابہؓ پوچھا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس
وقت تمہارا حال یہ ہوگا کہ تم امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کو چھوڑ
بیٹھو گے!
صحابہ کرامؓ نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ایسا بھی ہونے والا ہے؟ (پھر
آپﷺ نے فرمایا ) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اس سے بھی
کہیں زیادہ ہوگا۔
صحابہؓ نے کہا اے اللہ کے رسول اس سے زیادہ اور کیا ہوگا؟
آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت تمہارا حال یہ ہوگا کہ معروف کو منکر اور منکر کو
معروف سمجھنے لگو گے !
صحابہؓ نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا وہ دن بھی آنے والا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میری ذات کی قسم ( جب ایسی
صورتحال ہوجائے گی تو ) میں ان کے لیے ایسا فتنہ برپا کردوں گا جس میں
صاحبان عقل و ہوش حیران و ششدر رہ جائیں گے (ابن ابی الدنیا بحوالہ کلام
نبوی ﷺ کی صحبت میں از خرم مراد ترجمان القرآن فروری 1995 )
حییٰ علیٰ خیرالعمل حییٰ علیٰ خیرالعمل
سارے صنم مسمار کر ، خیر البشر سے پیار کر
رکھ کر نبی کو سامنے ، آرائشِ کردار کر
اپنائے گی رحمت تجھے ، مل جائے گی جنت تجھے
اپنے عذابوں سے نکل ، حییٰ علیٰ خیرالعمل |