خدشات میں گھرا پاکستان

لاہور میں امریکی خفیہ ایجنٹ کی جانب سے دو پاکستانیوں کو قتل کرنے، قونصلیٹ کی گاڑی سے ایک شخص کو کچل کر ہلاک کرنے اور بعدازاں ایک مقتول کی بیوہ شمائلہ کی خودکشی (یاد رہے کہ فہیم اور شمائلہ مرحومہ کی شادی صرف چھ ماہ قبل ہوئی تھی اور شمائلہ امید سے بھی تھی)سمیت بہت سے ایسے مسائل و معاملات ہیں جنہوں نے پورے پاکستان کو خدشات کی گہری دھند میں لپیٹا ہوا ہے۔ پہلے حکومت کے خدشات کا ذکر کرتے ہیں، صدر زرداری نے لاہور واقعہ کے تناظر میں کہا ہے کہ اس کیس کو اچھالنے والے نہیں جانتے کہ اس سے پاکستان کو کتنے نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔ یقیناً صدر زرداری کا ذہن بہت دور رس ہے اور اس کیس کو ”اچھالنے“ کے حوالے سے جو بھی نتائج و عواقب ہوسکتے ہیں انہیں ان کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوگا، صدر کے ذہن میں یہ بھی ہوگا کہ اگر امریکہ بہادر ان سے ناراض ہوگیا تو کیا پیپلز پارٹی بطور جماعت ان کے ساتھ رہے گی یا کسی بغاوت کا اندیشہ ہوسکتا ہے، وہ یقیناً سمجھتے ہیں کہ اگر اس معاملہ کی وجہ سے امریکہ نے امداد بند کردی تو ”بہت کچھ“ بند ہوجانے کا خدشہ و احتمال ہوگا جیسا کہ امریکی کانگریس کے ارکان نے بھی تازہ ترین دھمکی میں یہی کہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا نہ کیا گیا تو پاکستان کی امداد روکی جاسکتی ہے، ہمارے یہاں لوگ حکومت میں آتے ہی اس لئے ہیں کہ غیروں کی امداد پر پلتے رہیں اور ان کے احکامات پر بلا چون و چراں عمل پیرا ہوکر ”ثواب دارین“ حاصل کرتے رہیں۔ دیکھیں ناں اگر ایک گداگر، ایک طرف ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہا ہو اور بھیک دینے والا اس بھک منگے کے بیٹے کو دو چار جڑ بھی دے تو کیا فرق پڑتا ہے، اس بھک منگے کو، جس کو کام کی عادت نہ ہو، جو عیش و آرام کا دلدادہ ہو، جو خود بھی بیٹے کو سرعام مار پیٹ کا نشانہ بناتا ہو، اگر بھیک دینے والا بھی دو چار تھپڑ مارلے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ حکومت کو شاہ محمود قریشی سے بھی بہت سے خدشات ہیں کہ اگر وہ نہ مانے اور اصل بات پر اڑے رہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو کوئی سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے کیونکہ پوری قوم کی طرح شاہ صاحب بھی جانتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس نے تھانہ پرانی انارکلی میں یہی بیان دیا تھا کہ ”میں صرف ایک کنسلٹنٹ ہوں“جس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اسے کسی قسم کا کوئی استثنیٰ ہرگز حاصل نہ ہے تو پھر کیا ہوگا؟ رحمان ملک کو تو خدشات کی پوری سیریل نے گھیر رکھا ہے، ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ پر ان پر الزام ہے کہ انہوں نے پنجاب حکومت پر اسے چھوڑنے کے لئے دباﺅ ڈالا تھا اور فون کیا تھا، رحمان ملک کیا سوچتے ہونگے؟ یہی کہ اگر اعلیٰ عدلیہ نے ان کے ریمنڈ ڈیوس سے متعلق بیانات کے گورکھ دھندوں میں الجھنے سے انکار کردیا اور ان سے وضاحت طلب کرلی کہ جو فائل وزارت خارجہ میں ہونی چاہئے تھی وہ ان کے پاس کیا کررہی ہے اور آیا اس میں کتنی تبدیلیاں و ترامیم کی گئی ہیں تو ان کا کیا بنے گا؟وزیر اعظم گیلانی، جو یقیناً یہ چاہتے ہیں کہ ان کی سیاسی دکان چلتی رہے کیونکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صدر سمیت بہت سے لوگ جو کچھ ملا، سمیٹ کر چلے جائیں گے لیکن گیلانی صاحب یہیں رہیں گے کیونکہ انہیں جیل کا چسکا پڑ گیا ہے، ان لوگوں کے بقول وزیر اعظم، وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی جیل میں ہی ہیں جیسا کہ کسی وقت بھٹو کے دور حکومت میں صدر فضل الٰہی ہوا کرتے تھے، سیاسی دکان چلانے کے لئے بالآخر انہیں عوام کے پاس جانا پڑے گا، اگر ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ دیا گیا یا حکومت نے بے دلی سے صرف ہارنے کے لئے کیس لڑا تو کیا گیلانی صاحب اور ان کے نورتن عوام میں دوبارہ جاسکیں گے؟ اگر گئے تو کس منہ سے؟زرداری بھٹو فیملی کے بےشمار خدشات میں سے سب سے بڑا خدشہ یہی ہے کہ ایک طرف پاکستان میں ان کے ”غلام“ ہیں اور دوسری طرف ان کا ”آقا“، خوش تو یقیناً آقا کو کیا جاتا ہے لیکن ”غلام“ آزادی حاصل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تو ....؟

پنجاب حکومت کے خدشات میں سر فہرست امریکہ سے ”پنگا“ ہے، کیونکہ مرکزی حکومت، بقول چوہدری نثار علی خان، امریکہ کو یہ کہتی ہے کہ ہم تو ریمنڈ ڈیوس کو پوری عزت و احترام سے چھوڑنے کو تیار ہیں لیکن پنجاب حکومت راضی نہیں، میاں شہباز شریف بھی اسی لئے صرف گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہونے والے عبادالرحمان کے گھر گئے ہیں تاکہ امریکیوں کے نزدیک ان کی قدر ومنزلت بڑھتی رہے، ریمنڈ ڈیوس کو وی آئی پی پروٹوکول دینا، اس کے لئے کھانا فائیو سٹار ہوٹل سے منگوایا جانا، اسے ہر طرح کی گھریلو“ سہولیات بہم پہنچانا، پولیس کی طرف سے مقتولین کو ڈاکو ثابت کرنے کی کوشش کرنا، فہیم کی بیوہ شمائلہ اور اس کے خاندان پر دباﺅ ڈالنا اور اس کی خودکشی کے بعد لاہور میں اس کے مقتول شوہر کے پہلو کی بجائے وہیں چک جھمرہ کے قبرستان میں زبردستی تدفین اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ امریکہ بہادر کہیں ہم سے ناراض نہ ہوجائے کیونکہ انہیں اگلی باری کا بڑی شدت سے انتظار ہے اور AAA میں سے یہ لوگ اللہ اور آرمی کی ناراضگی مول لینے کو تیار ہوتے ہیں لیکن امریکہ کی ہرگز نہیں۔ باقی اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی مختلف قسم کے خدشوں نے گھیرا ہوا ہے جس میں سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ کہیں حکومت اس بحران سے نکل نہ آئے کیونکہ اگر حکومت اس موجودہ بحران سے زندہ و سلامت نکل آئی تو پھر شائد آسانی سے اپنی مدت پوری کرجائے، اگر ایسا ہوگیا تو کتنا برا ہوگا ؟

اگر صحیح قسم کے خدشات موجود ہیں تو وہ عوام کے اذہان میں ہیں۔ عام آدمی کیا سوچتا ہے؟ عام آدمی کی سوچ دو قسم کی ہے۔ پہلی سوچ وہ ہے جس کا اظہار بیچاری شمائلہ مرحومہ نے کیا ہے، یعنی اسے اس ملک کے نظام انصاف سے قطعاً انصاف کی کوئی توقع نہیں تھی، اس نے بہتر جانا کہ وہ اس دنیا سے چلی ہی جائے جہاں دن دیہاڑے اس کے سہاگ کا خون کردیا گیا اور قاتل کو وی آئی پی قرار دے دیا گیا، اس نے محسوس کیا کہ اسے اپنے بچے سمیت اللہ کی عدالت میں چلے جانا چاہئے کہ وہ صرف انصاف ہی نہیں بلکہ عدل کرتا ہے، وہ ساری عمر اپنے بچے کو کیسے بہلاتی، اسے کیا بتاتی کہ یہ ملک جو ہمارے آباﺅ اجداد کی بیشمار قربانیوں کے بعد وجود میں آیا تھا، آزاد ہوا تھا، وہاں بھی ہم غلام ہی تھے، وہاں اب انگریزوں کی بجائے امریکیوں کی غلامی کی جاتی تھی، نہیں وہ ہر روز مرنے کی بجائے ایک ہی بار میں زندگی کی حدود پھلانگ گئی، اللہ خود کشی کے اقدام پر اس کو معاف فرمائے کیونکہ اس کے دل و دماغ نے جس طرح کے صدمات جھیلے تھے ایسی صورتحال کسی کے ذہن میں بھی منفی جذبات پیدا کرسکتی ہے اور خصوصاً ان حالات میں جب آپ بے بس ہوں، نہ تو مجرموں کو معاف کرسکتے ہوں اور نہ انہیں سزا دلوا سکتے ہوں۔ دوسری سوچ بھی اسی جذبے کے تحت جنم لیتی ہے کہ اگر ہماری حکومت، ہمارے ادارے اور ہماری عدالتیں انصاف نہیں کریں گی تو جس طرح سلمان تاثیر کے ساتھ ہوا کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر قانون کی عملداری نہیں ہوگی، اگر مجرم کو اس کے کئے کی سزا نہیں ملے گی، اگر جاسوسوں اور دہشت گردوں کو ویانا کنونشن کی آڑ لے کر یا پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے آزاد کردیا گیا تو پھر کون قانون کو مانے گا، پھر ہر کسی کا اپنا قانون ہوگا، ابھی تو ہم امریکی تربیت یافتہ ”طالبان“ کی ہٹ لسٹ پر ہیں کیونکہ امریکہ کو معلوم ہے کہ اگر مسلمان اکٹھے ہوگئے، متحد ہوگئے تو اس کی خیر نہیں، اس لئے کبھی کسی مسجد میں خود کش بم دھماکہ ہوتا ہے تو کبھی کسی امام بارگاہ میں، کبھی کسی مزار پر تو کبھی کسی درگاہ پر تاکہ مسلمانوں کو آپس میں باہم برسر پیکار کروا دیا جائے تاکہ ان کا رخ امریکی پالیسیوں اور ان کے مابعد اثرات کی طرف نہ جاسکے۔ اس سلسلہ میں میڈیا کا کردار بھی قابل مذمت ہے کہ جب کسی جگہ دھماکہ یا دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے تو فوراً ایک جعلی تنظیم ”تحریک طالبان پاکستان“ کی جانب سے اس کو قبول کرنے کا پیغام چلا دیا جاتا ہے حالانکہ بعض اوقات امریکی ادارے بھی اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ آپ سوچیں اگر ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ دیا گیا اور اس کی وجہ سے مقتولین کے خاندان والے انتقام لینے کا ٹھان لیں، وہ خود کشی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ان تمام لوگوں سے انتقام لینے کا سوچیں جن لوگوں نے قاتل کو چھوڑنے میں کسی قسم کا تعاون بھی کیا ہو تو کیا مرکزی اور پنجاب کی حکومتیں ان کو روک پائیں گی؟ اگر خدانخواستہ سب چلتے پھرتے ”بم“ بن گئے تو کس سیاسی رہنما، کس وزیر، کس پولیس والے اور کس جج کو پناہ ملے گی؟ اگر وہ ہر جگہ، وی آئی پیز کے سامنے صرف جوتے بھی چلانے شروع کردیں تو بھی کسی ”بم“ سے کم نہیں ہوں گے۔ حکمرانوں کے خدشات ختم ہوں یا نہ ہوں، انہیں عوام کے خدشات ختم کرنا پڑیں گے، ورنہ بہت کچھ ختم ہوجائے گا، بہت کچھ....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207307 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.