حالات وواقعات کا تجزیہ کرنے سے
ایک حقیقت سامنے کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ حکومت پاکستان اس وقت ایک کڑے
دور سے گزر رہی ہے۔ایک طرف تو عوامی توقعات پوری نہ ہونے پر شدید عوامی
مایوسی اور نا مقبولیت میں کمی کا مسئلہ درپیش ہے دوسری طرف خطرناک معاشی
بحران حکومت کی بصیرت اور اہلیت کا امتحان لے رہا ہے۔اتحادی جماعتوں کے
مطالبات کا لا متناہی سلسلہ ایک الگ باب ہے۔
گورنر پنجاب کے قتل اور ممتاز قادری کے حق میں شدید عوامی رد عمل اور قانون
کے تقاضوں نے حکومت کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔علاوہ ازیں کرپشن ،بے
روزگاری ،مہنگائی ،جہالت ،انتہاپسندی، بدامنی اور انرجی میں کمی جیسے ورثے
میں ملنے والے مسائل کی تیزی سے ہوتی ہوئی ترقی بھی ہر حکومت کا درد سر رہی
ہے۔ اگرچہ یہ مسائل بھی بہت گھمبیر ہیں اور کسی بھی حکو مت کی ناﺅ ڈبونے کے
لیے کافی ہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ گھر کے معاملات ہیں۔ گھر کے معاملات
تو گھر میں ہی طے ہو سکتے ہیں۔
ان عوامی مسائل کی دلدل میں دھنستی حکومت پاکستان کے شا نوں پر ایک اور بڑے
دباﺅ اور بوجھ کا اضافہ اس وقت ہو گیا جب ایک امریکی نے دو پاکستانیوں کو
بھون ڈالا۔ایک کو کچل ڈالا گیا جبکہ اسی صدمے میں متاثرہ ایک خاتون بھی دار
فانی سے کوچ کر گئی۔
اس سانحے نے پوری قوم کو غم و غصے میں مبتلا کر دیا۔قاتل کو سزا دینے کا
عوامی مطالبہ ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر گیا حتیٰ کہ اس عوامی ردعمل
کی گونج حکومتی ایوانوں میں بھی سنائی دینے لگ گئی۔
دوسری طرف قاتلوں کو بچانے کے لیے امریکی سر گرمیاں بلکہ بد معاشیاں بھی
عروج پکڑنے لگ گئیں۔ اس طرح حکومت ایک نئے سیاسی اور سفارتی دباﺅ کا شکار
ہو گئی۔
ایسے حالات میں درست پالیسیاں ہی قوموں کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں۔اگرچہ
اس صورت حال میں فیصلہ سیاست کی بجائے عدالتی سطح پر ہی کیا جانا چاہیے جس
کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔مگر ماضی کی پاکستان کی غیر مشروط امریکی غلامی کا
طوق حکومتی گلے کے گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے۔جس کا کوئی بھی ممکنہ نتیجہ
حکومت کے لیے پریشان کن ثابت ہو سکتا ہے۔اس لیے حکومت کو سیاسی سطح پر کوئی
نہ کوئی سٹینڈ تو لینا ہی پڑیگا۔اس صورتحال میں حکومت کے پاس دو ہی راستے
ہیں۔اول تو یہ کہ امریکی قاتلRaymond Davis سے قوانین کے مطابق رویہ اپنا
کر عوامی جذبات کا احترام کرے۔
دوم یہ کہ امریکہ کا حق غلامی ادا کرتے ہوئے اس قاتل کو قانونی کاروائی کے
بغیر ہی باعزت طریقے سے رہا کر دیا جائے۔جبکہ حکومت نہ تو عوامی قوت سے ٹکر
لینے کی پوزیشن میں ہے نہ ہی وہ امریکہ کے غیض و غضب کو آواز دےنے کی ہمت
رکھتی ہے اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے صدر پاکستان نے تمام
جماعتوں کو مشاورت کے لیے مد عو کیا ہے۔ صدر کا یہ فیصلہ حکومت کے حق میں
مفید ثابت ہو سکتا ہے۔کیونکہ اس طرح حکومت ا ن سیاسی قوتوں کو زمینی حقائق
کا سے آگاہ کر پائے گی جو کل حکومت کے کسی فیصلے پر احتجاج کر سکتی ہیں
دوسری طرف امریکہ کو بھی ٹالا جا سکتا ہے۔
یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے کہ اس میں فیصلے صرف ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں
ہوتے جس کی وجہ سے بیرونی قوتوں کے لیے فیصلے اپنی مرضی کے مطابق کروانا
مشکل ہو جاتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں صدر کا گول میز کانفرنس بلانے کا مقصد
بھی یہی ہے۔ یقیناً جمہوریت کی وجہ سے نا پسندیدہ فیصلے نہیں کرنے پڑ یں گے
جو ایک خوش آئند امر ہے۔ |