”آپ ذرا یہ پرچی ملاحظہ فرماکر
بتائیں کہ اس میں کتنی چیزیں درج ہوں گی؟“راقم نے کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا
ہاتھ میں لیے بغیر دور سے دیکھ کر کہا:”18تو ہوں گی۔“سائل نے شمار کیا تو
واقعتاً عدد اٹھارہ ہی بن رہا تھا۔کہنے والا اب یوں گویا ہوا:”صرف اِن
اشیاء ضروری کی قیمت جن میں کوئی چیز زائد ازضرورت نہیں،19سو سے کچھ اوپر
بنی ہیں۔“ پھر فہرست پڑھ کر سنائی گئی تو ہمیں یقین کرنا پڑا ”ہماراخاندان
پانچ افراد پر مشتمل ہے۔دو میاں بیوی اور تین بچیاں۔آپ یقین جانیے !ہماری
روزمرہ کی خوراک بھی پوری نہیں ہورہی ہے۔“ عاجز نے کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے
عرض کیا :”واقعی آپ درست فرما رہے ہیں۔اب دیکھئے نا !دودھ جیسی غذا بچیوں
کے لیے کس قدر ضروری ہے ۔لیکن عام آدمی کی پہنچ اور سکت سے باہر ہے۔“”بات
کہنے کی تو نہیں مگر آپ نے چھیڑ ی ہے تو بولتا ہوں ،میرے گھر فقط چائے
بنانے کے لیے ماہانہ خشک دودھ آتا ہے ،عرصہ ہوا میری بچیوں نے دودھ نہیں
پیا۔“
قارئین!یہ ہمارے معاشرے میں جینے اور بسنے والے ایک متوسط طبقہ،تجارت پیشہ
اور سفید پوش”سلیم“ کی کہانی نہیں، گرانی، مہنگائی اور حکومتی بدانتظامی کی
زد میں آئے ہر پاکستانی کی بپتا ہے۔یہ دکھڑا،یہ غم اور یہ کرب صرف غربت زدہ
طبقے اور افراد کا مسئلہ نہیں رہا،اب اس کی منہ زور لہروں نے سماج کے متعدل
اور خوشحال حلقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔ہر صبح نکلتا
سورج اور ہر شام ڈوبتا آفتاب باشندگانِ وطن کو نت نئے ذہنی ہیجان ،نفسیاتی
بے سکونی اور قلبی اضطراب میں مبتلا کر جاتا ہے۔ محلے کی دوکان ہو یا
مسافروں کی بس،تاجر بصورت نائی ہو یا پرچون فروش ،علم وفن کی تعلیم گاہیں
ہوں یا ترقی کے عملی میدان ۔ہر جگہ ،ہر شخص دوسرے سے الجھتا،تکرار کرتا اور
بحث ومباحثہ کرتا نظر آتا ہے۔ روزافزوں مہنگائی اور قیمتوں کی بڑھوتری کے
دلائل ملنے یا سننے پر صبر کا کڑوا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔
لیکن ابھی حالات کے جبر اور بازار کی گرمی سے خادمان ِملت مستثنی ،محفوظ
اور مامون ہیں ۔ابھی راوی ایوان ہائے اقتدار کے آنگنوں میں چین،سلامتی اور
ہر طرف سکون کی بانسری بجا رہا ہے۔ابھی حاکمانِ وقت مفاہمت کی سیاست ،نام
نہاد دہشت گردی کی بیخ کنی اور جمہوریت کے استحکام جیسے عوامی وفلاحی امور
اور معاملات میں” مصروف ِعمل“ ہیں۔خبر ہے کہ قوم کے منتخب نمائندے اربوں
روپے کے پارلیمنٹ لاجز توسیعی منصوبے کی تعمیر کا فیصلہ کرچکے ہیں۔پونے تین
ارب روپے کی لاگت سے مذکورہ منصوبہ 30ماہ میں مکمل ہوگا۔دوسری رپورٹ کے
مطابق :”ایک وفاقی وزیر کا ماہانہ خرچہ 50سے 70لاکھ،وزیر مملکت کا 40سے
50لاکھ ،وفاقی مشیر کا 30سے 40لاکھ،وفاق میں ان کے مساوی کام کرنے والے
دیگر میں سے ہر ایک کا 20سے 30لاکھ ،ایک صوبائی وزیر کا 12سے 16لاکھ،ایک
صوبائی مشیر کا 8سے 10لاکھ،ایک صوبائی معاون خصوصی ،کوآرڈینٹر،ٹاسک فورسز
کے سربراہ کا 4سے5لاکھ روپے ہے۔“
اب جبکہ 22رکنی نئی وفاقی کابینہ حلف اٹھا چکی ہے۔ وزیر اعظم کا تجدید ِعہد
وفا کرتے ہوئے یہ کہنا:”مختصر کابینہ کے ساتھ بھی عوامی خدمت میں کوئی
کوتاہی نہیں کریں گے“ماضی کے پس منظر میں غیر یقینیت کا حامل دعویٰ ہی
سمجھا جاسکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ اور
عوام میں نامقبولیت، عدلیہ اور جمہوریت کی بحالی جیسے غیر عوامی ،غیرمعاشی
اور غیر فلاحی مسائل سے بحال ہوسکتی ہے؟کیا سیاستدانوں کے باہم جوڑ توڑ سے
ملک کے غریب ومفلوک الحال باشندوں کو کسی بھی درجے میں معاشی واقتصادی
ثمرات وفوائد حاصل ہوسکتے ہیں؟کیا میثاقِ جمہوریت پر 80فیصد عمل درآمد کے
فریب کن دعووؤں سے، کسی مفلس و محتاج ،بے یارومددگار پاکستانی کو غربت وبے
روزگاری اور نفسیاتی امراض ومہنگائی کے بھنور سے نکلنے میں مدد اور سہارا
مل سکتا ہے؟کیا یوسف رضا گیلانی قوم کو اِس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ
9فروری 2011تک 270وزرا و مشیروں کی فوج ظفرموج کو یک دم کم کرنے کا احساس
انہیں کیوں کر اور کیسے پیدا ہوا؟تین برس کے عرصے میں وہ کون سے عوامی
بہبود اور رفاہ عامہ کے مسائل ومشکلات اور پیچیدگیاں تھیں،جن کے حل اور
درستی کا سہرا موجودہ حکومت کے َسر جاتا ہے؟ان زمینی حقائق کی روشنی میں وہ
کو ن سی”سابقہ“ کفایت شعاری ہے، جس کو آگے بڑھانے کی نوید صدر پاکستان قوم
کو سنا رہے ہیں؟
دوسری جانب ارباب اقتدارواختیار کی انتظامی لیاقت وصلاحیت ،ناقص کارکردگی
اورعوام کے درد سے بے نیازی کا پول”ارسا“کے چیئرمین ارشاد احمد نے یہ خبر
غدے کر کھول دیا ہے کہ:”کالا باغ ڈیم کی عدم تعمیر سے رواں سال عوام کو
بجلی کی مد میں 220ارب اضافی ادا کرنے ہوں گے۔اب کالا باغ ڈیم منصوبے کی
تعمیر لاگت میں 40ارب ڈالر کا اضافہ ہوچکا ہے۔اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہوجاتا
تو کیری لوگر بل کے برابر رقم بچائی جاسکتی تھی۔“اس کے ساتھ ہی اطلاع ہے کہ
:”رواں برس کے دوران پیدا ہونے والی 92ارب یونٹ بجلی میں سے 29ارب یونٹ
تھرمل سے حاصل ہوں گے۔جن کی عوام کو 12روپے 40پیسے فی یونٹ کے حساب سے
ادائیگی کرنا پڑے گی۔جبکہ کالا باغ ڈیم کو اگر متنازعہ نہ بنایا جاتا اور
اس کی تعمیر مکمل ہوجاتی تو اس وقت 20ارب یونٹ بجلی کالا باغ ڈیم سے
انتہائی سستی، صرف ایک روپیہ 20پیسے فی یونٹ کے حساب سے حاصل ہوتی۔“
آپ صرف خوردنی تیل وگھی کی قیمتوں کو ہی لے لیں۔جس میں گزشتہ 2ماہ میں
مجموعی طورپر25سے 30روپے فی کلو تک اضافہ کیا گیا اور قیمت 130تا140روپے
کلو سے بڑھ کر 170تا185روپے کلو کی سطح تک پہنچ گئی۔عوام کی درماندگی وبے
چارگی کی تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ اس وقت16سے زائد انتہائی اہم زندگی
بچانے والی ادویہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ذرائع کے مطابق :”ان ادویہ کو
عام مارکیٹ میں فراہمی کی ذمہ داری حکومت سمیت ان تمام کمپنیوں پر عائد
ہوتی ہے جنہیں ان ادویہ کا لائسنس دیا گیا۔واضح رہے کہ یہ دوائیں ہمہ وقت
لاکھوں افراد کی اہم ضرورت ہیں۔جبکہ ان ادویہ میں شرح منافع کم ہونے کے
باعث مختلف نیشنل وملٹی نیشنل کمپنیاں انہیں مارکیٹ میں فراہم نہیں
کرتی۔متعدد بار ان کی قیمتوں میں زیادتی کرنے کے بعد مصنوعی قلت پیدا کر دی
جاتی ہے۔بعدازاں ان کی قیمتوں میں پھر مزید اضافہ کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف
اِن دوائیوں کے ڈیلرز کا کہنا ہے :”چیف ڈرگ کنٹرولر ان معاملات کو دیکھتے
ہیں ۔پورے ملک میں مذکورہ ادویہ کی فراہمی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے اور
وفاق اس سلسلے میں پالیسی تشکیل دیتا ہے۔“
یہ ہمارے ملکی معاملات اور قومی معیشت کے موجودہ منظرنامے کی گنی چنی
جھلکیا ں اور مثالیں ہیں ۔یہ تیار دیگ کے چند چاول ہیں جن کی خرابی، فساد
اور سرانڈ کو دیکھ کر ،باقی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔یہ ہمارے قومی
ناخداﺅں اور عوامی خدمت کے دعویداروں کے قول وفعل اور گفتار و کردار کا
کھلا ٹکراﺅ اور غیر پوشیدہ تضاد ہے، جس نے انہیں سرراہ بے آبرو بے اعتماد
کردیا ہے۔یہ غلط بیانی اورغلط روی ہمارے حکمرانوں کی وہ طرزِحکومت وسیاست
ہے، جس کی کوکھ سے ہی ”انقلابات ِزمانہ“ جنم لیتے اور پھلتے پھولتے
ہیں۔انجامِ کار بقول احسان دانش مرحوم :
یہاں جو انسان اینڈتے ہیں، یہاں وہ انسان نہیں رہیں گے
وفا کی مہلت نہیں ملے گی، جفا کے امکاں نہیں رہیں گے |