اس کا اندازہ گزشتہ دو روز ہو ہو گیا ہو گا کہ مشن
پر جان قربان کرنے سے انسان زندہ رہتا ہے۔ مشن کو پھانسی نہیں دی جا
سکتی۔9فروری 2013کو محمد افضل گورو اور 11فروری 1984کو محمد مقبول بٹ کو
بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر شہید کیا گیا، مگر ان کا مشن زندہ
ہے۔ محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو تحریک آزادی کی علامتیں،تختہ دار پر
چڑھ گئے لیکن ضمیر کا سودا نہ کیا ۔اپنی جان کی قربانی دے کرثابت کر دیا کہ
وہ دوسروں کوجدوجہد کی تلقین کر نے کے بعد اپنے مفادات اور مراعات کے غلام
نہ بنے بلکہ غلامی کا طوق اتارنے سولی پر لٹک گئے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آج
نہ تو ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا اور نہ ہی وہ آزادی پسندوں کے
لئے رول ماڈل بنتے۔محمد مقبول بٹ کے انتہائی قریبی رفقاء سے گفتگو کریں یا
ان کے گاؤں ترہگام میں ان کے عزیز و اقارب سے احوال پوچھیں یاان کا آبائی
رہائشی مکان دیکھیں۔تو حقیقت خود بیان اور عیاں ہوتی ہے۔سچ یہ ہے کہ وہ
کشمیریوں کے ہیرو ہیں۔شاید ہی کوئی ان کی جگہ نہیں لے سکتاہو۔افضل گورو
شہید اور برہان وانی شہید سمیت تمام شہدا کا اپنا مقام ہے۔مسلمان کا سب سے
بڑا رول ماڈل آقائے نامدار حضرت محمد ﷺہیں۔لیکن کشمیر مقبول بٹ کا احسان
مند ہے۔ جنھوں نے نئی نسل کو نئی راہ دکھائی۔
مقبول بٹ ایک غیرت مندکشمیری تھے ۔جنھوں نے آنکھیں غلامی میں کھولیں
اوراپنے گرد وپیش میں ہر کسی کو بھارتی مظالم سہتے پایا۔ اپنے ہم وطنوں کی
آہ وپکارسنی اور ان کے درد پر آہیں بھرنے اورخون کے آنسو بہانے کے بجائے
کچھ کرنے کا عہدکیا،دنیا میں خود تکلیف میں مبتلا ہو کر دوسروں کو آرام
دینے والوں کی تعداد کم رہی ہے۔لیکن مقبول بٹ کا تخت و تاج کو ٹھکرا کر
تختہ پر لٹک جانا منفرد بات ہے۔انہیں آزاد کشمیر کا صدر بنانے کی پیشکش بھی
ہوئی تھی۔لیکن ان کے سامنے اس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ کیوں کہ وہ اپنے لئے
نہیں ، قوم کے لئے جینے کا جذبہ رکھتے تھے۔
مقبول بٹ مقبوضہ جموں وکشمیر کے ضلع کپواڑہ میں حریت پسندوں کی دھرتی
ترہگام میں 18 فروری 1938 ء کو دنیا میں آنکھیں کھولیں۔ جب انہوں نے ذرا
ہوش سنبھالا تو ابھی تک مقبوضہ وادی میں شہدائے 1931 ء کی یادیں لوگوں کے
ذہنوں میں تازہ تھیں، ان کے والدین انہیں شہدائے کشمیر کی قربانیوں کے بارے
میں سینہ بہ سینہ گردش کرنے والی داستانیں سناتے تھے۔ انہوں نے بھی شہدائے
کشمیر کے مشن کو جاری رکھنے کا عہد کیا اور اپنے دوستوں سے صلاح مشورے شروع
کردیئے۔ پھر سفر تنہا شروع کیا اور قافلہ بنتا گیا، کاررواں چلتا گیا،
بالآخر انہوں نے مشن کو جاری رکھتے ہوئے 13 جولائی 1931 ء کو شہدائے کشمیر
کی طرح شہادت پیش کردی اور آزادی کا ایک چراغ روشن کرگئے۔11 فروری 1984 ء
کو بھارت نے مقبول بٹ کو بدنام زمانہ جیل تہاڑمیں پھانسی پر لٹکا دیا۔ ان
کا جسد خاکی آج بھی جیل میں قید ہے۔ مطالبات اور مظاہروں کے باوجود جسد
خاکی کو تدفین کیلئے کشمیریوں کو نہیں دیا جارہا ہے۔شہیدکے تدفین کیلئے
مزار شہداء سرینگر اور ترہگام میں قبریں تیار رکھی گئی ہیں۔لیکن بھارتی
حکمران ان کی جسد خاکی کشمیریوں کو دینے میں ڈر و خوف میں مبتلا ہیں۔
مقبول بٹ میں شروع سے ہی بھارت سے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ موجود تھا۔ وہ
شروع میں علاقہ کے لوگوں کو خاموشی کے ساتھ مسئلہ کشمیر سے روشناس کراتے
رہے۔ وہ لوگوں کو ایک قطار میں بٹھا کر بورڈ پر کشمیر کی لکیریں کھینچ کر
انہیں غلامی کے بارے میں آگاہی دیتے تھے۔انہیں دیگر کی طرح مملکت خداداد
پاکستان سے بے پناہ محبت تھی۔1958 ء کو 20 سال کی عمر میں آزاد کشمیر پہنچ
گئے، ان کے دوست عبدالرشید پرے کے مطابق یہ پانچواں موقع تھا جب وہ آزاد
کشمیر جانے کی کوشش میں کامیاب ہوئے ۔ ایک بار وہ2 دوستوں کے ہمراہ جنگ
بندی لائن عبور کرنے کو کوشش کررہے تھے جب انہیں بھارتی فوج نے گرفتار کر
لیا، ان کی شدید مارپیٹ کی گئی۔ مقبول بٹ مظفر آبادمیں پانچ سال تک
رہے۔1962 ء میں انہوں نے تحریک کشمیر کمیٹی قائم کی ۔ جس کو بعد ازاں رائے
شماری فرنٹ میں ضم کردیا گیا۔ 1965 ء کو انہوں نے نیشنل لبریشن فرنٹ بنائی
اور مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔1966 ء میں مقبول بٹ نیشنل لبریشن فرنٹ کے
ساتھیوں سمیت مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوگئے ۔بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں
ایک اہلکار ہلاک ہوا اور مقبول بٹ کو حراست میں لے لیا گیا۔ ان پر قتل کا
مقدمہ چلایا گیا اور سرینگرکی عدالت نے پھانسی کی سزا سنادی۔ پھانسی کی سزا
کے دو ہفتے بعد وہ جیل کی سلاخیں توڑ کرآزاد کشمیر پہنچ گئے، جہاں انہیں
حراست میں لیا گیا۔ مقبول بٹ کو بھارتی ایجنٹ قرار دے کر ان پر مقدمہ چلایا
گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات پر انہیں رہا کردیا گیا، وہ واپس
مقبوضہ کشمیر روانہ ہوئے اور گرفتار ہوگئے۔مقبول بٹ کی رہائی کیلئے لبریشن
فرنٹ کے کارکنوں نے برطانیہ کے شہر برمنھگم میں بھارتی سفارتکار ردیندر
ماترے کو اغوا کے بعد قتل کردیا ۔اس کا کوئی ثبوت نہ تھا کہ اس میں بٹ صاحب
ملوث ہیں۔
سچ یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ردعمل میں مشتعل ہو کر بھارتی عوام کی
نام نہاد تسکین کے لئے مقبول بٹ کو پھانسی دی۔ اسی عمل کو دہائیوں بعد افضل
گورو کو پھانسی دے کر دہرایا گیا۔ مقبول بٹ کو بھارتی عدالت نے انتقامی
کارروائی کا نشانہ بنایا۔6 فروری کو برطانیہ میں بھارتی سفارتکار کو قتل
کرنے کے صرف 5 دن بعد مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی۔1971 ء میں بھارت سے فوکر
جہاز کو اغوا کرکے لاہوراتارنے اور نذر آتش کرنے کا الزام بھی مقبول بٹ پر
لگایا تھاکہ وہی اس ہائی جیکنگ کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ بظاہر مقبول بٹ کو سی
آئی ڈی پولیس افسر کو قتل کرنے کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی
لیکن حقیقت میں یہ پھانسی سیاسی وجوہات پر تھی۔ مقبول بٹ کو آزادی کا
مطالبہ اور جدوجہد کرنے پر پھانسی دی گئی۔ دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل کے
اندرمقبول بٹ کی قبر پراب عمارت تعمیر کرلی گئی اور قبر کو شہید کردیا
گیاہے۔ اس انکشاف پر کشمیر میں کافی ہنگامہ ہوا۔ افتخار گیلانی جون 2002 ء
سے جنوری 2003 ء تک تہاڑجیل میں قید رہے ہیں۔وہ گزشتہ برس پاکستان کے دورے
پر آئے تو ان سے خصوصی گفتگو میں یہ واقعہ بھی زیر بحث آیا۔لاتعداد کشمیری
انہیں اپنا نظریاتی لیڈر قرار دیتے ہیں اور انہیں جدوجہد آزادی کا بانی
سمجھا جاتا ہے۔ آزادی پسند مقبول بٹ کی پھانسی کو حراستی قتل قرار دیتے ہیں
کیونکہ مقبول بٹ کے خلاف چلنے والے مقدمے کی غیر جانبدارانہ اور آزادانہ
سماعت نہیں کی گئی۔ سی آئی ڈی افسر کو مقبول بٹ کے ساتھی نے گولی مار کر
ہلاک کیا لیکن پھانسی مقبول بٹ کو دی گئی۔مقبول بٹ کے وکیل اور مقبوضہ
کشمیر کے سابق نائب وزیر اعلیٰ مظفر حسین بیگ نے اعتراف کیا ہے کہ مقبول بٹ
کی پھانسی انتقامی قتل تھا۔ پھانسی سے قبل قانونی ضابطے وتقاضے پورے نہیں
کئے گئے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے پھانسی کی
توثیق نامے پر دستخط نہیں کئے تھے لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے انہیں پھانسی
دیدی۔سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر فاروق عبداﷲ ہیں جنہوں نے مقبول بٹ کے ’’
ڈیتھ وارنٹ‘‘ پر دستخط کئے۔ فاروق عبداﷲ نے ایک بار خود میرپور میں لبریشن
فرنٹ کے جلسے میں شرکت کی تھی اور کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے کا
وعدہ کیا تھا۔ بھارت کو اندازہ نہیں کہ شدید مظالم، نسل کشی، قتل عام،
زیادتیوں، آتشزنی اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کشمیریوں کو جھکانے
اور جدوجہد آزادی ترک کرنے پر آمادہ نہ کرسکیں۔ بھارت نے ایک مقبول بٹ کو
پھانسی دے کر ہزاروں مقبول بٹ پیدا کرلئے ہیں۔جو قومیں نظرئیے اور اصولوں
کی بنیاد پر اتحاد واتفاق کا مظاہرہ اور قربانیاں پیش کرنے والوں کو یاد
نہیں کرتیں،ان کے نقوش تاریخ کے اوراق سے مٹ جاتے ہیں۔مقبول بٹ نے کشمیریوں
کو آزادی کا جو پیغام دیا۔ وہ بھارت کو پریشان کرتا رہے گا۔
شہید مقبول بٹ کے بعد افضل گورو شہید کا دنیا میں یہ پہلا عدالتی قتل ہے جس
میں انصاف کے بجائے عوام کی تسکین کے لئے فیصلہ صادر کیا گیا۔بھارت کی
سپریم کورٹ نے فیصلے میں اجتماعی ضمیر کی تسکین "satisfying the collective
conscience"کو جواز بنا کر سب کو حیران کر دیا۔دنیا میں آج تک کہیں بھی
عوام کی خواہشات کو ٹھوس شواہد اور دلائل کا متبادل نہیں سمجھا گیا۔ انسانی
حقوق کے عالم ادارے چیختے رہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ ٹرائل شفاف نہ
تھا۔ عدالت میں دفاع کرنے کے لئے اپنی مرضی کا وکیل یا قانونی چارہ جوئی کا
موقع نہیں دیا گیا۔ ٹرائل کے مرحلہ پر کسی تجربہ کار وکیل مقرر کرنے کی
اجازت بھی نہیں دی گئی۔ خدشات کا ازالہ نہ کیا گیا۔بھارت نے بین الاقوامی
سٹنڈرڈز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افضل گورو شہید کے اہل خانہ کو بھی آگاہ نہ
کیا اور ان کی جسد خاکی کو اسلامی طریقے سے سپردخاک کرنے بھی نہیں دیا گیا۔
لاش کو عالمی قوانین کی پامالی کرتے ہوئے جیل میں ہی گھڑا کھود کر ڈال دیا
گیا۔
فروری کے مہینہ میں افضل گورو کا یوم شہادت ہے۔ 2013کو انہیں بدنام زمانہ
بھارتی تیاڑ جیل میں 9فروری کو پھانسی دی گئی۔ ان پر 2001کو دہلی پارلیمنٹ
پر حملے کا الزام تھا۔ ملزم کو مجرم ثابت کرنے میں ناکامی کے باوجودافضل
گورو کو پھانسی دی گئی۔ شہید گورو نے پھانسی سے قبل بھارت سے کہا کہ وہ اسے
پھانسی دیدے، مگر یہ اس کے جوڈیشل اور سیاسی سسٹم پر سیاہ دھبہ بن جائے گا۔
ماہرین قانون اور بین الاقوامی اداروں نے بھی اسے عدالتی قتل قرار دیا۔
کیوں کہ ملزم کو اپنا دفاع کرنے کا موقع نہ دیا گیا۔ انصاف کے تقاضے بھی
پورے نہ کئے گئے۔ بلکہ یہ نامکمل رکھے گئے۔یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے
معتبر عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل تک نے اس قتل کی مذمت کی۔
جیل کے مینول کے مطابق پھانسی سے قبل افضل گورو کے اہل خانہ کو اطلاع دینی
ضروری تھی۔مگراطلاع نہیں دی گئی۔ سارا کام جلد بازی میں ہوا۔ جبکہ ان کے
جسد خاکی کوجیل میں ہی قید کر دیا گیا۔ تین سال بعد شہید کے اکلوتے بیٹے
غالب گورو نے میٹرک کے امتحانات میں ٹاپ کیا اور95فیصد نمبرات حاصل کئے۔
تمام پانچ مضامین میں اے ون گریڈ سکور کی۔ ایک شہید کے بیٹے نے اپنے والد
کی تربیت کا حق ادا کیا۔ دوآب گاہ سوپور کی زرخیز زمین نے افضل گورو جیسے
بیٹے کو جنم دے کر ایک اعزاز حاصل کیا ہے۔ جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔
بھارتی انصاف جانبدار ی اور نسلی امتیاز کی نئی نئی مثالیں پیش کر رہا ہے۔
انصاف مسلمان اور کشمیری کیلئے نہیں۔ہندو کے لئے ایک انصاف ہے اور مسلم کے
لئے دوسرا۔ مسلمان بھی اور کشمیری بھی تو پھر انداز بالکل بدل جاتا ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے یہ بات ثابت کر دی ۔اس نے کشمیریوں کو سیاست،
انتقام اور نام نہاد عوام کے ضمیر کی تسکین کے لئے تختہ دار پر لٹکا دیا۔
اسے قانون و انصاف کی زبان میں ناروا امتیازی سلوک ہی کہا جا سکتا ہے۔مقبول
بٹ شہید اور افضل گورو شہید جیسے آزادی پسند دو انقلابی کشمیریوں کو بھارت
نے جیل کے اندر ہی پھانسی دے دی اور افضل گورو شہید کی پھانسی کے ایک سال
بعد سپریم کورٹ آف انڈیا نے سابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قاتلوں
کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا۔ ان میں سے تین کا تعلق بھارتی
ریاست تامل ناڈو سے تھا۔ جس کی وزیر اعلیٰ جے للتا تھیں۔ جو اب انتقال
کرچکی ہیں۔یہ بھی ایک منفرد بات ہے کہ تامل ناڈو کی حکومت نے بھی مرکزی
حکومت سے سفارش کی تھی کہ انہیں رہا کر دیا جائے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداﷲ نے مقبول بٹ شہید کو پھانسی
دینے کے کاغذات پر دستخط کئے ۔ یہ دستخط بھارتی وزارت داخلہ کے ایک افسر نے
وزیر اعلیٰ کے دفتر میں داخل ہونے کے چند منٹ کے اندر کرائے۔ یہی ان کے
فرزند عمر عبداﷲ نے بھی کیا۔ انہوں نے اپنے شہری کے تحفظ کے لئے کچھ نہ
کیا۔ فاروق عبد اﷲ بھارت کے مرکزی وزیر بھی تھے ، مگر مچھ کے آنسو بہا تے
رہے۔ عوام کو بے وقوف بنانے کا یہ انتہائی آسان طریقہ ہے۔اب محبوبہ مفتی
ہیں۔ کشمیری عوام کو بے وقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔
کشمیر میں لوگ اس وجہ سے سراپا احتجاج ہیں کہ انصاف کا دوہرا معیار ہے۔
کشمیری کو پھانسی اور بھارتی شہری کو بری کر کے بھارتی عدلیہ ہی بے نقاب
ہوئی ہے۔ ہندو اور غیر ہندو کے لئے دو الگ الگ ضابطے ہیں۔ بھارت اب انصاف
نہیں بلکہ عوام کی تسکین کے لئے فیصلے کرتا ہے۔ اس کا عدالتی نظام ٹوٹ پھوٹ
کا شکار ہو چکا ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایک کشمیری کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔ جن افراد کی
رحم کی درخواستیں بھارتی صدر کے دفتر میں دہائیوں سے زیر التوا تھیں، انہیں
بری کرنے کے لئے تامل ناڈو حکومت کوشش کر رہی تھی۔ اور بظاہر مرکز کے ساتھ
ٹکر بھی لینے کو تیار تھی۔
11سال سے راجیو گاندھی کے قاتل پھانسی کے منتظر تھے۔ لیکن سپریم کورٹ نے
ایک نیا فیصلہ دے کر ان کی پھانسی کو عمر قید میں بدلنے کا ایک راستہ
نکالا۔ اگر افضل گورو کو بھی جلد بازی میں عدالتی قتل نہ کیا جاتا تو وہ
بھی شاید اس نئے قانون کے دائرے میں آ کر رہائی پا سکتے تھے۔ موت کا وقت
متعین ہے۔ موت خود بری الزمہ ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا ایک جواز موجود رہتا
ہے۔ علالت، حادثہ وغیرہ ہی مورد الزام ٹھہرتے ہیں۔ تا ہم جو سلوک کشمیریوں
کے ساتھ روا رکھا گیا ہے اس پر لوگ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر چہ ان کا
یہ احتجاج بظاہر رنگ نہیں لاتا ۔ پھر بھی لوگ سڑکوں پر نکل کر اپنی بھڑاس
نکال لیتے ہیں۔ سننے والا کوئی نہیں ہے۔ کشمیر میں سخت ردعمل ہے۔ آج شہداء
کے نماز جنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شامل ہوکر بھارت سے نفرت کا
اظہار کرتے ہیں۔
جس قانون کے تحت راجیو گاندھی کے قاتلوں کو رہا کیا گیا، وہ قانون بنانے
میں ایک سال کی تاخیر کی گئی۔ اس تاخیر کا زمہ دار بھی بھارتی نظام ہے۔ جس
میں آج بھی چھوت چھات موجودہے۔ اب اچھوت کشمیری اور آزادی پسند ہے۔ اس
معاملہ میں سات سال کی تاخیر کی گئی ۔ لیکن پھر جلد بازی اتنی ہوئی کہ افضل
گورو کے کم سن بچے اور اہلیہ تک کو بھی آگاہ نہ کیا گیا۔
یہ ثابت ہوا کہ قاتلوں سے عدالت نے نرمی کی۔ قتل کے شواہد کے باوجود پھانسی
روک دی گئی۔ لیکن بھارتی پارلیمنٹ پر نام نہاد حملہ کیس میں جس کشمیری کے
بارے میں کوئی ٹھوس شواہد بھی نہ تھے، کیس مشکوک تھا، لیکن پھانسی دیدی
گئی۔
افضل گورو کی پھانسی اور راجیو گاندھی کے قاتلوں کی سزائے موت کو عمر قید
میں بدلنا خود ظاہر کرتا ہے کہ کشمیری بھارت کے اپنے ہر گز نہیں، غیر ہیں۔
دشمن ہیں۔ ایل ٹی ٹی ای اور کشمیری مجاہدین میں غیر معمولی فرق ہے۔ مسلم
اور غیر مسلم کا فرق۔ یہی بھارت اور اس کے تمام نام نہاد اداروں نے مسلسل
ثابت کیا ہے۔
محمد مقبول بٹ ،افضل گورو کے بعد برہان وانی بھی آج کشمیر کی تحریک آزادی
میں جدو جہد کی ایک علامت بن چکے ہیں۔ شہید مقبول بٹ کی طرح وہ بھی آزادی
پسندوں کے ہیرو ہیں۔ جن کی جدوجہد اور قربانی کو سبھی سلامی پیش کرتے ہیں۔
ان کے نقش قدم پر چلنے کاا عادہ کیا جاتا ہے۔ شہید محمد مقبول بٹ، افضل
گورونے تختہ دار پر چڑھ کر بھارتی عدلیہ کو بے نقاب کیا اور شہید برہان
وانی سمیت لا تعداد شہداء نے مسلح جدوجہد کو گوریلا جنگ سے نکا ل کر عوامی
رنگ دے دیا اور کشمیریوں کی دلیری اور بہادری کی داستانوں میں ایک سچی
کہانی کا اضافہ کر دیا۔انڈیا کو بتا دیا کہ وہ انسانوں کا قتل عام کر کے
مشن کو قتل نہیں کر سکتا۔ اﷲ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے۔ |