سی بی آئی کے سابق عبوری سربراہ ناگیشور راو کو اپنے
آخری فیصلے کی سزاکسی اور غلطی کی پاداش میں ملی خیر جرم جو بھی ہو سزا
انوکھی تھی ۔ انھیں سپریم کورٹ نے ہتک عزت کے جرم میں عدالتی کارروائی ختم
ہونے تک ایک کونے میں بیٹھنے کا حکم سنایا ۔ منصف اعظم ترون گوگوئی نے
افسوس کے ساتھ کہا کہ میں نے ۲۰ سالوں میں کسی کو ہتک عزت کے معاملے میں
سزا نہیں دی لیکن اب تو حد ہوگئی۔ ویسے چیف جسٹس گوگوئی نے صرف طبعی سزا پر
اکتفاء نہیں کیا بلکہ ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی لگایا اور ایک ہفتے کے
اندر اسے عدالت میں جمع کرنے کا حکم دیا۔ ناگیشور راو کا قصور صرف اتنا تھا
کہ انہوں نے مظفر پور شیلٹر ہوم معاملے کی جانچ کر نے والے سی بی آئی کے
ایڈیشنل ڈائریکٹر ارون کمار کا عدالتی پابندی کے باوجود تبادلہ کر دیا تھا۔
ناگیشور راؤ اتنے بزدل نکلےکہ انہوں نے اپنی غلطی پر عدالت سے معافی مانگ
لی ۔ عدالت نے اسے منظور نہیں کیا اور سی بی آئی کے قانونی مشیر کی اس
دلیلکو ٹھکرا دیا کہ غلطی سی بی آئی کے جونیئر وکیلوں کی تھی کہ جنھوں نے
عدالت کو مطلع کرنے میں لاپروائی برتی۔ اس معاملے میں سزا یہ تھی کہ راو کو
عدالت کے ایک کونے میں آخر تک بیٹھے رہنے کے لیے کہا گیا ۔ اس سزا کو سن
کر اسکول کا زمانہ یاد آگیا جہاں کسی طالبعلم کو کم سے کم یہ سزا دی جاتی
تھی کہ اسے کلاس کے اندر ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا رہنے کے لیے کہہ دیا
جاتا تھا اور وہ بیچارہ شرم سے پانی پانی ہوجاتا تھا ۔ سرکاری افسران اس
قدر ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ ان سے شرمسارہونےکی توقع کرنا فضول ہے لیکن پھر بھی
راو کی حالت زار پر رحم آتا ہے کہ اتنی چھوٹی غلطی کی اتنی بڑی
سزا؟ناگیشور راو کے۲۰ منٹ قبل رخصت مانگنے پر عدالت دوسرے دن تک بٹھائے
رکھنے کی دھمکی تک دے ڈالی ۔
ایک درمیانی درجہ کے افسر کا تبادلہ اگر اس قدر اہم ہے تو جس شخص نے تمام
اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر سی بی آئی کے سربراہ و نائب سربراہ کو
چھٹی پر بھیج دیا ہو۔کیا سزا ہونی چاہیے ؟ وہ اگر عدالت کو یہ کہہ کر گمراہ
کرے کہ فیصلہ سی وی سی کی رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا ہےجبکہ اس کا وجود ہی
نہ ہو تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے؟ایسا طالب علم اگر ہماری کلاس میں
ہوتا تو اسے سب کے سامنے کان پکڑ کر کھڑا ہونے کے لیے کہا جاتا ۔ عدالت کے
ذریعہ سربراہ کی بحالی کے باوجود اگر کوئی سربراہ کو زور زبردستی سے ہٹا
دیال تو ہمارے استاد ایسے مانیٹر کو مرغا بنا دیتے۔ اس پر بھی اگر وہ اپنے
موقف پر اٹل رہتا تو مولیٰ بخش (ڈنڈے) سے اس کے ہاتھ سہلائے جاتے تاکہ دماغ
درست ہوجائے ؟ لیکن عدالت نے سب کچھ نظر انداز کردیا ۔
اس صرف ِنظر کی وجہ شاید یہ ہو کہ عدلیہ کی آنکھوں پر پٹی ّ بندھی ہوتی ہے
۔ اگر ایسا ہے تو اسے ناگیشور راو اور ان کا جرم کیسے نظر آگیا؟ لگتا ہے
اس پٹی میں سوراخ ہوگیا ہے؟ اس کے اندر پردھان سیوک اور سی بی آئی سربراہ
کا فرق نظر آجاتا ہے لیکن جب پردھانی ختم ہوجائے گی تو کیا ہوگا؟ راہل
گاندھی نے تو اعلان کیا ہے کہ اب چوکیدار کو جیل جانے سے کوئی نہیں روک
سکتا ؟ مودی جی نے انل امبانی کو خفیہ معلومات فراہم کرکے اپنے حلف نامہ
میں رازداری کےعہدکوپامال کیاہےجو ملک سے غداری ہے؟ راہل بابا نہیں جانتے
کہ جمہوریت میں عہد سے بڑا عہد ہ ہوتا ہے۔ عہدہ سزا کوروک سکتا ہے۔ اس لیے
عہدے سے بے دخل ہونے کے بعد ہی پردھان جی کو سزا ممکن ہے؟ افسوس کہ رام
مندر کے معاملے میں ۲۵ گھنٹے بھی نہیں لگنے چاہئیں کی دھیہد دینے والے یوگی
جی بھی عدالت عظمیٰ کو نظر نہیں آتے۔ احمد فراز کا یہ شعر (مع ترمیم)
عدلیہ پرصادق آتا ہے؎
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر وہ تو سزا کیوں نہیں دیتے
|