ایک اور پنچھی آزاد ۔۔

صیاد حیران ہے کہ اس کے جال میں کہاں چھید ہے جو پنچھی اُڑتے جا رہے ہیں ۔۔میاں شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد ملک میں جاری احتساب کا نصاب آہستہ آہستہ کھلتا جا رہا ہے اور حقیقت ملک کی روائتی حقیقت کو عیاں کر رہی ہے

ملک میں جاری احتسابی عمل کی حقیقت سے آہستہ آہستہ پردہ اٹھتا جا رہا ہے اورقفس میں قید تمام پنچھی یکے بعد دیگرے اُڑتے دکھائی دے رہے ہیں ، گزشتہ سے پیوستہ احتسابی نصاب کی حقیقت صیاد پر عیاں ہوتی نظر آرہی ہے ۔گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ سے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے جبکہ کوٹ لکھپت جیل میں قید میاں نواز شریف کے لیے طبی بنیادوں پر بیرون ملک روانگی کی راہیں بھی تقریباً ہموار ہو چکی ہیں۔لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سے اب تک ایک لیگی دوست مسلسل گنگنا رہا ہےجو احتسابی عمل کے ڈراپ سین کی طرف اشارہ کر رہا ہے ؛
اساں ہن ٹُر جا نا اے
دن رہ گئے تھوڑے

پرانے پنچھی جال سے نکلتے جا رہے ہیں اور تازہ پنچھیوں کے گرد نیا جال بچھانے کی تیاریاں عروج پر ہیں ۔صیاد جال بُنتا جا رہا ہے جبکہ پنچھی نئے قاصدوں کے متلاشی ہیں ۔اطلاعات ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر صوبائی وزیر علیم خان کی گرفتاری کے بعد نیب حکام چودھری برادران اوررہنماءپاکستان پیپلز پارٹی حنا ربانی کھر سمیت دیگر اہم قائدین کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور عنقریب یہ نئے پنچھی احتساب کے ریشمی جال میں ہوں گے، قومی دولت لوٹنے کے الزام میں گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی ،میڈیکل کروایا جائے گا،انکوائری ہوگی، جسمانی ریمانڈ لیاجائے گا ،پیشیاں بھگتی جائیں گی ، پھر ریمانڈ میں توسیع ہوگی پھر تاریخ پر تاریخ ڈالنے کا عمل شروع ہو گا ، پھر نئے پنچھیوں کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ میں ضمانت کی درخواست ہو گی ۔ دونوں اطراف سے جرح ہو گی ، دلائل و شواہد پیش کیے جائیں گے پھر اچانک ایک دن درخواست ضمانت منظور کر لی جائے گی اور پنچھی ایک مرتبہ پھر آزاد فضاﺅں میں اُڑنے لگے گا ۔ پاکستان کی تاریخ ایسے پنچھیوں ، صیادوں اور قاصدوں سے بھری پڑی ہے جس کا ذکر پہلے بھی اپنے کالم ”پاکستان میں احتساب کا نصاب“ میں کر چکا ہوں۔ دوسری طرف حقیقت صیاد پر عیاں ہو نے لگی ہے ، حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے تحقیقاتی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ،گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ شہباز شریف کی رہائی نیب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے نیب کو مشورہ دیا کہ چیئرمین نیب کو سوچنا چاہیے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ان مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں ، وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے شہباز شریف کی رہائی کو تحقیقاتی اداروں کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر طاقتو ر اور بڑے ڈاکوﺅں کے خلا ف ریاستی اداروں کا یہی رویہ رہا تو ملک میں قانون کے یکساں نفاذ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

سوال یہ ہے کہ کب تک عوام کو بے وقوف بنایا جا تا رہے گا اور یہی سوال عوام سے ہے کہ وہ کب تک پنچھی بازی کے اس کھیل میں تماشائی بنے رہیں گے ؟ بلاشبہ شہباز شریف کی رہائی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اپنے اوپر عائد کردہ الزامات سے بری ہو گئے ہیں لیکن عدالتی محاذ پر نیب کی پسپائی در پسپائی کی وجوہات کیا ہیں ، نیب قوانین میں سقم ہیں یا بالا بالا معاملات ڈیل کر لیے جاتے ہیں ۔کیوں گرفتاری کے بعد شواہد کی تلاش شروع کی جاتی اور کیوں ٹھوس شواہد حاصل کیے بغیر ہی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے ، کیوں ان مقدمات کی پیروی کے لیے پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے وکلاءکا سہارا نہیں لیا جاتا اور پھر کیوں وکیل صفائی کے دلائل کو کاﺅنٹر نہیں کیا جا تا ۔کیا یہ سب اتفاقی عمل ہے یا پھر ایسا سب کچھ درپردہ ارادی طور پر کیا جا تا ہے ۔اب تو حکومتی جماعت بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم لازم ہے جبکہ میاں نواز شریف اس قانون کے ڈنگے جانے کے بعد کہہ رہے ہیں کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ نیب قوانین میں سقم کی اتنی بڑی سزا بھگتنی پڑے گی ۔سوال تو اور بھی بہت اٹھتے ہیں لیکن قلم یہیں روکنا مناسب ہے ۔

عدالتی محاذ پر نیب کی یہ پہلی پسپائی نہیں بلکہ اس سے قبل بھی بیشتر کیسوں میں نیب کو اپنا موقف ثابت کرنے میں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ۔نیب کی طرف سے محض الزامات کی بنیاد پر گرفتاریوں اور بعد میں ان الزامات کے دفاع میں نیب کی ناکامیوں کی درجنوں مثالیں موجود ہیں ۔2002میں جب مشرف صاحب کے احتساب کا طوطی بول رہا تھا تو کتنے ہی راہنما ایسے تھے جو صرف الزامات کی بنیاد پر قید میں ڈال دیئے گئے ، پھر اسی لانڈری سے ایسے نکھرے باہر آئے کہ سیدھا وزاتوں کے منصب پر فائز ہوئے ، فیصل صالح حیات اور آفتاب شیر پاﺅ اس کی مثال ہیں، لیگی راہنماءصدیق الفاروق ڈھائی سال تک نیب حراست میں رہے لیکن بعد ازاں ان پر الزامات ثابت نہ ہوسکے اور انہیں بری کر دیا گیا۔پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری طویل قید کے بعد سپریم کورٹ سے باعزت بری ہو جاتے ہیں، فواد حسن فواد کے خلاف ابھی تک کوئی ریفرنس تیار نہیں کیا جا سکا۔ماضی قریب میں میاں نواز شریف کی رہائی بھی اس کی ایک مثال ہے ۔خود اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے نیب کے کردار اور طریقہ تحقیقات پر بار ہا سرزنش کی جا چکی ہے ۔ملکی دولت لوٹنے والے قومی مجرم ہیں اورکسی طور پر بھی نرمی کے مستحق نہیں ، انہیں قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزاملنی چاہیے لیکن محض الزامات کی بنا ءپر بے جا گرفتاریاں بھی قابل مذمت ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے نیب کے قوانین میں موجود سقم کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔دیکھا جائے توایک ماہ قبل تک حکومت اور اپوزیشن دونوںنیب قوانین میں ترامیم پر متفق تھے اور قانون سازی کے عمل کو متحرک کرنے کے لیے حکومت قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو بادل ناخواستہ بطور چیئر مین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے قبول بھی کر چکے تھے لیکن سابق سینئر وزیر علیم خان کی گرفتاری کے بعد حکومتی توپوں کا رخ شہباز شریف کی طرف ہو گیا اوراس بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے باعث نیب قوانین کا معاملہ تاحال ڈیڈ لاک کا شکار ہے ۔اگر حکومت واقعی میں کرپٹ عناصر سے لوٹی رقم کی واپسی اور ایسے عناصر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنا چاہتے ہیں تو بیان بازی سے ایک قدم آگے بڑھے اور حقیقی احتساب کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کےلئے عملی اقدامات کرے جس کے لیے سب سے پہلے سیاسی ماحول کو سازگار بناتے ہوئے قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھائے ، نیب قوانین میں سقم دورکرے چونکہ ہمارا نظام انصاف ٹھوس دلائل اور شواہد پر انحصار کر تا ہے اور عدالتی نظام میں ٹھوس دلائل پیش کرنے کے لئے ماہر اور تجربہ کار وکلاء/پراسیکیوٹرز کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نیب کو محدود مالی وسائل کی وجہ سے چھوٹے یا نسبتاً کم تجربہ کار وکلاءپر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے ۔تنخواہ اور مراعات کی کمی کی وجہ سے کئی نیب پراسیکیوٹر مستعفی ہو چکے ہیں ۔ بڑے مقدمات کی پیروی کرنے والے نیب پراسیکیوٹر ز کاسامنا چوٹی کے وکلاءسے ہوتا ہے جو نفسیاتی طور پر کیس پر اثر انداز ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ نیب پراسیکیوٹر عدالت میں اپنے دفاع میں کمزور دلائل کی وجہ سے مقدمات ہار جاتے ہیں اور طاقتور سرمائے کے بل بوتے پر ان مقدمات سے بری ہو جاتے ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ نیب کو تجربہ کار وکلاءکی خدمات حاصل کرنے کے لیے مالی معاونت کرے تاکہ عدالتی محاذ پر بہتر نتائج برآ مد ہوں۔دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کو پی اے سی معاملہ سمیت دیگر ایشوز پر سیاسی محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے اور ملکی مفاد کے پیش نظر قانون سازی کےجامد عمل کو متحرک کرتے ہوئے ان تمام سقوم کو دور کرنا چاہیے جن کی بدولت کمزور تو پھنس جاتا ہے لیکن طاقتور کے لیے یہ قانون مکڑی کا جال ثابت ہو تاہے ۔ایسے پنچھیوں کے لیے ریشم کے جال کی بجائے مضبوط لوہے کا جال تیار کیا جائے ورنہ ایسے جال میں تو پنچھیوں کی قید و آزادی کا کھیل یونہی چلتا رہے گا۔

Sheraz Khokhar
About the Author: Sheraz Khokhar Read More Articles by Sheraz Khokhar: 23 Articles with 14478 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.