اختر حسین
خواتین و حضرات ! اس کا جواب ہم تاریخ کے سنہری اوراق سے لیتے ہیں :۔
امریکہ نے 200 سال قبل دنیا کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری کا تجزیہ
کروایا اور اس تجزیہ کی روشنی میں انسانی تہذیبوں کی ایسی خامیاں نوٹ کی جن
کی وجہ سے بڑی بڑی سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں۔ ان میں مصر کے فرعون، مقدونیہ
کے سکندر ، روم کے سیزر ، عرب کے مسلمان، منگولیا کے چنگیز خان اور ایران
کے کسریٰ ہوں، سب یہ غلطیاں دھراتے رہے اور ان کے اصول کا سورج غروب ہوتا
رہا ۔ ان میں سے 4 خامیوں کا ذکر آپ کے حاضرِ خدمت ہے۔
-1 ڈکٹیٹر شپ (نا اہل بادشاہ سسٹم تباہ کر دیتا ہے)
-2 سیاسی جماعتوں پر طاقت ور خاندانوں کا قبضہ ۔
-3 جہاں Rule of Law کی بجائے طاقت ور شخصیات کو استنشنیٰ Immunity حاصل ہو
۔
-4 جہاں شعوری غربت کا اندھیرا ہو ۔
خواتین و حضرات ! اس تجزئے کی روشنی میں آپ وطن عزیز کا تجزیہ فرمائیں تو
اس میں حقیقت چمکتے سورج کی طرح واضح ہو جائے گی۔ سب سے پہلا پوائنٹ ڈکٹیٹر
شپ کا ہے۔ جس کا ثبوت ہمیں ہر جگہ One Man Show کی صورت میں نظر آتا ہے اور
اس کے خوفناک نتائج ہمیں " سقوط ڈھاکہ" کی صورت میں بھگتنے پڑے ۔ دوسرا
پوائنٹ سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کے قبضے کا ہے۔ آپ وطن عزیز میں موجود
سیاسی پارٹیوں کا Profile نکالیں تو ماسوائے جماعت اسلامی اور پاکستان
تحریک انصاف کے باقی تقریباً تمام جماعتوں پر خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔
جس میں سیاسی ورکر محض " ہاری اور مزارعے" جس کی کوئی سیاسی تربیت نہیں
ہوتی۔ کیونکہ تربیت سے وہ سیاسی شعور پا لیں گے اور لیڈر شپ میں اپنا حق
مانگیں گے۔ تیسرا پوائنٹ Rule Of Law سے متعلق ہے۔ ہمارے ملک کی 70 سالہ
تاریخ گواہ ہے کہ یہاں شخصیات کے مقابلے میں قانون کا قد " بونا" رہا ہے
اور پوری انتظامیہ Political Bosses کے حکم کو ہی قانون کا درجہ دیتی رہی
ہے اور آئین پاکستان محض تقریریوں میں اور اپوزیشن کے دور میں یادآتا رہا
ہے۔ چوتھا پوائنٹ شعوری غربت کے متعلق ہے۔ ان سب کی بنیادی وجہ وطن عزیز کا
" سماجی ڈھانچہ" ہے جو جاگیرداری ، گدی نشینی، وڈیرہ ازم اور قبائلی سسٹم
پر Base کرتا ہے ۔ جس میں انصاف کا حصول مذاق بن کر رہ گیا ہے ، جس میں
قانون کے رکھوالے ، پولیس رولز اور آئین پاکستان سے رہنمائی لینے کی بجائے
مقامی وڈیرے سے ڈکٹیشن لیتے ہیں جس سے عام آدمی پر بے یقینی کے سائے مزید
گہرے ہو جاتے ہیں ، اگر کسی کو شک ہو تو وہ کسی سرکاری دفتر کا وزٹ کر لے۔
اب ہم آتے ہیں اصل کور پوائنٹ کی طرف کے پاکستان میں لیڈر شپ کی تبدیلی کے
باوجود عام آدمی کے حالات کیوں نہیں بدلے ؟ سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ
تبدیلی کس طرح آتی ہے؟ اس کے دو بڑے طریقے ہیں۔
-1 خونی انقلاب (Change By Bloodshed)
یہ تبدیلی کی وہ خوفناک قسم ہے جس میں حالات کے جبر کی وجہ سے اندر سے لیڈر
پیدا ہوتا ہے۔ جو اپنے نظریات سے عوام کو ہم آہنگ کر لیتا ہے اور Royal
Mindsets کے خلاف خونی تحریر کی قیادت کر کے نظام کو تہس نہس کر دیتا ہے۔
جس کا ثبوت ہمیں تاریخ کے اوراق چیخ چیخ کر دے رہے ہیں۔ جن میں Freanch
Revolution 1867 ، Russian Revolution 1917 ، Chienes Revolution 1949 قابل
ذکر ہیں۔ ان میں سسٹم کی بنیادیں ہی ڈھا دی گئیں۔
-2 اب ہم جائزہ لیتے ہیں تبدیلی کی دوسری قسم کا جس میں لیڈر قوم کو
Educate کر کے با شعور بناتا ہے۔ انہیں ویژن اور آئیڈیالوجی سے ہم آہنگ
کرتا ہے۔ شعوری غربت جیسے جیسے ختم ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے پرانا سسٹم
کمزور سے کمزور تر ہوتا جاتا ہے اور بالآخر سچ کے سامنے سرنڈر کر دیتا ہے۔
ترکی کے طیب اردگان ، ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور افریکا کے نیلسن منڈیلا
قابل ذکر ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ اُنہوں نے The Law of Compound effect کو
فالو کیا جس میں انہیں سالوں محنت اور صبر کرنا پڑا تب جا کر
Paradigm-shift ہوا ۔ یاد رکھیں پہلے کسی قوم کا Paradigm یعنی سوچنے کا
انداز بدلتا ہے ، کردار بدلتا ہے اور پھر امن اور خوشحالی کا سفر شروع ہوتا
ہے۔ الحمداللہ پاکستان میں پورا امن تبدیلی آغاز کر دیا گیاہے۔ اس تحریک کے
روح رواں جناب عمران خان صاحب ہیں ۔ جن کی کردار ، ویژن ، بہادری اور مستقل
مزاجی کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ وہ پاکستان میں اس سوچ کو لیڈ کر رہے ہیں جس
قوموں کو عروج نصیب ہوتا ہے انشاء اللہ۔
اب ہونے یہ جا رہا ہے کہ ایک طرف تو انہیں عوام کی طرف سے زبردست دباؤ کا
سامنا ہے کہ ان عناصر کو جنہوں نے ملک کو فالج زدہ بنا کر عالمی برادری میں
تماشہ بنا دیا ہے ان کی سرجری کی جائے ۔ کیونکہ قوم نے آپ کو ایسی تبدیلی
کے لیے سپورٹ کیا تھا جہاں انصاف کا میعار یہ ہو کہ فرد کو اداروں سے اپنا
مسئلہ حل کروانے کے لیے اس کا صرف پاکستانی ہونا ہی کافی ہوگا۔ اُسے اپنے
معاملات کے لیے ٹاؤٹ مافیا اور وڈیروں کی چوکھٹ پر حاضری نہ دینی پڑے جس
میں روح تک زخمی ہو جاتی ہے۔ ہمیں آپ کے سامنے آنے والے (سپیڈ بریکرز )کا
بھی احساس ہے لیکن ہم آپ کو یاد دلائے دیتے ہیں کہ لیڈر ہوتا ہی وہی ہے جو
اصولوں کی لڑائی میں سٹینڈ لے اور قوم کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر
منزل تک لے جائے۔ آپ کو اصولوں کی Baseپر رسک لے کر Move کرنی ہی پڑے گی
ورنہ یہ سمجھوتوں کی پالیسی ملکوں کو کھا جاتی ہے۔ دوسری طرف عوام سے
التماس ہے کہ ان کی 70 سالہ مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے سانپ اب اژدھے بن چکے
ہیں۔ ان کو انجام تک پہنچانے کے لیے ایک لمبی جدوجہد، صبر اور لیڈر شپ پر
یقین درکار ہے۔ کیونکہ ایک عظیم فلسفی کا قول ہے " جتنی دیر سے جاگو گے
اُتنی زیادہ قربانی دینی پڑے گی" ۔قرآن پاک کا سبق بھی یہی ہے '' اور انسان
کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے"
|