محمدبن سلمان کا تاریخی دورہ پاکستان

پاکستان میں دہشت گردوں کے خاتمے اوردہشت گردی کوشکست کے بعد اقتصادی اورمعاشی میدان میں آگے بڑھنے جارہاہے پاکستان عرب دنیا سمیت خطے کے تمام ممالک کے لئے ایک پر کشش کاروباری ملک کے طور سامنے آ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سعودی ولی عہد محمدبن سلمان ایک تاریخی دورے پرپاکستان آرہے ہیں اس دورے کی کامیابی کے لیے بھرپورتیاریاں کی گئی ہیں کیوں کہ یہ دورہ پاکستان کے معاشی مستقبل کانقطہ آغازہوگا ۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کے سلسلے میں تیاریوں کو حتمی شکل دیدی گئی ہے محمدبن سلمان کی شایان شان استقبال کی تیاریاں کی گئی ہیں ۔ سعودی کراؤن پرنس اور ولی عہد محمد بن سلمان کے لیے بی ایم ڈبلیو سیون سیریز اور لینڈ کروزر بھی پاکستان پہنچا دی گئی ہیں۔ذرائع کے مطابق 8 کنٹینرز پر مشتمل سامان دو سی 130 طیاروں کے ذریعے پاکستان پہنچایا گیا۔ شاہی خاندان کے لیے 8 ہوٹلز میں 750 کمرے بک کرائے گئے ہیں۔ہوٹلز کا کنٹرول سعودی ولی عہد کی آمد سے قبل سیکورٹی اہلکار سنبھال لینگے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ہمراہ چالیس رکنی اہم کاروباری وفد اور شاہی گارڈ کا دستہ بھی ہو گا۔

سی پیک کے بعد پاکستان میں سب سے بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری سعودی عرب کرر ہا ہے۔ گوادر میں جو سی پیک کے ذریعے پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بننے جا رہا ہے، پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ریفائنری تعمیر کی جائے گی۔آئل ریفائنری کے قیام سے پاکستان کو زرمبادلہ کی مد میں 7 ارب ڈالر سالانہ بچت ہوگی جبکہ گوادر خطے میں تیل کی تجارت کا مرکز بن جائے گا۔ نئی آئل ریفائنری سے پاکستان میں تیل صاف کرنے کی یومیہ صلاحیت پانچ لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ جائے گی۔سعودی عرب اور عرب امارات کی جانب سے 12 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج اور 10 ارب ڈالر کی آئل ریفائنری سمیت اگلے تین سال میں مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 25 سے 30 ارب ڈالر ہو جائے گا۔چین کی طرح سعودی عرب کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری پر ٹیکس استثنی ملے گا۔مستقبل قریب میں معدنیات، پائپ لائن اور پیٹرولیم کے ذخیرے کی تعمیر میں بھی سرمایہ کاری کی تجویز ہے، پائپ لائن بننے کے بعد سعودی عرب سے چین تیل کی ترسیل کا دورانیہ 40 سے کم ہوکر 7 دن رہ جائے گا۔تیل کے دیگر سپلائرز کی طرح دنیا کے صف اول کے خام تیل برآمد کنندہ دنیا بھر میں ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل منصوبے میں بھاری سرمایہ کاری کر ہے ہیں تاکہ اپنے تیل کے لیے طویل المدتی خریدار یقینی بنا سکیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ گوادر سے چین پائپ لائن سے سپلائی کا وقت 40 دن سے کم ہو کر 7دن رہ جائے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان، سعودی عرب سے یومیہ ایک لاکھ 10 ہزار بیرل خام تیل درآمد کرتا ہے، جس کی ادائیگی تاخیر سے کی جاتی ہے۔خیال رہے کہ 1998 میں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے بعد ریاض نے تاخیری ادائیگیوں پر پاکستان کو 2 سال کے لیے تیل کی فراہمی کی سہولت دی تھی، جس کے بعد سے اب تک اس مدت میں ہر بار 3 سال کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پہلے ہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں تین، تین ارب ڈالر جمع کرا چکے ہیں تاکہ پاکستان کے ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا دے سکیں۔60ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کے ساتھ چین کے ون بیلٹ اینڈ ون روڈ منصوبے کے حصے کے طور پر بنائے جانے والے گوادر کو مستقبل کی تجارت کا گڑھ قرار دیا جا رہا ہے جس سے وسط ایشیا، افغانستان، مشرق وسطی اور افریقہ کے لیے رسائی آسان ہو جائے گی۔
اس کے ساتھ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تیل اور معدنی ذخائر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری اور تجارتی تعاون کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے جانے کا امکان ہے۔ان مفاہمتی یادداشتوں میں گوادر سے براستہ اومان اور ریاض، افریقہ تک جانے والے بیلٹ اور روڈ کے چینی منصوبے کے تحت منصوبوں پر بھی سمجھوتوں کی امید ہے۔ قطر اور ایران کے ساتھ اختلافات کے سبب سعودی عرب اپنے تجارتی راستوں کو نئی جہت دینا چاہتا ہے۔دوسری جانب سعودی عرب گوادر میں تیل ریفائنری لگانے اور بلوچستان میں سونے اور تانبے کے منصوبوں جبکہ پنجاب میں لیکویفائیڈ نیچرل گیس (این ایل جی) کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا جائزہ بھی لے گا۔2013 میں شروع ہونے والے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی تکمیل کا ہدف 2049 ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کس قدر کامیاب رہتا ہے اس کے لیے شاید 30 سال سے زائد عرصہ انتظار کرنا پڑے گا، تاہم بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے نے پہلے سے موجود عالمی نظام پر اثرانداز ہونا شروع کردیا ہے۔
سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین ہارون شریف کے مطابق اس سفر میں 10 بلین ڈالر سے زائدکے معاہدوں ہونے کا امکان ہے۔جبکہ گوادر اور پیٹرک کمپلیکس میں ایک تیل ریفائنری بھی ملک میں آباد ہونے کی امید ہے۔سعودی عرب سندھ اور بلوچستان میں ونڈ انرجی اور سولر انرجی میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جبکہ ان کی فوڈ اور ایگریکلچر میں بھی دلچسپی ہے، منرلز اینڈ مائنز میں بھی سعودی عرب کی کافی دلچسپی ہے ۔سعودی عرب نے حویلی بہادر شاہ اور بھکی پاور پلانٹ میں دلچسپی ظاہر کی ہے ،
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے ترجیحاتی تجارتی معاہدے پر مذاکرات کے آغاز کی باقاعدہ تجویز پیش کرے گا۔ ترجیحاتی معاہدے میں ٹیرف اور غیر ٹیرف رکاوٹوں(non-tariff barriers) جس سے پاکستان کو بادشاہت کے حامل ملک تک اپنی برآمدات کی توسیع میں مدد ملے گی۔مجوزہ مفت تجارتی معاہدے پر گلف تعاون کونسل سے مذاکرات 2006 سے مکمل تعطل کا شکار ہیں اور اب تک اس پر مذاکرات کے محض دو دور مکمل ہوئے ہیں۔

پاکستان کی سعودی عرب سے دوطرفہ تجارت مسلسل تنزلی کا شکار ہے جہاں 14-2013 میں 5.08ارب ڈالر کی تجارت 17-2016 میں گھٹ کر 2.5ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ اس کی ایک وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی گرتی ہوئی قیمتیں ہیں جو کل درآمدار کے 50فیصد حصے پر مشتمل ہے۔دوسری بڑی وجہ ملک کے سیاسی حالات تھے چندسال پارلیمنٹ میں سعودی عرب کولتاڑنے والے آج سعودی عرب کے سامنے بچھے جارہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کی اہم کاروباری شخصیات کے درمیان تعاون بڑھانے کے لیے 2000 میں پاک سعودی مشترکہ کاروباری کونسل تشکیل دی گئی تھی۔ یہ کونسل گزشتہ 18سال میں تین مرتبہ ملاقات کر چکی ہے جس سے تجارت تعلقات کو فروغ دینے میں سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔سعودی عرب کی جانب سے حلال فوڈز، دودھ، کیٹل فارمنگ، فشریز سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کا امکان ہے۔

اس دورے کے دوران جن دیگر امور پر گفتگو کی جائے گی ان میں کاروباری ویزا کے طریقہ کار میں آسانی بھی ہے جس میں اس وقت مختلف محکموں تک رسائی حاصل کرنی پڑتی ہے اور کم از کم چھ ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔سعودی عرب نے نے ملک میں کسی بھی کاروباری سرگرمی میں شرکت کے لیے کاربواری ویزا فیس بھی بڑھا کر ایک فرد کے لیے 74ہزار روپے کردی ہے اور پاکستان اس فیس کے خاتمے کی کوشش کرے گا۔

سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے کراؤن پرنس شہزادہ محمد بن سلمان کے 16 اور 17 فروری کو ہونے والے تاریخ ساز دورہ پاکستان کے حوالے سے بتایا کہ ان کے دورے کے دوران پاکستان اور سعودی عرب ناقابل شکست و ریخت اسلامی بندھنوں میں بندھ جائیں گے۔ 10 سے زائد مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر جو دستخط سعودی ولی عہد اور وزیراعظم پاکستان کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے وزرا ایوان وزیراعظم میں کرینگے ان کی مالیت 15 ارب امریکن ڈالر (تقریبا 21 کھرب پاکستانی روپے)سے کہیں زیادہ ہوگی ۔ سعودی عرب نے 1996 سے 2018 تک 86.7 بلین امریکی ڈالر کی امداد دنیا کے 79 ملکوں کو دی ہے سب سے زیادہ سعودی امداد وصول کرنے والے 5 ملک یمن، شام، مصر، موریطانیہ، نائجیریا ہیں اس کے علاوہ سعودی امداد علاقائی اور بین الاقوامی اداروں کو دی جا رہی ہے۔ ان میں 5 سرفہرست ادارے اقوام متحدہ (UN) ایشین انفرااسٹرکچر انوسٹمنٹ بنک (AIIB) عرب فنڈ برائے اقتصادی و سماجی ترقی، سیکرٹریٹ جنرل آف دی گلف کارپوریشن کونسل (GCC) اسلامی ترقیاتی بنک ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سعودی امداد 79 ملکوں کے 13 سے 46 پراجیکٹوں کے لئے دی گئی ہے۔علاوہ ازیں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سعودی وژن 2030کے مطابق آئندہ دس برسوں میں30کروڑ مسلمانوں کے لئے حج اور عمرے کے انتظامات مکمل ہو جائیں گے-

ولی عہدکے اس دورے سے پاکستان کوبہت سے توقعات وابستہ ہیں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کاکہناہے کہ سعودی ولی عہد کیساتھ کم ازکم 8 ایم اویو سائن ہوں گے اور ان کو عملی شکل دیں گے۔دونوں ممالک کے مابین اقتصادی تعاون اور یادداشتوں پر عملی اقدامات کے لیے کوآرڈینشین کونسل تشکیل دی جائے گی۔
وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داود کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے پہلے 2سال میں 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔سعودی عرب کی جانب سے آئل ریفائنری میں سب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی لیکن ابھی اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کتنی سرمایہ کاری ہوگی؟ 5 سال میں ریفائنری مکمل ہوجائے گی۔ذرائع سعودی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 20 ارب ڈالر کے معاہدے ہوں گے، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے سے دونوں ممالک کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
 

Umar Farooq
About the Author: Umar Farooq Read More Articles by Umar Farooq: 47 Articles with 36816 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.