ماضی ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جو عادتوں اور مثالوں کے ساتھ
الٹ کر اپنی یادگار قائم رکھتا ہے ۔برصغیر پاک و ہند میں آزادی سے قبل
انگریز بشمول بیرونی حملہ آوروں قبضوں، حکمرانی کی صدیوں پر پھیلی تاریخ
کا خلاصہ شخصی حکمرانی اور اس کی اطاعت تا بعداری کے رحجان نے عادات خواص
کی حیثیت اختیار کیے رکھی جس کا اثر بعد میں بھی جاری رہا اور آج بھی ہے ‘
خاص کر سلطنت مغلیہ سمیت اسی طرز کے حکمرانوں کے حملوں او رانداز حکمرانی
میں بہت ساروں نے باامر مجبوری ارو سیانوں نے قلعے والوں کی خوشنودی کیلئے
اپنے ناموں کے ساتھ ان کے القابات کی نسبت جوڑتے ہوئے آسودگی کو حصول کو
آسان بنایا اور پھر ان کے بعد ان کی نسلوں کا کوئی قصور نہیں وہ ان القابات
کے ساتھ نسل نو پر بڑھتی رہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ بہت سے القابات کے تسلسل کے
ذیلی شاخوں کے حوالے سے تکرار بھی رہتی ہے یہ وہ نہیں یہ ہے اور یہ نہیں وہ
ہے مگر جس کے سر پر سب سے اعلیٰ تاج سجا ہو اس کے تعلق سے جڑتے ہوئے اپنے
ناموں سے پہلے یا آخری لفظ کو نمایاں کرنے بلکہ مخاطب ہونے کی شناخت روایت
بنی ہوئی ہے جس کا آزادی کے بعد سیاست کے قرینوں میں خاص مقام مسلمہ ہو گیا
یہ پاک بھارت بشمول ریاست جموں وکشمیر کا مشترک سلسلہ چلا آ رہا ہے اگرچہ
انگریز کے خلاف سب نے مل کر جنگ آزادی کی جدوجہد میں قربانیاں دیں مگر
مذہبی تعصب آڑے آیا بغل منہ چھری منہ رام رام کے ہندو دھرم سے مسلم علیحدگی
پاک بھارت ممالک کو وجود میں لے آئی مگر بت پرستی کے سائے نہ چھٹ سکے تو
اختیار سے جڑے رہنے کی خُو بھی موجود رہی جس کا زور دیکھا اس کو سلامی واجب
زندگی والوں کی پہچان بن گئی کہ طاقت کے مرکز کے کون کتناقریب ہے آزادی سے
پہلے انگریز براہ راست کے بجائے برصغیر کے تمام علاقوں کے لوگوں میں سے
کھڑپینچ کونمبرداری دیکر کام چلاتا رہا جو بعد میں وہاں کانگریس یہاں لیگ
میں جلوہ افروز ہوتے رہے ‘ ریاست جموں و کشمیر میں مسلم کانفرنس واحد پلیٹ
فارم تھا جس کا نام اتفاق کے ساتھ مسلم لیگ کا پہلا حرف مسلم اور انڈیا
کانگریس کا دوسرا حرف کانگریس کا متبادل کانفرنس دونوں کے ملاپ سے مسلم
کانفرنس چل نکلا ‘ ریاست کی تقسیم کے حالات کے غلبے میں شیخ عبداللہ نے
نیشنل کانفرنس جو انڈین کانگریس کی مشابہت کر کے جواہر لعل نہرو کے زور
طاقت کا اپنے رومانی رازسے ذریعہ اقتدار بنایا وہاں مسلم کانفرنس کا نام
ہی رہے گا ‘ اور ہجرت کرنے والوں کے ساتھ یہاں آ کر مقام بنایا جس کے ایک
راہنما سردار ابراہیم خان صدر ریاست اور چوہدری غلام عباس صدر مسلم کانفرنس
کے طور پر دریا اختیار کے دو کنارے بنے ان کے اپنے اپنے قریبی حلقوں نے بھی
جنم لیا ‘ غلام عباس کا اعتماد سردار عبدالقیوم خان بن گئے جن سے پہلے ہی
چوہدری غلام عباس کے سامنے سردار ابراہیم خان الگ راہ کرتے ہوئے آزاد مسلم
کانفرنس پھر پیپلز پارٹی تک پہنچے مگر مرکز اقتدار کے روابط مسلم کانفرنس
سے مربوط ہونے پر سردار عبدالقیوم خان کا سکہ چلتا رہا جن کے مقابلے میں
مسلم کانفرنس کے اندر سردار سکندر حیات نے اپنی لابی بناتے ہوئے وزارت پھر
وزارت عظمیٰ ‘ قائد حزب اختلاف ‘ صدر ریاست کے منصب اپنے نام کیے جن کے
بائی پاس کرنے کے سلسلے کو سردار عبدالقیوم خان مرحوم کے فرزند سردار عتیق
احمد خان نے سکندر حیات کے سامنے آ کر مسلم کانفرنس کی صدارت لی اور پھر
وزارت عظمیٰ کو اپنے نام کیا اور سردار عتیق خان کی صدارت وزارت عظمیٰ کو
سکندر حیات کی طرح مسلم کانفرنس کا الگ دھڑا بنا کر موجودہ وزیراعظم راجہ
فاروق حیدر خان نے چیلنج کیا نو ماہ کی وزارت عظمیٰ بھی ملی مگر اس کے عتیق
خان کے ہاتھوں چھن جانے پر بالآخر مسلم لیگ (ن) کو یہاں لاتے ہوئے وہ لقب
نسبت جسے مسلم کانفرنس قائداعظم سے لیکر اقتدار سے جڑی ایوب خان ‘ ضیاء
الحق ‘ مشرف لیگ بشمول نواز شریف کے عروج میں اپنے حق میں استفادہ کرتی تھی
کو براہ راست لا کر قائد حزب اختلاف اور پھر جاری وزارت عظمیٰ کا راستہ
بنایا جس کے بعد مسلم کانفرنس کے پاس کوئی کارڈ نہ رہا ماسوائے غازی آباد
اور ملک نواز سمیت دو چار بڑے ناموں کے باقی سب مسلم لیگ میں اآ گئے مگر جس
طرح مسلم لیگ مسلم کانفرنس میں کانگریس کی خو چلتی آئی اسطرح ن لیگ میں
مسلم کانفرنس کی ریت ختم نہ ہوسکی اور راجہ فاروق حیدر کا کاٹ ان کے بعد
سینئر نائب صدر ‘ سینئر وزیر طارق فاروق نے سکندر حیات کی جی داری کرتے
ہوئے شروع کیا ہے اور مشتاق منہاس جی داری کیخلاف غفار خان بنے ہیں گرچہ
پرلہ مرکز سے منسلک مرکز ی کردار پر بھاری ہے جو مسلم کے بعد کانفرنس سے
لیگ میں بدلے نام کے باوجود عادات خاصیت کے قائم رہنے کی پہلے والی مثالوں
کی یادگار ماضی ہے جس کا اسٹیج بطور سیکرٹری جنرل و سپیکر شاہ غلام قادر کے
پاس ہے ان کے مزید سرتال کیا ہوں گے یہ حالات اسباب پر منحصر ہے تاہم شیشہ
اب اپنے چہرے پرچھائی (لکیر) ضرور لے آیا ہے جس کا فائدہ اتنا ضرور ہوا ہے
کہ ٹی وی چینلز پر جن لوگوں نے اوساکا بیٹری کا کمرشل دیکھا ہے وہ سمجھ
سکتے ہیں کہ گہری نیند سوئے ہوئے شخص کو پانی کی بھری بالٹی اس پر پھینک کر
جگایا جاتا ہے تو ہڑ بڑا کر اُٹھ کر بیٹھتا ہے جس کا مرض دھکا سٹارٹ تشخیص
کرتے ہوئے علاج اوسا کا بیٹری بتایاجاتا ہے بیٹری چھ ماہ بہترین سال چارجنگ
کے ساتھ وقت نکالتی ہے پھر ری فلنگ کرانی ہوتی ہے ‘ جس کے لیے ری فلنگ
سینٹر کا خود بھی صحت مند ہونا ضروری ہے ورنہ بیٹری نئی لگانی پڑتی ہے ؟یہ
بیٹریاں یہاں گریڈ والی کرسیاں ہیں جن کے کرنٹ پر الٹ پلٹ ہوتی ہے تو شارٹ
سرکٹ کا سبب بھی بنتی ہیں تاہم تاحال یہاں آتشزدگی کاکوئی خطرہ نہیں ہے ۔ |