آجکل عرب ممالک اچانک پاکستان پر مہربان ھونے کیلئے میدان
میں آچکے ہیں۔ امریکی اشارے پر سعودی عرب کی بھاری سرمایہ کاری اسی سلسلے
کی ایک کڑی بتائی جا رھی ھے، متحدہ عرب امارات اور قطر بھی پاکستان میں
انوسٹمنٹ کا اعادہ کرتے نظر آرھے ہیں اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اس بڑی
پیشرفت پر نگاہیں جمائے بیٹھا ھے اور ایڈوانس پیشگوئی کرتا نظر آرھاھے۔
بتایا جارھاھے کہ واشنگٹن بھی سی پیک کوریڈور کا حصہ بنے گا اور ان سب نے
مل کر چین سے زیادہ پیسہ لگانے کا مبینہ پلان بنا رکھا ہے ، آئل ریفائنری
کے بہانے سعودی عرب پاکستان کی گوادر کی اراضی خریدنا چاہتا ہے یوں اس
حوالے سے پاکستان کو عقلمندی سے کارڈ کھیلنا ہوگا۔
پاکستان کے لئے امریکی رویے میں اچانک نرمی ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات
اور قطر کی حددرجہ گرم جوشیاں اور پیسوں کی بوریوں کا منہ کھول دینے کا عمل
بے معنی نہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کے موقع پر 12
سے 20 ارب ڈالر کے معاہدے متوقع ہیں ۔
بظاھر یہ کہا جارھاھے کہ یہ سب کچھ ایک نئے کھیل کا حصہ ہے ، جو اس وقت سی
پیک پر کھیلا جارہاہے اس کا واحد مقصد چین کو سی پیک پر کمزور اور اسکی
بالادستی ختم کرنا ہے لہٰذا نئے نمودار ھونے والے کرداروں کیجانب سے سی پیک
پر چین سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا پلان بنایا گیا ہے۔
سعودی ولی عہد کی پاکستان آمد اور اربوں ڈالرز کے متوقع معاہدوں کیساتھ
ساتھ متحدہ عرب امارات اور قطر بھی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں ۔اس طرح
امریکہ بھی سی پیک میں سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے۔ امریکہ سمیت جتنی بھی
بین الاقوامی طاقتیں پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کو ختم کرنا چاہتی تھیں وہ
اب ناکام ہو کر بیٹھ چکی ہیں کیونکہ پاکستان نے اپنے ایٹمی اثاثوں کےلئے
ٹھوس سیکورٹی اقدامات کر رکھے ہیں کہ اب پاکستانی ایٹمی اثاثوں کو اب نہ
کوئی چرا سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے ایسے میں امریکہ اور اس کے
حواری ممالک کو اب سب سے بڑا اور فوری خطرہ سی پیک نظر آتا ھے کیونکہ اس
پراجیکٹ کی تکمیل سے خطے میں امریکہ ، بھارت اور اس کے دیگر حامی ممالک کی
اجارہ داری ختم ہوتی نظر آتی ھے۔ پہلے سی پیک صرف پاکستان اور چین کا باہمی
پراجیکٹ تھا مگر اب اس میں روس بھی شامل ہورہاہے روس کے آنے سے وسط ایشائی
ریاستیں خود بخود اس منصوبے میں آجائیں گی۔ روس ”رشیا پاکستان اکنامک
کوریڈور“ بھی شروع کرنے کا خواھشمند ہے ۔اور یہ سب کچھ امریکا کےلئے بڑی
الارمنگ صورتحال ہے لہذا اس پیش رفت میں تجزیہ کاروں کے مطابق چین کے کردار
کو غیر موثر بنانے کےلئے امریکہ نے مبینہ نیا پلان ترتیب دیا ہے جس کے تحت
پہلے مرحلے میں امریکی منشاء پر سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور قطر
میدان میں اترتے نظر آرھے ہیں۔یہ تینوں مالدار ممالک پاکستان میں اس قدر
بھاری سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جس کا حجم چین کے سرمایہ کاری سے
بڑھ جائےگا۔ سی پیک کے آغاز پر چین نے 46 ارب روپے کی سرمایہ کاری کا
پاکستان سے معاہدہ کیاتھا تاہم اب اس میں مزید اضافہ کرتے ھوئے چین نے 52
ارب ڈالر تک پہنچا دیا ھے۔ اس سرمایہ کاری میں اب تک 18ارب ڈالر خرچ کئے جا
چکے ہیں تاہم اب امریکہ ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے
چین سے زیادہ سرمایہ کاری کی تیاری کی جارہی ہے جس کی ابتداء سعودی ولی عہد
محمد بن سلمان کی 17 فروری 2019ء پاکستان آمد ھے اور انکی آمد پر 12ارب
ڈالر کے معاہدے متوقع ہیں آنیوالی سرمایہ کاری کا رفتہ رفتہ 20 ارب ڈالر سے
اوپر تک جانیکا امکان بتایا جارھا ھے یوں متحدہ ارب امارات اور قطر بھی فی
کس 10،10ارب ڈالر سے زائد کی ابتدائی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ
یہ ممالک پاکستان سے افرادی قوت کے بھی معاھدے کرنیکا عندیہ دے چکے ہیں جس
نتیجے میں بیروزگار پاکستانیوں کو ان ممالک میں روزگار کے مواقع میسر آئیں
گے۔ اگلے مرحلے میں امریکہ کی طرف سے 20 ارب ڈالر سے زائد کی انویسٹمنٹ کا
بھی امکان واضح ھے اور یہ سب اسلئے بھی کہ امریکہ افغانستان سے اب نکلنا
چاھتاھے اور چونکہ سابقہ نوازشریف حکومت کی حکومت خطے میں امن پیشرفت میں
مکمل ناکام رہی اور خطے میں توازن برقرار رکھنے میں بھی اسکی خارجہ پالیسی
ناکام رہی یوں اب وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں انکی کامیاب ڈپلومیٹ
خارجہ پالیسی کی کامیابی کی بدولت امریکہ نے پاکستان کیلئے نرم رویہ اختیار
کرنے کا فیصلہ کرتے ھوئے پاکستان سے مدد لینے کا فیصلہ کیا اور اب
افغانستان میں امن پراسیس سمیت طالبان کو شراکت اقتدار بنانے کیلئے پاکستان
کی مدد حاصل کی جارہی ھے اور اسکی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی
جمہوری حکومت اور پاک مسلح افواج کا ایک پیج پر ھونا ھے اور یوں پاکستان کے
سلامتی کے ضامن اداروں کا سیاسی قیادت کیساتھ ایک پیج پر ھونا پاکستان
کیلئے نیک شگون اور خطے میں پائیدار امن کی ضمانت قرار دیاجارھاھے یوں
حالیہ سعودی عرب کے ولی عہد کے پاکستان دورے کو خاص اھمیت حاصل ھوگئی ھے
اور ان کیساتھ ایک بڑے تجارتی وفد کی آمد پاکستان اور اسکی اکانومی کیلئے
مثبت نظر آرہی ھے اور امکان ھے کہ سعودی عرب کے ولی عہد کے دو روزہ پاکستان
دورے کے بعد آئندہ مستقبل قریب میں متحدہ عرب امارات و قطر سمیت وسطی
ایشیائی ریاستوں کی انوسٹمنٹ کا حجم چین کی سرمایہ کاری سے بڑھ جائے
گا۔پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت سی پیک کو 2030ء تک
مکمل ہونا ہے امکان ھے کہ چینی سرمایہ کاری کا حجم 90 سے 95 ارب ڈالر تک جا
سکتا ہے ۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ اور اس کے ہم خیال عرب ممالک بھی
اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کریں گے جسکا فائدہ پاکستان کوحاصل ھوگا اور
خطے میں امن و ترقی کا خواب بھی پورا ھوتا نظر آئیگا جب افغانستان میں غیر
ملکی مداخلت ختم ھوگی اور وھاں سب کو جمہوری طریقے سے اقتدار میں آکر تباہ
حال افغانستان کی ازسرنو تعمیر ترتیب و ترقی کیجانب پیشرفت کرنیکا موقع
ملےگا اور اس امن عمل سے یقینی طور پر خطے میں خوشگوار مثبت نتائج پیدا
ھونگے۔
قطر کے تعلقات سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بہت کشیدہ ہیں۔ قطر کے
چاھے سعودی عرب اور عرب امارات سے تعلقات بہتر نہ ہوں لیکن ان تینوں ممالک
میں امریکہ کا بڑا اثر و رسوخ ھے یوں امریکہ سی پیک کے معاملے پر ان تین
ممالک کو ایک پیج پر تقریبا لاتا نظر آ رھا ہے۔کوئی تین ہفتے قبل امریکہ نے
اس ایشو پر قطر کا سعودی عرب اور عرب امارات سے پیچ اپ کرا دیا ہے۔ اس وقت
سب کی نظر گوادر پر ہیں یعنی اسوقت فوکل پوائنٹ گوادر ہے ۔ خبریں گردش میں
ہیں کہ سعودی عرب آئل ریفائنری کے قیام کیلئے گوادر میں اراضی خریدنا چاہتا
ہے اس طرح قطر اور متحدہ عرب امارات بھی گوادر میں مختلف شعبوں میں بھاری
سرمایہ کاری کرکے معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔ پاکستان کو بجلی جیسی اھم
توانائی کے بحران کا سامنا ھے یوں سعودی عرب کیجانب سے یہ امکان ہے کہ وہ
دو عدد بڑے ڈیموں میں سرمایہ کاری کرنے کا اعلان بھی کر دے۔ علاوہ یہ بھی
بازگشت سننے میں آرہی ہے کہ 1950-51میں پاکستان کا ایران سے ایک خفیہ
معاہدہ ہوا تھا کہ پاکستان گوادر میں موجود وسیع ذخائر سےتیل نہیں نکالے
گااور نہ ہی کسی دوسرے ملک کو تیل نکالنے کا پروجیکٹ دے گا۔ چونکہ اب گوادر
سے تیل نکالنے کا کام شروع ہو جائیگا تو اس کی پیداوار ایرانی تیل کی
پیداوار سے بڑھ سکتی ھے۔ ماضی میں پاکستان کےساتھ ایران کا خفیہ معاہدہ
کرانے میں اس وقت کے سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا اور ان کی اہلیہ ناہید مرزا
نے اہم رول ادا کیاتھا ،اسکندر مرزا بعد میں پاکستان کے صدر بھی بنے
۔اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید اسلام آباد میں ایرانی ڈیفنس اتاشی کی اہلیہ
تھیں اور بعد میں طلاق لے کر انہوں نے اسکند ر مرزا سے شادی کر لی تھی
،اسکندر مرزا اور ناہید مرزا کی کوششوں سے ہونے والے خفیہ معاہدے کی مدت اب
اس سال 2019ءیا اگلے سال 2020ء میں ختم ہورہی ہے لہذا اب پاکستان گوادر میں
موجود زیر زمین تیل کے ذخائر سے مکمل فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور اس سلسلے
میں سعودی عرب گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کے علاوہ مختلف شعبوں میں
پاکستان کیساتھ تعاون کریگا۔
اس سارے معاملے کو چین اس وقت دیکھ رھا ھے فی الحال کوئی ردعمل یا پاکستان
ہر پریشر نہیں مگر سرد مہری ھے شاید اسی وجہ وہ سی پیک سمیت بلتستان
پراجیکٹ کی تکمیل کے حوالے سے سست نظر آتا ہے کہ بلتستان میں زیر تکمیل
انرجی پروجیکٹ ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا مگر حکومت پاکستان
مستقبل کے حوالے سے مطمئن ھے کہ حالیہ سعودی عرب و دیگر ممالک کی پاکستان
میں انوسٹمنٹ جیسی پیشرفت سے پاکستان کی اکانومی مضبوط ھوگی اور بیرونی
سرمایہ کار بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کیجانب راغب ھونگے اور بیرون
ممالک پاکستانی شہری بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں عار محسوس نہیں
کریں گے کہ انہیں مکمل تحفظ و سہولیات بہم حاصل ھونگی جو پیشتر حکومتوں کی
ناقص پالیسیوں کیوجہ سے حاصل نہ تھیں بلکہ تارکین وطن کو خدشات لاحق تھے جو
اب نہیں ھونگے یوں اس ساری صورتحال میں پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ھے۔
آج پاکستان کو ہرطرف سے سرمایہ کاروں کی ضرورت ھے۔ چین پاکستان کا ایک اچھا
دوست ہے اور وہ بھی اپنی اکانومی کی مضبوطی کیلئے سارے اقدامات کرتا نظر
آرھاھے اور حال ہی میں اس نے سری لنکا کی پورٹ خرید لی اور زیمبیا میں بھی
یہی کیا ۔ملائشیا میں ایسا کرنا چاھتاتھا۔ اسطرح پاکستان کو بھی یہ حق حاصل
ھے کہ وہ اپنی اکانومی کی مضبوطی کیلئے آزادارنہ فیصلے کرے البتہ چین چونکہ
ھمارا اچھا دوست ملک ھے اسلئے اس حوالے سے اسے اعتماد میں لینے میں کوئی
حرج نہیں اور پاکستان آزاد خارجہ پالیسی کے تحت اپنے کارڈ کامیابی سے کھیل
رھا بے جسکی ایک وجہ برسراقتدار حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے پاک فوج
ایک پیج پر متحد ھونا اھم ھے۔ ھماری سیاسی قیادت کو چین کو اعتماد میں لیکر
سی پیک کو کامیاب بنانا چاہئے ۔پاک رشیا اکنامک کوریڈور بھی کھلنا چاہئے
اور سعودی سرمایہ کاری کو بھی آنا چاہیے ۔ہر چیز میں پاکستان کو اپنے
مفادات کو آگے رکھنا ہو گا۔دنیا کا ہر ملک یہی کرتا ہے۔ ہم پہلے امریکہ اور
روس کی کولڈ وار میں بڑا نقصان اٹھا بیٹھے ہیں اور اس وقت بھی ہمارے اطراف
دو عالمی طاقتیں چین اور روس ہیں جبکہ دوسری طرف امریکا ہے ۔ ھمیں گوادر
پورٹ سمیت وھاں موجود آئل و گیس کے بڑے ذخائر سے مکمل استفادہ حاصل کرنا
چاہیئے بلکہ وہاں سے ہی سی پیک کا آغاز ہوناچاہیئے۔ یاد رھے کہ امریکہ
افغانستان میں اس لئے آیا تھا کہ وہ وسطی ایشیائی ریاستوں تاجکستان
،ازبکستان اور ترکمانستان میں تیل و گیس کے ذخائر شناخت کر چکا تھا ۔چین نے
جو سی پیک شروع کیا اسے سلک روڈ کے نام سے امریکہ نے بنانا تھا مگر اسے فی
الحال کامیابی حاصل نہیں ھوئی حالانکہ سوویت یونین بھی گرم پانیوں تک رسائی
کے لئے افغانستان پر قابض ہوا تھا سوویت یونین نے جب افغانستان پر چڑھائی
کی تو اس کا اگلا قدم گرم پانیوں تک رسائی تھا مگر پاکستان اسکی راہ میں
ٹھوس رکاوٹ بنا مگر آج پاکستان خود روس کو دعوت دے رھا ھے تو ثابت ھوا ھے
کہ آج زمینی حالات بدل چکے دنیا لڑائی نہیں بلکہ اپنی اقوام کیلئے امن
کیساتھ ترقی چاہتی ہیں اور یوں پاکستان نے بھی عالمی حالات کے تناظر میں
اچھا فیصلہ کیا جسکے آئندہ ملک و قوم کے حق میں بہترین نتائج برآمد ھونگے۔
پاکستانی ترقی و خوشحالی کیلئے یہ نادر موقع ھے یوں ترقی و خو خوشحالی
کیلئے خارجی ڈپلومیسی اھم بنیادی ضرورت ھے۔ |