سیاحت اگر زرِ مبادلہ کا اہم ذریعہ ہے، تو پاکستان
میں سیاحت کے بے حد مواقع بھی موجودہیں۔ کسی اور سے نہ سہی ، عمران خان سے
سیاحت کے فروغ کی توقع لگا رکھنا دل لگتی بات تھی۔ خیر معاملہ ابھی مایوسی
تک نہیں پہنچا، ابھی امیدوں کے چراغ روشن ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان
بزدار نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سیاحت کے فروغ کے لئے
نئے مقامات متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں ڈیرہ غازی خان کے کوہ
سلیمان کے سیاحتی مقام کو ڈویلپ کرنا، ٹی ڈی سی پی کے ریزارٹس کی تزئین و
آرائش کرنا بھی شامل ہے۔ نئے سیاحتی مقامات کو پروموٹ کرنے کے لئے کیمپنگ
سائیٹس، ہپ سفاری، پیرا گلائیڈنگ اور لوکل ہیریٹیج بازار لگائے جائیں گے،
معاملات کی سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر کی جائے گی۔ اِن مقامات پر پانی ،
سکیورٹی اور دیگر اہم ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا، بجلی کی
دستیابی کے لئے سولر پینل کا جائزہ لیا جائے گا۔ اب وزیر اعلیٰ اور ان کے
اعلیٰ سطحی افسران نے فیصلے کئے ہیں تو یقینا ان پر عمل بھی شروع ہو جائے
گا۔ اس خبر میں دو باتیں نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں، ایک یہ کہ سیاحت کے
لئے نئے مقامات تلاش کئے جائیں گے ، دوسرا یہ کہ اس اجلاس کی حد تک سیاحت
کا یہ فروغ ڈیرہ غازی خان تک محدود ہوگا۔
یہ تو حقیقت ہے کہ جو حکمران بھی آیا، ا س نے ترقی کاد ھارا اپنے علاقے کی
طرف ہی موڑے رکھا ، یہ الگ بات ہے کہ یار لوگوں نے دونوں صورتوں میں اعتراض
کیا، کہ اختیار ملا تو اپنے ’گھر‘ پر ہی اس قدر خرچہ کر دیا، اگر اپنے
علاقے پر خرچ نہیں کیا تو یہ اعتراض کیا گیا کہ اختیار بھی ملا مگر اپنے
علاقے کی ترقی کی توفیق نہ ہوئی۔ دونوں باتیں درست ہیں، مگر اعتدال اور
میانہ روی کی صورت میں کسی کے انگلی اٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ سید یوسف
رضا گیلانی پاکستان کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے جنوبی پنجاب کے ترقیاتی
بجٹ کا پچاسی فیصد صرف ملتان پر تھوپ دیا، فلائی اوور بن گئے، دوسری طرف
پورے جنوبی پنجاب پر صرف پندرہ فیصد خرچ ہوا۔ میاں شہباز شریف کی حکومت تھی
تو اصل خرچ لاہور پر ہی ہوتا تھا، بلکہ دوسرے علاقوں کے فنڈ بھی لاہور
منتقل کر دیئے جاتے تھے۔ اب اگر پسماندہ علاقے کے سیاحتی علاقوں کے فروغ کی
بات ہوئی ہے تو ایک فطری عمل ہے، مگر بات تب بنے کی جب بات آگے بڑھے گی
اورعمل شروع ہوگا۔
سیاحت کے اعتبار سے پاکستان بہت زرخیز اور امیر ملک ہے، مگر افسوس اسی بات
پر ہوتا ہے کہ جن کاموں پر کچھ سرمایہ خرچ کرکے انہیں مستقل آمدنی کا ذریعہ
بنایا جاسکتا ہے، اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں
ایسے بہت سے مقامات موجود ہیں، جن کی مرمت اور آرائش وزیبائش کرکے اسے
سیاحت کے لئے کھولا جاسکتا ہے۔ صدیوں پرانے قلعے، محلات اور ایسے ہی دیگر
مقامات سیر گاہ بننے کی بجائے کھنڈروں کا روپ دھار رہے ہیں، ستم یہ ہے کہ
کھنڈروں کے دیکھنے کے لئے بھی کوئی بندوبست نہیں، جس کی وجہ سے ایسی
عمارتیں اپنا وجود کھو رہی ہیں۔ پاکستان میں آثارِ قدیمہ کے بہت سے آثار
ہیں، جو حیرت کدوں کی صورت موجود ہیں، مگر وہاں بھی سہولیات کا سخت فقدان
پایا جاتا ہے۔
جنوبی پنجا ب میں بہاول پور سیاحتی حوالے سے بہت پُر کشش مقام بن سکتا ہے،
یہاں عباسی خاندان نے صدیوں حکومت کی، ان کے دور میں محلات تعمیر ہوئے، جو
خاندان کے باہمی تنازعات کی وجہ سے کھنڈرات کا روپ دھار رہے ہیں، کچھ پاک
فوج کے زیر تصرف ہیں، جو اپنی اصل صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں، اس حقیقت سے
انکار ممکن نہیں کہ اگر فوج ان کی دیکھ بھال کافریضہ نہ نبھاتی تو یہ بھی
کھنڈر ہی بن چکے ہوتے۔ چولستان میں درجنوں قلعے تھے، جن کے آثار ابھی تک
موجود ہیں، انہیں کسی حد تک بہتر کرکے ، وہاں جانے کے لئے راستے بنائے
جائیں تو لوگ وہاں جانے کے لئے بے تاب ہیں۔ چولستان میں ہر سال فروری میں
جیپ ریلی کا انعقاد ہوتا ہے، اب یہ میگا ایونٹ بن چکا ہے، بلا شبہ اس موقع
پر لاکھوں لوگ ریلی دیکھنے آتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ مقامی لوگوں کے لئے
یہ ایونٹ زیادہ فائدہ مند نہیں ہوتا، بلکہ سرکاری سطح پر انتظامیہ اور
’اوپر‘ سے آنے والے ٹھیکیدار وغیرہ ہی منافع کماتے ہیں۔ اس ریلی سے جُڑی
ہوئی دیگر تاریخی عمارات کو بھی سیاحت کے قابل بنایا جاسکتا ہے اور ان کی
تشہیر کی جاسکتی ہے، تاکہ سیاحوں کی دلچسپی کا موجب بن سکیں، اب سوشل میڈیا
کی بدولت کوئی مقام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل نہیں، بات اس کو نکھارنے اور
وہاں سہولیات بہم پہنچانے کی ہے۔ہر علاقے کی طرح ڈیرہ غازی خان میں بھی
ایسے مقامات موجود ہیں، جن میں فورٹ منرو خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، ایک
عرصہ سے یہاں چیئر لفٹ کی خبر سنتے آ رہے ہیں، مگر نصیب اس لئے نہیں جاگے
کہ یہ پسماندہ اور دور دراز علاقہ ہے، حکومتوں نے معاملہ صرف اعلانات تک ہی
اٹھا رکھا ہے، یہاں سٹرکیں تک درست حالت میں موجود نہیں، اگر حکومت بھر پور
توجہ دے تو یہ علاقہ جنوبی پنجاب کی ’’مری‘‘ کہلا سکتا ہے۔ اب وزیراعلیٰ
پنجاب معاملات کو زیادہ پھیلانے کی بجائے فورٹ منرو پر اپنی توجہ مرکوز
کردیں تو پورے جنوبی پنجاب کے عوام کے لئے یہ ایک گراں قدر تحفہ ہوگا، تاہم
زیادہ توجہ پرانے مقامات کو بحال کرنے کی طرف دی جائے تو زیادہ آسانی رہے
گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا وزیراعلیٰ اپنے علاقے کے لئے کچھ فنڈز حاصل
کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، یا پھر حسبِ سابق لاہوری گروپ ہی حاوی رہتا ہے۔
|