چند روز ایران میں (دوسری قسط)


دوسرے دن ہمارا پروگرام آستانہ رضوی میں قائم ریسرچ سنٹر کا وِزٹ تھا اور دو پہر کے کھانے کی دعوت بھی آستانہ رضوی کی طرف سے مو صول ہو چکی تھی ۔جس ہوٹل میں ہم قیام پذیر تھے، ان کا سٹاف بہت با اخلاق اور شگفتہ گو تھا اگر چہ ہم فارسی نہیں سمجھتے تھے اور وہ انگریزی یا اردو نہیں سمجھتے تھے لیکن صبح صبح ناشتے کی میز پر ان کی مسکراہٹ دل و دماغ پر ایک خوشگوار اثر کا باعث بن جاتی تھی۔ہم ناشتے سے فارغ ہوئے تو ہمارا پروٹوکول آفیسر جسے آپ گائیڈ بھی کہہ سکتے ہیں ،پہنچ چکا تھا ،مترجم ،جو پاکستانی تھا، پہلے سے ہمارے ساتھ ہی ہو ٹل میں قیام پذیر تھا، انہوں نے ہمیں باہر چلنے اور گاڑی میں سوار ہو نے کو کہا ، ہم ہوٹل سے باہر نکلے تو اندازہ ہوا کہ مشہد کی ٹھنڈی ہوائیں ہمیں خوش آمدید کہنے کو بے تاب ہیں کیونکہ ہوٹل کے اندر درجہ حرارت کافی گرم اور پسندیدہ تھا مگر باہر کا درجہ حرارت پشاور سے کافی کم تھا ۔بحر حال ہم باہر کھڑے کوچ میں سوار ہو گئے ۔جس میں ہیٹر آن تھا اور ٹھنڈی ہواوٗں کا وہیں کوئی گزر گاہ نہیں تھا ۔تھوڑی دیر کے بعد ہم آستانہ رضوی پہنچے ۔ جس کے بلند و بالا سنہری مینار دور سے دعوتِ نظارہ دے رہے تھے۔گائیڈ آگے ہم اس کے پیچھے مین گیٹ سے آستانہ میں داخل ہو ئے ۔بائیں ہاتھ کی دوسری منزل پر وہ ریسرچ سنٹر تھا ،جوں ہی ہم نے د وسری منزل میں قدم رکھاتوایک خوش شکل اور خوش لباس نوجوان نے ہمارااستقبال کیا اور ہمیں ایک خوبصورت کمرے میں داخل ہو نے کا اشارہ کیا ۔کمرے میں داخل ہو تے ہی وہاں کے سربراہ نے ہمیں خوش آمدید کہتے ہوئے کرسیوں پر بٹیھنے کو کہا ،ہم نے ’تشّکر تشّکر ، اور ممنون ممنون کہہ کر اس کا شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے ہمیں بریفنگ دی اور بتایا کہ کس طرح ان کے ہاں کام ہو تاہے اور کس طرح مختلف مراحل سے گزر کر کتابیں چھپتی ہیں ۔ساتھ ہی سامنے رکھے میز پر ایرانی چائے جو رنگت میں سرخی مائل ہو تی ہیں ،رکھ دی گئی۔ایرانی چائے ایسی ہوتی ہے جیسے ہمارے ہاں بغیر دودھ کے کالی پتّی میں چائے تیار کی جائے۔ وضع داری کا تقاضا تھا کہ اسے پیا جائے ویسے چائے میں جب چاہت موجود ہو تو اچھی لگتی ہے ۔سو ہم نے چسکیاں لے لے کر نہ صرف وہ چاہت بھری چائے نوش کی بلکہ ساتھ رکھے ہوئے بسکٹ اور کیک وغیرہ سے بھی لذّتِ دہن میں اضافہ کیا وہاں اس ہال نما کمرے میں الماریوں میں کتابیں ترتیب سے رکھی ہوئی دعوتِ اقرء دے رہی تھیں مگر افسوس کہ ہمیں فارسی پڑھنی نہیں آتی تھیں ۔لہذا ہم نے اردو کتب کے بارے استفسار کیا ، انہوں بعد از بریفنگ اور تعارف ، نیچے والی منزل دیکھنے کی دعوت دی جہاں اردو کتب بھی موجود تھیں ، پس ہم وہاں گئے جہاں اردو کتب کی ورق گردانی کی اور کچھ نادر کتابیں بطورِ گِفت وصول کیں ۔

وہاں سے ہم نے لنگر خانے کی راہ لی کیونکہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا ، ہمارے ہاتھوں میں لنگر خانے میں داخل ہو نے کے لئے ٹکٹیں تھما دی گئیں ۔واضح رہے کہ اس لنگر خانے میں کھانے کے لئے بڑی بڑی شخصیتوں کو بھی موقع نہیں ملتا ہے۔کیونکہ اس کھانے کا ذرّہ ذرّہ تبّرک سمجھا جاتا ہے۔تیسری منزل پر واقع ہم ایک بہت بڑے ڈائیننگ ہال میں داخل ہوئے ، یہ ایک بہت بڑا وسیع اور کشادہ ہال تھا جہاں ایک بڑی تعداد زائرین،جس میں ایک بڑی تعداد کالی برقعوں میں ملبوس خواتین بھی تھیں، کھانے کے لئے میزوں کے ارد گرد براجمان تھی ۔ٹرالیوں میں خدام کھانا لا لاکر میزوں پر رکھ رہے تھے، کوئی شور و غو غا نہیں تھا کسی کو کوئی جلدی نہیں تھی ، انتظامات اتنے عمدہ تھے کہ دل میں یہ آرزو پیدا ہو ئی کہ کاش ہمارے ہاں بھی شادی ہالوں یا دیگر بڑے کھانوں کے مو قعہ پر ایسا ہی حسنِ انتظام ہو اور لوگوں میں صبر و تحمّل کا مظاہرہ ہو ۔

وہاں سے فارغ ہوئے تو واپس ہوٹل جانے کا پروگرام بنا یاتاکہ شام کو کچھ شاپنگ بھی ہو سکے۔مگر ہمارے تین ساتھیوں نے بمعہ مترجم وہاں ٹہرنے اور کچھ تصاویر لینے کی درخواست کی جبکہ راقم الحروف بمعہ اپنے دیگر دو سا تھیوں اور گائیڈ کے چل پڑے ۔ہم جوں ہی بارگاہ کے مین گیٹ سے باہر نکل کر روڈ کراس کر رہے تھے تو ایک تیز رفتار مو ٹر سائیکل سوار بریک لگاتے ہو ئے راقم الحروف کے بائیں ٹانگ سے جا ٹکرایا ۔اﷲ کا فضل و کرم تھا کہ ہڈی بچ گئی مگر بچپن میں استاد ’کھال اتارنا ‘ کے جو معنی بتایا کرتے تھے ، اس وقت وہ معنی غلط ثابت ہوئی کیونکہ موٹر سائیکل کے ٹکر سے سچ مچ ٹانگ سے چند مربع سنٹی میٹر کھال اتر گئی تھی۔ ہم نے اپنے گائیڈ سے ہسپتال جانے کی درخواست کی مگر وہ اردو، انگریزی سے ناواقف اور ہم فارسی سے نا بلد، کچھ اشاروں ،کنایوں اور زخم دکھا کر اپنا مدّعا بیان کرنے کی کو شش کی مگر بے سود رہا ،اور ہمیں ہوٹل لے جایا گیا جہاں ہمارے مہربان ساتھی اور دوست ، معروف جرنلسٹ شمیم شاہد ‘ جو ہیومن رائیٹس کمیشن ‘ سے بھی وابستہ ہیں،نے مرہم پٹّی کی اور مجھے اپنے کمرے تک پہنچایا۔کمرے میں جا کر نہ صرف یہ کہ نماز پڑھی بلکہ شکرانے کے دو نفل بھی ادا کئے کہ اﷲ تعالیٰ نے پرائے دیس میں بڑی مصیبت سے بچا لیا۔۔(بقیہ قسط نمبر 3پر )
 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284835 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More