یہ کیا کرشمہ ہوا کہ امریکہ صدر ٹرمپ پاکستانی قیادت سے
ملاقات کے منتظر ہیں ۔ اس سے قبل امریکہ ، پاکستان کی قیادتوں ٹرمپ ، عمران
طرفین سے ایسے ایسے ٹویٹر بیانات سامنے آئے جن کی شدت اس قدر غیر پارلیمانی
تھی کہ الامان الحفیظ کہ جن کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی ۔ یہ کہا
جاسکتا ہے کہ پاکستانی قیادت نے تو اپنے دفاع میں بیانات دیئے مثلا ً ٹرمپ
کسی ملک کا نام بتائیں جس نے افغان مسئلہ پر اتنی قربانیاں دی ہوں ۔ ہم نے
افغانستان میں امن کے لیے سب سے زیادہ اقدامات کیے ہیں ۔ ریکارڈ کی درستی
کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کبھی بھی نائن الیون میں ملوث نہیں رہا لیکن اس
کے باوجود بھی پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا ،ا
س جنگ میں 75ہزار جانوں کی قربانی دی اور 123ارب ڈالر کا مالی خسارہ برداشت
کیا جبکہ امریکی امداد صرف 20ارب ڈالر کی تھی ، اس جنگ میں پاکستانی قبائلی
علاقہ جات تباہ ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھر دوسری طرف ٹرمپ بہادر تمام
سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیا ٹویٹ کرتے ہیں ۔
’’پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جو امریکہ سے لیتے تو ہیں لیکن جواب میں
دیتے کچھ نہیں ‘‘ پاکستان گذشتہ ڈیرھ دہائی میں ا ربوں ڈالر امداد لینے کے
باوجود امریکہ کو سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا ۔ یہ ٹرمپ ہی تھے
جو آئے روز پاکستان سے ڈو مور ڈو مور کی گردان پڑھتے نہیں تھکتے تھے اور
بھارت کو خطہ میں بڑا سیکیورٹی کردار سونپنے کی بات کرتے تھے طاقت کے نشے
میں مست ٹرمپ ہی تھے جو جنوبی ایشیاء کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں
پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اب پاکستانی دہشت گردوں کی
قائم پناہ گاہوں کے کے معاملے پر مزید خاموش نہیں ر ہ سکتا ۔ یہی امریکہ
بہادر ہی تھا جو پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کرنیوالا ملک قرار دینے کا
مطالبہ کررہا تھا ۔ یہی ٹرمپ ہی تھے جو کہتے تھے کہ وہ افغانستان سے اپنی
فوج جلد واپس بلالیں گے پھر کہا کہ وہ عراق والی غلطی نہیں دہرائیں گے اور
اس وقت تک افغانستان میں موجود رہیں گے جب تک جیت نہ جائیں ، یہ بھی الفاظ
ٹرمپ ہی کے ہیں ’’ سیدھی بات ہے کہ پاکستان ہمارا دوست نہیں ‘‘
لیکن حال ہی میں ٹرمپ نے پاکستان کی ہر طرح سے ہرزہ سرائی کے بعد عمران خان
کو بذریعہ خط درخواست کی ہے کہ افغانستان میں امن کی خاطر پاکستان امریکہ
کی مدد کرے ۔
دنیا میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی قدرو منزلت کا اندازہ امریکی سینٹرل کمانڈ
کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل اور تجزیہ نگاروں کے بیانات سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ امریکہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق حکمت عملی سے یہ بات بھی شامل
ہے کہ مستقبل میں افغانستان سے متعلق کسی بھی امن سمجھوتے کی صورت میں
پاکستان کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ
امریکہ کے اعلی فوجی کمانڈر کا بیان افغان تنازعہ کے حل کے لیے پاکستان کے
اہم کردار کے تناظر میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں مثبت پیش رفت کی نشاندہی
کرتا ہے ۔ سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف نے حالیہ دنوں سینیٹ کی مسلح
افواج سے متعلق کمیٹی کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کی سیکیورٹی
امداد معطل کرنے کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون جاری رہا ۔
جنرل جوزف نے کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ کے لیے پاکستان کی
اہمیت صرف اور صرف افغان تنازعہ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کے بقول ایک
جوہری ملک ہونے کے ناطے پاکستان کا محل وقوع ایک ایسے خطے میں ہے جہاں روس
، چین اور ایران ، افغانستان واقع ہیں اور یہ خطہ جو امریکی مفادات کے لیے
بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ جنرل ووٹل کے بقول اس تناظر میں پاکستان امریکہ کے
لیے ایک اہم ملک کا درجہ رکھتا ہے ۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں
ا مریکہ پاکستان کے بجائے بھارت کے زیادہ قریب ہوگیا تھا جس سے افغانستان
میں بھارت کی بے حد مداخلت دیکھی جارہی تھی ، جسکی پاکستان مسلسل نشاندہی
کرتا چلا آرہا تھا مزید افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری منہ چھڑ کر بول
رہی تھی تجزیہ کاروں کے نزدیک امریکہ ، بھارت تعلقات میں سرد مہری کی وجوہ
بھارت ،ر وس قرابت اور بھارت کا روس کے ساتھ ایس 400میزائل کا معاہدہ اور
اس کے ساتھ وہ ایران سے بھی تیل خرید کررہا ہے اس صورت حال میں بھارت سے
امریکہ کچھ زیادہ خوش نہیں ہے جبکہ افغان تنازعہ کے پر امن حل کے لیے اب
امریکہ پاکستان کے کردار کو اہم خیال تصور کرتا ہے ۔ پاکستان افغانستان میں
امن و استحکام کا شدید خواہش مند ہے۔ امریکہ بھی 17سالہ طویل دورانیہ جنگ
کا خاتمہ کرکے افغانستان کی خونی دلدل سے نکلنا چاہتا ہے تو پھرپاکستان اس
کے لیے بھرپور کردار کرکے دنیا میں پاکستان اپنی حیثیت کو منوانے کا موقع
ہاتھ سے جانے نہیں دے گا ۔
کیونکہ اب پاکستان کا کردار کھل کر سامنے آرہا ہے جس سے دنیا میں پاکستان
کی اہمیت وافادیت ابھر کر سامنے آئی ہے ۔ تمام تر کشیدہ تعلقات اور
پابندیوں ، الزمات اور امداد کی معطلی کے باوجود امریکہ بہادر افغان مسئلہ
پر پاکستان کا محتاج ہے ۔ ٹرمپ بہادر کی ٹیم میں زلمے خلیل زاد وہ شخصیت
ہیں جو ماضی میں ہمیشہ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوانے کے لیے لابنگ
کرتے آئے ہیں ۔ اگر پاکستان دشمن شخصیات کی فہرست مرتب کی جائے تو یہ زلمی
خلیل ٹاپ ٹن میں آتے ہیں اب افغان امن مذاکرات میں پاکستان کے کلیدی کردار
کے حوالے سے اعتراف میں فرماتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات
میں پاکستان کی سہولت کاری کو سراہتے ہیں ، پاکستانی کردار کی تعریف کے
ساتھ ساتھ مزید درخواست گزار ہے کہ امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان مزید
کردار ادا کرے ، مزید کردار سے مراد یہ ہے کہ پاکستان طالبان کو افغان
حکومت سے مذاکرات کے لیے امادہ کرے ۔ طالبان کا بل حکومت کو امریکی اور
بھارتی کٹھ پتلی حکومت گردانتے ہوئے مذاکرات سے انکار کرتے آرہے ہیں ۔ بقول
ز لمے خلیل کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے ۔ پاکستان
کی مفاہمت کی کوششوں کی وجہ سے آج پاکستان ایک اہم ملک کی حیثیت اختیار
کرگیا ہے ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے بجائے بھارت
کو ترجیح دی ہے مگر ہر مشکل وقت میں پاکستان نے امریکہ کے لیے ایسے اقدامات
اٹھائے ہیں جو باقی اقوام سوچ بھی نہیں سکتیں ، چین کے ساتھ تعلقات قائم
کرانے ہوں یا طالبان جیسی غیر لچکدار روئیے کی حامل قیادت کو مذاکرات کی
میز پر لانا ہو یہ پاکستان کا ہی کمال ہے ، نہ ہی امریکی خوشنودی مطلوب ہے
اور نہ ہی افغانستان پر کوئی احسان بلکہ قیام امن خطے سمیت پاکستان کی اپنی
بنیادی ترجیح ہے کیونکہ امن ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ترقی کے روشن باب
کھلتے ہیں ۔
افغان صدر اشرف غنی جو پاکستان دشمنی اور بھارت نوازی میں اچھی خاصی شہرت
رکھتے ہیں وہ موصوف بھی وزیر اعظم عمران کو فون کرکے شکریہ ادا کرنے پر
مجبور ہیں کہتے ہیں کہ پاکستان کے مثبت کردار کا اعتراف کرتے ہیں اسی افغان
صدر کے خصوصی ایلچی عمر داؤد زئی حالیہ دور ہ پاکستان میں بی بی سی کو ایک
خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر وہ حال کے پاکستان کو دیکھیں تو کہا
جاسکتا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستانی رویہ تبدیل ہوچکا ہے ۔ میں
ماضی میں نہیں جانا چاہتا ، لیکن حال میں بہت سارے شواہد موجود ہیں کہ
پاکستان افغانستان مذاکرات میں مثبت کردار ادا کررہا ہے ۔ ایلچی کے بقول
نئی حکومت اور اسٹبلیشمنٹ ایک پیج پر ہیں ۔ ایسے حالات میں پاکستان کے ساتھ
ایشوز پر بات کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ بہتر سفارت کاری کا کریڈٹ عمران
انتظامیہ اور خاموش سفارت کاری کا کریڈٹ آرمی چیف جنر ل باجوہ کو جاتا ہے ۔
ان حالات میں امید واثق ہے کہ افغان مسئلہ کے حل میں پاکستانی کردار اور
رائے کو خصوصی اہمیت حاصل رہے گی ۔ تو کہا جاسکتا ہے کہ افغان امن مذاکرات
میں عمران انتظامیہ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے انکار ممکن نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |