سعودی عرب کے ولی عہدمحمدبن سلمان کاپاکستان کاصرف دورہ
ہی نہیں تھا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات اورمحبتوں کانیاباب
تھا محمدبن سلمان نے متاثرکن جملوں ،چہرے پرسجی مسکراہٹ اورباوقاراندازسے
پاکستانی قوم کے دل جیت لیے ،انہیں اہل پاکستان کی طرف سے بھرپورپذیرائی
ملی ، محمدبن سلمان کے ولی عہدنامزدہونے کے بعد پاکستان کایہ پہلاسرکاری
دورہ تھا جوتوقع سے زیادہ کامیاب رہا۔شہزادہ محمدبن سلمان کاشکریہ اداکرتے
ہیں کہ جس نے اہل پاکستان سے بھرپوراپنائیت کااظہارکیااور لازوال محبتوں سے
نوازا،محمدبن سلمان نے اگرچہ طویل دورانیے کی گفتگونہیں کی مگران کے محبت
بھرے چندجملوں نے سب کواپناگرویدہ بنادیامحمدبن سلمان نے قیدیوں کے مسئلے
پرکہاکہ سعودی عرب میں مجھے پاکستان کا سفیر سمجھیں اور ہم پاکستان کو
انکار نہیں کر سکتے ، ان کے یہ جملے پاکستان سے بھرپورمحبت کااظہارتھے
انہوں نے یہ محبت صرف الفاظ تک محدودنہیں رکھی بلکہ چندگھنٹوں میں اس پرعمل
کرتے ہوئے 2107قیدرہاکرنے کااعلان کرکے قوم کوبڑی خوشخبری بھی سنائی ۔
محمدبن سلمان نے یہ بھی کہاکہ پاکستان میں20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری محض
ابتدا ہے ،دونوں ممالک کے تعلقات بہت آگے جائیں گے،2018میں پاکستان کی
معیشت نے 5 فیصد کی شرح سے ترقی کی ہے، اس لئے ہمیں یقین ہے کہ پاکستان
مستقبل کی اہم معیشت ہے پاکستان کی قیادت، عوام اور پاکستان کے اتحادی ملک
کو ایک دن اہم معیشت بنائیں گے پاکستان 2030 میں چین اور بھارت کے بعد
تیسری بڑی معیشت ہوگی ہم پاکستان کے شاندار مستقبل پر یقین رکھتے ہیں
پاکستان گھرجیساہے ترقی کے سفرمیں پاکستان کے ساتھ ہوں گے تعاون جاری رہے
گا ۔اہل پاکستان نے بھی ولی عہدکی محبت کاجواب محبت سے دیاحکومت اوراپوزیشن
کی تمام جماعتوں کی طرف سے ولی عہدکے دورے کابھرپوراندازمیں خیرمقدم
کیاگیازندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افرادنے ولی عہدکوخوش
آمدیدکہا،ایوان صدر میں ہونے والی پروقار تقریب میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف
علوی نے محمد بن سلمان کو ملک کا اعلی ترین سول اعزاز نشان پاکستان عطا کیا۔
محمدبن سلمان کے دو روزہ دورہ پاکستان کے موقع پرجہاں 20 ارب ڈالرز مالیت
کے کئی معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے ہیں۔وہیں اس
دورے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹجک اور دفاعی تعلقات بھی
مضبوط بنانے کے نئے اہداف مقررکیے گئے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان
مختلف شعبوں میں یادگار تعلقات کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ دونوں
ملکوں کے درمیان دیگر شعبوں کے ساتھ کئی عشروں سے عسکری میدان میں بھی
تابناک تعلقات چلے آ رہے ہیں۔دونوں ملکوں نے سنہ 1982 میں پہلی بار عسکری
تعاون کے پروٹوکول پر دستخط کیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاک فوج کے 1680
افسر و جوان سعودی عرب میں تعینات ہیں جبکہ مزید 1460 افسران و جوانوں کی
سعودی عرب روانگی کی حتمی منظوری کا انتظار ہے۔پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول
میں اس وقت سعودی فورسز کے 77 افسران زیر تربیت ہیں، 1992 میں مشترکہ دفاعی
تعاون کا معاہدہ طے پایا۔ 2008 میں سعودی عرب اور پاکستان نے مشترکہ فوجی
مشقیں شروع کیں۔ 2010 میں سعودی عرب کی 'شاہین' مشقوں میں پاک فضائیہ نے
حصہ لیا۔ 2014 کو دونوں ملکوں نے جنگی طیاروں کی تیاری کے ایک مشترکہ
پروگرام کا آغاز کیا۔سال 2017 اور سنہ 2018 کے دوران دونوں ملکوں کی مسلح
افواج نے مشترکہ مشقیں کیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے
تجربات سے استفادہ کیا اورکررہی ہیں۔
پاکستانی سعودی عرب کواپنا دوسرا وطن سمجھا جاتا ہے،پاکستان اور سعودی عرب
میں دوستی اور مضبوط تعلقات کی بنیاد 1951 میں ہونے والا معاہدہ بنا۔ اس
وقت 26 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں روزگار کمانے کے لئے موجود ہیں۔یہ
پاکستانی ملک کو سالانہ 4 ارب 50 کروڑ ڈالر کا زر مبادلہ فراہم کرتے ہیں جب
کہ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی 400 کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کی سرمایہ
کاری کا حجم ایک ارب ریال سے زیادہ ہے۔سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے
18-2017 میں 4.8 ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھجوایا جو کہ دنیا بھرسے
آنے والی مجموعی ترسیلات زر کا 29 فیصد بنتا ہے۔سعودی عرب کی طرف سے ویزہ
فیس میں نرمی اورحالیہ معاہدوں کے بعد روزگارکے نئے دروازے کھلے گیں ۔
گوادر میں آئل ریفائنزی ہو یا سی پیک سے جڑے دوسرے پراجیکٹ پاکستان میں
سعودی عرب اور دوسرے دوست ممالک سے بھاری سرمایہ کار ی آنے والی ہے۔ روس
گوادر سے گیس پائپ لائن بچھانے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے ، وہ 10 ارب ڈالر
کی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے۔۔ چین ، پاکستان، روس اور سعود ی عرب خطے کی
معاشی ترقی میں ایک پائیدار کردار ادا کرنے جارہے ہیں جب کہ روس پاکستان
تعلقات دشمنی اور دوری کے بعد اسٹرٹیجک تعلقات میں ڈھل چکے ہیں۔سعودی عرب
سی پیک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تین ائیر لائنز شروع کرنے کا منصوبہ بنا چکا
ہے جس سے اس کی رسائی چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک ہو جائے گی۔اس کے
علاوہ گوادر کو عمان سے ملانے کے لیے زیر سمندر ریلوے ٹنل یا پل بنانے کی
تجویز بھی زیر غور ہے۔ پاکستان میں ہو نے والی سرمایہ کاری ایک اندازے کے
مطابق مستقبل میں 60 ارب ڈالر تک ہونے کا امکان ہے ۔افغانستان سے امریکی
انخلاء اورپاک بھارت کشیدگی خطے کے حالاات پراثراندازہورہے ہیں،ایسے حالات
میں پاکستان اورسعودی عرب کو ایسی پالیسی اختیار کرنا ہوگی جس میں عالم
اسلام کے مسائل کاحل موجود ہو اس کے ساتھ علاقائی طاقتوں کے ساتھ اتحاد اور
مضبوط روابط کی کوشش بھی کرناہوگی اسی کی طرف سعودی وزیرخارجہ عادل
الجبیرنے اشارہ کیا ۔
سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ
مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کو خیرات نہیں دے رہے
بلکہ سرمایہ کاری کررہے ہیں جس میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے، اگر ہمیں
پاکستان پر یقین نہ ہوتا تو کبھی سرمایہ کاری نہ کرتے، سعودی وزیر خارجہ نے
کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ایران خود دہشتگردی برآمد کرنے والا ملک ہے لیکن
دوسروں پر دہشت گردی کا الزام لگارہا ہے، ایرانی وزیر خارجہ دہشت گردی کے
پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں، انقلاب ایران کے بعد سے ایران دہشت گردی کا سب سے بڑا
پشت پناہ ہے جس نے لبنان میں حزب اﷲ اور یمن میں حوثی جیسی دہشت گرد
تنظیمیں بنائی ہیں، امریکا اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک میں دہشت گردوں
حملوں میں ایران ملوث رہا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کو اسلحہ اور گولہ بارود
فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی جانب سے یمن، شام اور دیگر ممالک
کے داخلی معاملات میں مداخلت کی جاتی ہے، لیکن ایرانی حکومت کو خود اپنے
عوام کی مخالفت کا سامنا ہے۔ افغانستان میں استحکام سے پاکستان اور سعودی
عرب سمیت پورے خطے کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی
کا خاتمہ چاہتے ہیں، پاکستان اور بھارت اپنے مسائل اور تنازعات کو دوطرفہ
انداز میں پرامن طور پر حل کریں۔
ؒ اس دورے کی کامیابی میں پاکستان میں متعین سعودی سفیرنواف سعیدالمالکی
کابھی بہت کردارہے جنھوں نے نہ صرف اس دورے کے اہتمام میں
اپنابھرپورکرداراداکیابلکہ نہایت سلیقہ مندی سے تمام پروگرامات کی نگرانی
کی ،وہ جب سے آئے ہیں پاک سعودی تعلقات کی مضبوطی میں پیش رفت ہوئی ہے ۔پاکستان
اور سعودی عرب کے باہمی تزویراتی تعلقات کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی ان
ملکوں کی تاریخ ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا حالیہ
تاریخی دورہ بھی دونوں ملکوں کے انہی تعلقات کی کڑی تھی۔ سعودی ولی عہد کا
دورہ پاکستان دونوں ملکوں بالخصوص پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے اہم
سنگ میل ثابت ہوگا۔ |