بھارت میں پاکستانی فنکاروں کی
تذلیل کب تک
امن کی آشا کا خواب ، دوستی اور ہم ایک ہیں کا نعرہ کھوکھلا اور زمینی
حقائق سے بہت دور ہے۔ اس کا اندازہ ان عناصر کو ہوجانا چاہیئے جو کشمیر میں
بہنے والے لہو کو موسیقی رقص اور فلموں کے حوالے سے بھلانا چاہتے ہیں۔
بھارت کا اصل چہرہ وہی ہے، جو ممتاز گلوگار راحت فتح علی خان کے گرفتاری کے
بعد سامنے آیا ہے۔
پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان کو ایک لاکھ 24ہزار ڈالر برآمد ہونے پر
نئی دہلی ایئرپورٹ پر گرفتاری کے بعد اب چھوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن ان کا
پاسپورٹ ان سے لے لیا گیا ہے اور انھیں بھارت چھوڑنے کی ممانعت کردی گئی ہے۔
ریونیو انٹیلی جنس حکام راحت فتح علی خان سے برآمد ہونیوالی رقم کے حوالے
سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ راحت فتح علی خان کا کہنا ہے کہ انہیں دہلی
ایئرپورٹ پر ایک بھارتی نجی کمپنی کے عہدیدار کی جانب سے رقم فراہم کی گئی
لیکن انہیں قانون کا علم نہیں تھا کہ رقم کے بارے میں پہلے سے کسٹمز حکام
کو بتانا ضروری ہوتا ہے۔ دہلی ایئرپورٹ پر بھارتی کسٹمز نے پوچھ گچھ کے لئے
ریونیو حکام کو طلب کرلیا جنہوں نے گلوکار سے تفتیش کے بعد انہیں گرفتار کر
لیا ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ان کے طائفے میں شامل دیگر16افراد کو بھی
حراست میں لے لیا گیا ہے۔ادھر پاکستان کے وزیرداخلہ رحمن ملک نے راحت فتح
علی کو نئی دہلی ایئرپورٹ سے حراست میں لئے جانے کی اطلاع پر نئی دہلی میں
موجود پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور شاہد
ملک سے راحت فتح علی کے متعلق تفصیلات طلب کیں،رحمن ملک نے ہائی کمشنر کو
خود صورتحال کی نگرانی کرنے اور راحت فتح علی کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے
کی ہدایت کی۔بھارت میں پاکستانی فنکارون کی اہانت کا یہ کوئی نیا واقعہ
نہیں ہے۔ راحت فتح علی خان کے خلاف گزشتہ سال جولائی میں بھارتی شہر گڑ
گاؤں میں ایک تھانے میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی جو ایک پروگرام کے
منتظمین نے درج کرائی تھی۔ اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا تھا کہ راحت فتح
علی خان نے ایک شو میں پرفارم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ شو میں نہیں
آئے جبکہ انہیں معاوضہ پیشگی ادا کیا گیا تھا۔ نئی دہلی کے ایک صحافی کے
مطابق عین ممکن ہے کہ راحت فتح علی خان کو مذکورہ کیس کے حوالے سے بھی
گرفتار کرلیا جائے گا۔ راحت فتح علی خان کو بھارت میں زبردستی روک لیا گیا
ہے۔ یہ پاکستان اور فن کی توہین ہے۔
راحت نصرت فتح علی خان یا صرف راحت فتح علی خان (فیصل آباد میں 1974ء کو
پیدا ہوئے۔ وہ ایک پاکستانی موسیقار اور گلوکار ہیں۔ وہ بنیادی طور پر
پنجابی قوالی کے ایک گلوکار ہیں۔ وہ استاد نصرت فتح علی خان کے بھتیجے ہیں۔
قوالی کے علاوہ بھی وہ غزل اور ہلکی پھلکی موسیقی گاتے ہیں۔ وہ بڑے پیمانے
پر پاکستان، بھارت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کا دورہ کر کے اپنی کارکردگی کا
مظاہرہ کر چکے ہیں راحت فیصل آباد میں 1974ء میں روایتی موسیقاروں کے ایک
خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام فرخ فتح علی خان تھا۔ انہوں
نے کلاسیکی موسیقی اور قوالی کے فن میں اپنے چچا نصرت فتح علی خان سے تربیت
حاصل کی تھی۔۔راحت کا پہلا عوامی فنی مظاہرہ دس یا گیارہ برس کی عمر میں
ہوا جب انہوں نے اپنے چچا کے ساتھ 1985 میں برطانیہ کا دورہ کیا، اور قوالی
پارٹی کے ساتھ گانے کے علاوہ سولو گانے بھی گائے۔ 27 جولائی ، 1985ءکو
برمنگھم میں ایک کنسرٹ میں انہوں نے سولو غزل،، مکھ تیرا سوہنیا شراب نالوں
چنگا اے ،،گائی۔ 1985 میں ہائرو تفریحی مرکز کے ایک کنسرٹ میں انہوں نے ایک
سولو گانا ،،گن گن تارے لنگھ گئیاں راتاں ،،گایا۔انھوں نے پاپ (2004) کے ہٹ
گانے من کی لگن سے بالی وڈ میں پس پردہ گلوکار کے طور پر اپنا نام درج
کروایا۔ بالی وڈ فلموں کے گانوں کی وجہ سے وہ ہندوستان میں بھی بہت مقبول
ہیں۔2010ء میں انہوں نے برطانیہ کے ایشیائی موسیقی اعزازات میں "بہترین بین
الاقوامی ایکٹ" کا اعزاز جیتا (AMAs برطانیہ)۔
اپنی منفرد آواز اور اندا ز کی بد ولت با لی ووڈ میں چھا جا نے والے پاکستا
نی گلو کار راحت فتح علی خان اب آ سکر ایورڈ یا فتہ مو سیقار اے آ ر رحمان
کے سا تھ کا م کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ را حت فتح علی خان مشہور با لی
ووڈ ہدا یت کار امتیا ز علی کی آ نے والی فلم راک اسٹار میں اے آ ر رحمان
کی تخلیق کردہ موسیقی پر اپنی آو از کا جا دو جگا ئیں گے۔ اس فلم میں ہیر
وئن کا کر دار بھی ایک پا کستا نی نژ اد ما ڈل نرگس فخری ادا کر رہی ہیں
جبکہ رنبیر کپور ان کے مقابل ہیر و کا کر دا ر نبھا ئیں گے۔ واضح رہے کہ اس
سے قبل نصر ت فتح علی خان اور شیرا ز او پل بھی اے آر رحما ن کے ساتھ کا م
کر چکے ہیں 2010 میں موسیقی کے شعبہ میں راحت فتح علی خان کی کامیابی اور
ان کی شہرت یقیناً دیر تک قائم رہے گی۔ اس سال راحت فتح علی خان کو ابھرنے
اور خود کو دوسروں سے ممتاز ثابت کرنے کا موقع ملا ۔ ان کے کئی گانے شہرت
کی فہرست میں ٹاپ پر رہے۔
فلم 'عشقیہ'کا گانا'دل تو بچہ ہے جی'سال کے ابتدائی مہینوں میں ریلیز ہوا۔
یہ رومینٹک گانا تھا سو اس کی موسیقی ہٹ تو ہونا ہی تھی۔ عموماً رومینٹک
گانے ہٹ ہوجاتے ہیں مگر ہر بار یہ فارمولا بھی کامیاب نہیں رہتا۔ وشال
بھردواج نے اس گانے کو کمپوز کیا تھا۔ آواز کا جادو جگایا تھا راحت فتح علی
خان نے جس نے سننے والوں کے دل جیت لئے۔ گانے میں سنگر کا کمال بھی نمایاں
رہا اور میوزک کا بھی جیسا کہ اکثر راج کپور کے گانوں میں ہوا کرتا تھا۔ایک
اور گانا سجدہ بھی بے حد مشہور ہوا۔ شنکر ،احسان ،لوئے کی خوب صورت کمپوزنگ
سے سجا یہ گانا سننے والوں کو دم بخود کردیتا ہے۔ فلم 'مائی نیم از خان 'کی
شہرت میں قدم بہ قدم چلتا ہوا یہ گانا شنکر مہادیون، ریچا شرما اور راحت
فتح علی کی دلوں کو چھو لینے والی آوازوں میں گندھا ہے۔ یہ گا نا اپنی
خوبصورت موسیقی، طبلاو ڈھولک کی تھاپ اور بہترین گلوکاروں کی وجہ سے اگلے
کئی سال تک سننے والوں کے دلوں پر راج کرتا رہے گا۔
'تیرے مست مست دو نین'
راحت فتح علی کی مترنم آواز اس گانے کو فلم 'دبنگ 'میں "منی بدنام ہوئی"
جیسے سپر ہٹ آئٹم سانگ کی موجودگی کے باوجود سامعین کی توجہ اپنی طرف
کھینچنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ سراسر کمال ہے۔ گانے کی موسیقی واجد اور
ساجد نے ترتیب دی جو آپس میں بھائی ہیں۔ بھارتی فلمی حلقوں میں پاکستانی
فنکاروں کے خلاف ایک محاذ اکثر بنایا جاتا ہے۔ بھارت میں ایک لابی پاکستانی
فنکاروں کی ہندوستانی فلموں میں کام کرنے کی مخالف ہے۔ ان کے مطابق
پاکستانی گلوکاروں کو ہندوستان میں گانے کے مواقع نہیں دینے چاہئیے؟ کچھ
عرصے پہلے اس تنازع کی ابتداء اس وقت ہوئی جب ابھیجیت بھٹاچاریہ نے زی ٹی
وی کے پروگرام ’ایک سے بڑھ کر ایک‘ میں پاکستانی گلوکار مسرت شیخ کی شرکت
پر اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسے کسی پروگرام کے جج بننا نہیں
چاہیں گے جس میں پاکستانی گلوکاروں کو شامل کیا جاتا ہے۔ ابھیجیت شروع سے
ہی ہندوستان میں پاکستانی گلوکاروں کی آمد سے ناخوش رہے ہیں۔اور اسی سبب
انہوں نے سنہ 2003 میں پاکستانی گلوکاروں کو ہندوستان میں گانے پر پابندی
کے لیے عدالت کے دروازے پر بھی دستک دی تھی۔ اس بارے میں زی ٹی وی کے بزنس
چیف ترون مہرہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ ابھیجیت نے مسرت کی شمولیت پر
اعترض کیا تھا۔ابھیجیت بھٹاچاریہ نے زی ٹی وی کے پروگرام ’ایک سے بڑھ کر
ایک‘ میں پاکستانی گلوکار مسرت شیخ کی شرکت پر اعتراض کیا ۔ابھیجیت کی دلیل
تھی کہ ہندوستانی گلوکار بھوکے مر رہے ہیں اور ایسی صورت میں پاکستانی
گلوکاروں کو یہاں مواقع فراہم کیا جا رہا ہے۔ بقول ابھیجیت ’یہ ہمارے لیے
شرم کی بات ہے کہ ہم پاکستانی گلوکاروں سے گوانے کے لیے خود پاکستان جاتے
ہیں جبکہ ہمارے گلوکاروں کو پاکستان میں پروگرام کرنے کی اجازت تک نہیں
ملتی۔‘ پروگرام کے میزبان اور بھوجپوری فلموں کے مشہور اداکار روی کشن کا
کہنا ہے کہ ابھیجیت نے یہ بہت سطحی بات کی ہے اور انہیں اس کا بہت افسوس
ہے۔ روی کشن کے مطابق فن اور فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ پاکستانی فنکار
اگر اچھے ہیں تو انہیں دنیا کے کسی بھی کونے میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے
کوئی نہیں روک سکتا۔کشن کے مطابق ہندوستان کا دل بہت بڑا ہے اور یہاں صرف
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے فنکاروں کو مواقعے دیے جاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی
ان کا مطالبہ تھا کہ پاکستان کو بھی اپنا دامن اور دل کو وسیع کرنا چاہئے۔
فلم انڈسٹری میں ایسے بھی کئی فنکار تھے جو اس تنازعہ سے بچنا چاہتے
ہیں۔گلوکارہ شریا گھوشال نے اس مسئلہ پر کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا ان
کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے اور وہ کیرئیر کے اس سٹیج پر کسی
طرح کے تنازعہ میں پڑنا نہیں چاہتیں۔ دوسری جانب گلوکار شان کا کہنا تھا کہ
ابھیجیت دا کے خیال سے وہ کچھ حد تک متفق ہیں۔شان کے مطابق ابھیجیت دا نے
اپنے کیرئیر میں بہت کچھ حاصل کر لیا اس لیے یہ بات انہوں نے اپنے لیے تو
بالکل نہیں کہی ہے وہ ہندوستان کے اچھے اور نوجوان ٹیلینٹ کو ابھرنے کا
موقع دینا چاہتے ہیں جو پاکستانی بے سرے سنگرز ان سے چھین رہے ہیں۔ فن کی
قدر ہونی چاہیے۔ فنکار پر کسی بھی ملک یا سرحد کا لیبل نہیں ہوتا، ابھیجت
کی یہ بات کہ ان کے یہاں گلوکار بھوکے مر رہے ہیں وہ بہت غلط ہے۔ فنکار کے
فن کی قدر ہوتی ہے اگر اچھا فنکار ہے تو پھر اسے ترقی کرنے سے کوئی روک
نہیں سکتا اور نہ ہی اسے کسی ملک کی سرحد پابند کر سکتی ہے ۔شان کا کہنا
تھا کہ وہ غزل کے شہنشاہ مہدی حسن، غلام علی یا نصرت فتح علی خان کی بے حد
عزت کرتے ہیں اور انہیں واقعی فنکار مانتے ہیں۔شان کو اس بات پر بھی اعتراض
تھا کہ ہندوستان کے فنکاروں کو پاکستان اپنے یہاں آکر پرفارم کرنے کے لیے
ویزا تک نہیں دیتا ہے۔ میوزک ڈائرکٹر ساجد واجد فیم ابھیجیت کے اس ریمارکس
کو ان کی کم ظرفی مانتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فنکار پر کسی بھی ملک یا
سرحد کا لیبل نہیں ہوتا۔ابھیجت کی یہ بات کہ ان کے یہاں گلوکار بھوکے مر
رہے ہیں وہ بہت غلط ہے۔فنکار کے فن کی قدر ہوتی ہے اگر اچھا فنکار ہے تو
پھر اسے ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا اور نہ ہی اسے کسی ملک کی سرحد
پابند کر سکتی ہے۔ ہندوستان کے کئی ٹی وی ریالٹی شوز میں پاکستانی گلوکار
اور فنکار حصہ لیتے رہے ہیں اور مسرت نے اس سے قبل زی ٹی وی کے
شو’سارےگاماپا‘ سنہ دو ہزار سات میں حصہ لیا تھا۔ بھارت میں پاکستانی گانے
ان کی دھنیں اور شاعری چرانے کا بھی رواج عام ہے۔ ۔ بھارت کے فلمی حلقوں
میں بھارتی فلم دبنگ کا ایک مقبول گیت " منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لیئے"
بھی پاکستان ہی سے چوری کیا گیا ہے۔ پاکستان کے گلی کوچوں میں گونجنے والے
اس مقبول گیت کو جب اٹھارہ سال پہلے پاکستانی کے معروف اسٹیج پر فورمر اور
فنکارعمر شریف نے ایک پاکستانی فلم مسٹر چارلی میں قوالی کے طور پر گایا
تھا ۔ اب بھارتی فلم دبنگ میں اس گانے کی دھن پر جس گیت کو شہرت حاصل ہوئی
ہے وہ ایک تنازعہ بن گیا ہے۔ “منی بدنام ہوئی” گانے پر ملائکہ اروڑا نے رقص
کیا ہے عمر شریف کہتے ہیں کے انہوں نے یہ گیت " لڑکا بدنام ہوا حسینہ تیرے
لیئے" خود لکھا تھا اور خود ہی گایا تھا مسٹر چارلی نامی فلم کے فلمساز
پرویز کیفی کا کہنا تھا کہ ان کی فلم کے اس گانے کی دھن بلا اجازت بھارتی
فلم کے گانے میں معمولی ردوبدل کے ساتھ استعمال کر لی گئی ہے جو کہ درست
نہیں ہے۔ پاکستانی موسیقار وزیر افضل کہتے ہیں کہ بھارتی فنکاروں کی طرف سے
پاکستانی گیتوں کی نقل کا یہ واقعہ پہلا نہیں ہے ان کے مطابق خود انکے پانچ
گانے بھارتی فلموں میں کاپی کئے جا چکے ہیں۔ نصرت فتح علی خان اور میڈم
نورجہاں کے کئی گانے بھی بھارت میں کاپی کئے جا چکے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ایک
پاکستانی ہدایت کار شعیب منصور نے "دھن ہماری آپ کے نام ہوئی" کے عنوان سے
ایک ڈاکومنٹری تیار کی تھی اس ڈاکومنٹری میں سو سے زائد ایسے پاکستانی
گانوں کی نشاندہی کی گئی تھی جنہیں بھارت میں کاپی کیا گیا تھا۔پاکستانی
موسیقار وزیر افضل کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے فنکاروں کی طرف سے
گیتوں کی چوری سے اصل فنکاروں کی حق تلفی ہوتی ہے اس لئے حکومتی سطح پر اس
کے تدارک کے لئے کام ہونا چاہیئے مگر ایک پاکستانی نغمہ نگار خواجہ پرویز
کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہمسائے ہیں دونوں کی طرف سے ایسے
واقعات ہوتے رہتے ہیں اس پر زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ان کے مطابق یہ
واقعات پروفشنل بد اخلاقی اور فنی زوال کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔مبصرین کے
مطابق اس گانے کے بولوں کے مطابق اگرچہ منی اور لڑکا بدنام ہوا ہے لیکن اس
گیت کو چرانے والوں کی نیک نامی میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ راحت فتح
علی خان بھارت میں تیزی سے مقبول ہونے والے گلوگار ہیں۔ ان کے پاکستانی
قومی گیت دھرتی دھرتی اور ہم پاکستان زبان زد عام ہیں؛ہندوستان کی ہٹ فلموں
میں ان کے گانے مقبول ہوئے ہیں۔ کئی ہندوستانی فلموں کی کامیابی کا سہرہ ان
کے گائے ہوئے گیت ہیں۔ ان کے ہٹ گانوں میں
میں نے اسے دیکھا ہے
کسی روز ملو
2004 پاپ لال (الاپ)
من کی لگن
2005 کلیگ جیا دھڑک دھڑک
2006 اومکارا نینا
2007 جھوم برابر جھوم بول نا ہلکے ہلکے
2007 اوم شانتی اوم جگ سونا سونا لاگے
2007 نمستے لندن میں جہاں رہوں
2007 آجا نچ لے او رے پیا
2008 سنگھ از کنگ تیری اور
2008 حال دل حال دل
2008 وڈ سٹاک ولا" en:Woodstock Villa کوئی چلا جا رہا ہے
2008 دل کبڈی زندگی یہ (فلم میں خصوصی آمد)
2009 آسماں - دی سکائی از دی لمٹ من بانورا
2009 میں اور مسز کھنہ ربا
2009 بلو باربر جاؤ کہاں
2009 لو آج کل اک دن چڑھیا (سٹار سکرین ایوارڈز میں بہترین گانے کا اعزاز
حاصل کیا)
2009 دیکھ بھئی دیکھ آنکھوں میں کیوں سپنے بھائے ہیں
2009 جگ جیوندیاں دے میلے جگ جیوندیاں دے میلے
2009 لندن ڈریمز خواب جو
2009 دے دنا دن رشتے ناطے
2009 ویر سریلی اکھیوں والے اور سریلی اکھیوں والے (دوگانا)
2010 مائی نیم از خان سجدہ
2010 عشقیا دل تو بچہ ہے جی
2010 تو بات پکی پھر سے
2010 اٹز ونڈرفل آفٹر لائف گم سم
2010 لاہور او رے بندے
2010 بدمعاش کمپنی فقیرا
2010 ورثہ میں تینوں سمجھاواں کی
2010 آئی ہیٹ لو سٹوریز بہاراں
2010 ملیں گے ملیں گے عشق کی گلی
2010 ونس اپان آ ٹائم ان ممبئی تم جو آئے
2010 وئی آر فیملی آنکھوں میں نیندیں
2010 دبنگ تیرے مست مست دو نین
2010 انجانا انجانی آس پاس ہے خدا اور آس پاس ہے خدا - (دوگانا)
2010 آکروش من کی مت
2010 ناک آؤٹ خوشنما سا یہ روشن ہو
جیسے گانے شامل ہیں۔
پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان کو نئی دہلی ائرپورٹ پر 6گھنٹوں کی پوچھ
گچھ کے بعد جس طرح گرفتار کیا گیا، وہ پاکستانیوں کے لئے اہانت آمیز ہے۔ اس
واقعے کے بعد وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر
شاہد ملک کو فون کر کے راحت فتح علی خان کے معاملہ پر معلومات حاصل کی۔ ان
معلومات میں بتایا گیا کہ راحت فتح علی خان کو نئی دہلی ائرپورٹ پر فارن
کرنسی ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔ ان سے ایک لاکھ 24ہزار امریکی
ڈالر برآمد ہوئے۔ بھارتی قانون کے مطابق پانچ ہزار ڈالر سے زیادہ کرنسی ملک
سے باہر نہیں لے جائی جا سکتی۔ راحت فتح علی کے منیجر کو بھی گرفتار کر لیا
گیا ہے۔ ہائی کمشنر شاہد ملک کا کہنا ہے راحت فتح علی کے معاملہ پر بھارتی
حکام سے رابطے میں ہیں۔ ان کو قانونی مدد فراہم کی جائے گی۔ رحمن ملک نے
کہا کہ راحت فتح علی کے معاملہ کا جائزہ لے رہے ہیں اور پاکستان کے ہائی
کمشنر خود نگرانی کر رہے ہیں۔کسٹمز حکام راحت علی خان سے پوچھ گچھ کر رہے
ہیں کہ یہ کرنسی ان کے پاس کہاں سے آئی اور وہ یہ کہاں لے جانا چاہتے تھے؟۔
کسٹمز حکام اس بات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اس حوالے سے ٹیکس بھی
جمع کرایا گیا ہے یا نہیں؟۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق راحت فتح علی کا کہنا ہے
انہیں دلی ائرپورٹ پر ایک بھارتی نجی کمپنی کے عہدیدار کی جانب سے رقم
فراہم کی گئی لیکن انہیں اس قانون کا علم نہیں تھا کہ کسٹمز حکام کو بتانا
ضروری ہوتا ہے، چتریش واستو نے نجی کمپنی کی طرف سے راحت کو ائرپورٹ پر
پیسے دئیے تھے اور وہ نئی دہلی سے واپس ممبئی جا رہا تھا۔ ریڈیو مانیٹرنگ
کے مطابق بھارت کے ماہر قانون مسٹر تلسی نے کہا ہے راحت فتح علی خان کو اب
واپس پاکستان بھیج دیا جائے گا انہیں بھارت میں روکے رکھنے یا مقدمہ چلائے
جانے کا امکان نہیں ہے۔ راحت فتح علی خان کی اہلیہ ندا راحت نے کہا انکی
اپنے شوہر سے بات ہو گئی ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ اب انہیں ہوٹل لے
جایا جا رہا ہے وہ بالکل خیریت سے ہیں، معاملات جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے راحت فتح علی کے معاملے پر پاکستانی ہائی
کمشنر شاہد ملک کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش
کر رہے ہیں کہ ہمارے سٹار کے ساتھ کوئی بدتمیزی یا غلط سلوک نہ ہونے پائے۔
کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ بھارت میں پاکستانیوں کے خلاف کھیلا جانے والا
ایک کھیل ہے۔ جس میں سب کچھ منصوبہ بندی سے کیا گیا ہے۔راحت فتح علی خان
ہندوستان میں بہت مقبول ہیں اور اکثر یہاں آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں
نے بھارتی گلوکار سونو نگم کے ساتھ ٹی وی پر موسیقی کے ایک پروگرام میں جج
کے فرائض بھی انجام دیے تھے۔ چھوٹے استاد نامی اس شو میں بھارت اور پاکستان
کے بچوں نے حصہ لیا تھا۔بھارت میں پاکستانی فنکاروں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا
آیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک اور پاکستانی فنکار عدنان سمیع کے خلاف بھی غیر
ملکی کرنسی سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں کاروائی کی گئی تھی۔
ممبئی میں ان کے کئی فلیٹ سیل کر دیے گئے تھے اور ان پر بیس لاکھ روپے کا
جرمانہ عائد کیا گیا تھا جس کے خلاف انہوں نے اپیل کر رکھی ہے۔دوسری جانب
ہم ہیں کہ بھارتی فنکاروں کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے بیٹھے ہیں۔ جب ایک
طرف بھارت میں راحت فتح علی خان کو گرفتار کیا جارہا تھا تو اس وقت فیض
تقریبات میں بھارتی اداکاروں کی بڑی تعداد ہماری میزبانی کے مزے لوٹ رہی
تھی۔ فیض امن میلے میں شرکت کرنے والے بھارتی فنکاروں کا کہنا ہے کہ عوام
اور انقلاب کی بات کرنے والے شاعر فیض احمد فیض کی صد سالہ سالگرہ کی
تقریبات میں شرکت کرنا ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔بھارت سے آنے
والے فنکاروں میں شبانہ اعظمی اور ان کے شوہر جاوید اختر ، بھارتی اداکارہ
راجند گپتا،شریش چھاپڑیاان ، ایلا ارون شامل ہیں۔ فلمی صنعت سے وابستہ سریش
چھاپڑیا نے اس موقع پر کہا کہ فیض احمد فیض کی صد سالہ سالگرہ کی تقریبات
نے دو ملکوں کے لوگوں کو اکٹھا ہونے کا موقع فراہم کیا ہے اور انہیں ان
تقریبات میں شرکت کرنے کی بہت خوشی ہے۔بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی اور ایلا
ارون نے فیض امن میلے میں پاکستانی فنکاروں کے ساتھ ملکر لوگ گیتوں پر رقص
کیا اور فیض احمد فیض کو خراج عقیدت پیش کیا۔
بھارت نے ایک اور بھارت نواز گلوکار راحت فتح علی خان کا جس طرح سواگت کیا
ہے اس سے بھارت یاترا کے شوقین گلوکاروں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ موصوف
کچھ عرصہ قبل بھارت میں کمسن گلوکاروں کا ایک طائفہ بھی لے کر گئے تھے یہ
پروگرام دراصل پاکستان اور بھارت کو موسیقی کے ذریعے ایک کرنے کی کوشش تھی۔
بھارت کئی پاکستانی دانشوروں‘ گلوکاروں اور بھارت کے گن گانے والے
پاکستانیوں کو شرمندہ کر چکا ہے لیکن وہ بھارت پر پھر بھی فریفتہ ہیں۔ 2004
ءمیں پاکستان ہیومن رائٹس ایکٹویٹس کے ایک گروپ پر بھی نئی دہلی کے ہوٹل
میں چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا گیا تھا ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ غیر
قانونی طور پر بھارت میں قیام پذیر ہیں۔ پاکستانی گلوکار عدنان سمیع کے
ساتھ بھی بھارت ”حسن سلوک“ کا مظاہرہ کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے
کئی دانشور‘ صحافی‘ گلوکار اور اداکار بھارت کے ساتھ مل کر ”امن کی آشا“ کی
تلاش میں سرگرداں ہیں ابھی تک انہیں یہ احساس نہیں ہوسکا کہ بھارت انہیں
اچھوت خیال کرتا ہے۔ بھارت کے گن گانے والے پاکستانی فنکاروں کو متعدد بار
ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے باوجود وہ بھارت یاترا سے باز نہیں آتے۔
راحت فتح علی خان سے قبل عدنان سمیع خان کی ممبئی میں اڑھائی کروڑ روپے
مالیت کی جائیداد کو غیر قانونی خریداری قرار دیکر ضبط کر لیا گیا تھا۔
گزشتہ سال انفورسمنٹ ڈائریکٹویٹ نے فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت عدنان سمیع
کی ممبئی میں اڑھائی کروڑ روپے مالیت کی جائیداد ضبط کرلی تھی ۔ بھارتی
قانون کے مطابق کوئی غیرملکی بھارت میں جائیداد نہیں بنا سکتا۔ عدنان سمیع
کی پاکستانی شہریت ہونے کے باعث انہیں بھارت میں جائیداد بنانے کی اجازت
نہیں جس کے عوض ان پر بیس لاکھ روپے کا بھاری جرمانہ بھی عائد کیا گیا،
بھارت میں عدنان سمیع کی املاک میں آٹھ فلیٹس اور پانچ پارکنگ مقامات شامل
ہیں، ایک طرف یہ کاروائی ہوری تھی تو دوسری جانب بھارت کے معروف غزل گائیک
جگجیت سنگھ پاکستانی گلوکار عدنان سمیع پر تنقید کر رہے تھے۔ ان کا کہنا
رھا کہ عدنان سمیع گا نہیں سکتا،اسے پاکستان واپس چلے جانا چاہئے۔ایک ویب
سائٹ کو انٹرویو میں جگجیت سنگھ نے بتایا کہ عدنان سمیع غلطی سے گلوکار بن
گیا ہے،وہ یہاں اداکار بننے آیا تھا،اسے گانا آتا ہی نہیں،اس جیسے لوگوں کو
واپس پاکستان چلے جانا چاہئے کیوں کہ یہ یہاں پیسے کمانے آتے ہیں۔جگجیت
سنگھ کے اس ریمارکس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عدنان سمیع کا کہنا ہے کہ مجھے
یقین نہیں آرہا کہ وہ (جگجیت ) میرے متعلق ایسا کہہ سکتے ہیں۔عدنان سمیع نے
کہا وہ ہمیشہ میرے ساتھ شفقت سے پیش آئے اور میں ان کا بہت بڑا مداح
ہوں۔بھارت میں گلوکار عدنان سمیع خان کی جائیداد ضبط کئے جانے پر پاکستانی
فنکاروں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ یونائیٹڈ فلم ایسوسی ایشن آف
پاکستان کے سینئر وائس چیئرمین اور پیپلز کلچرل ونگ پنجاب کے صدر مصطفیٰ
قریشی اور شاہدہ منی نے کہا ہے کہ ہم تو پہلے سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ
بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا جب بھی ہمارے فنکار بھارت
گئے۔ بھارت والوں نے ان سے اچھا برتاؤ نہیں کیا۔ عدنان سمیع کے ساتھ برتاؤ
قابل مذمت ہے۔ یہ واقعہ بھی ابھی تازہ ہے جس میں بھارت کی ایک انتہا پسند
تنظیم نے پاکستانی فنکار شکیل صدیقی کو لافٹر شو کرنے سے روک دیا ہے۔ ہندو
انتہاء پسند ایم این ایس راج ٹھاکرے ، مہاراشٹرنگ وردن سینانے نجی ٹی وی کو
دھمکی آمیز خط بھیجا تھا جس میں دھمکی دی گئی ہے کہ ٹی وی کے مزاحیہ
پروگرام سے پاکستانی فنکار شکیل صدیقی کو نہ نکالا گیا تو مہاراشٹر میں
چینل کے تمام پروگرام نشر نہیں کرنے دیں گے۔ ان واقعات سے پاک بھارت امن کی
آشا کا بھانڈا ایک بار پھر بھارت میں ہی پھوٹ گیا ہے۔ ہم ایک ہیں کے جعلی
نعروں اور گانوں اور ترانوں کی کھوکھلی حقیقت ایک بار پھر اس وقت بے نقاب
ہو گئی جب بھارتی حکومت نے ممتاز گلو کار عدنان سمیع کی 2003 ءمیں خریدی
گئی جائیداد کو نہ صرف ضبط کیا بلکہ اسے 20 لاکھ روپے جرمانہ بھی کردیا۔
تھوڑی سی تو لفٹ کرادے والے عدنان سمیع نے 2003ءمیں اوبرائے سکائی گارڈن،
لوکھنڈوالا اور اندھیری مغرب میں 8 فلیٹ اور پانچ پارکنگ پلاٹ خریدے جس میں
سے پانچ فلیٹ اس نے اپنی بیوی صباء کو تحفے میں دیئے اور یہ فلیٹ خفیہ طور
پر تحفے میں نہیں دیئے گئے تھے بلکہ یہ سارے معاملات میڈیا میں آتے رہے تھے
۔ 2010ءکے اختتامی ایام میں بھارت کے انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ کو اچانک انکشاف
ہوا کہ یہ سب غیر قانونی ہے۔ اور انھوں نے عدنان سمیع کی جائیداد کی
خریداری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ضبط کرنے کی کاروائی کر ڈالی۔ جس سے
بھارت کی پاکستان سے دوستی اور پاکستان کے شہریوں کو ”ہم ایک ہیں“ کا چکمہ
دینے کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ عدنان سمیع تو خیر پاکستانی ہیں ہندو دہشت
گردی کا شکار بھارتی مصور اور فلمی دنیا کے نامی گرامی نام بھی ہوتے رہتے
ہیں۔سیکولر بھارت کا اصلی روپ بھارتی فوج اور معاشرے میں طاقت پکڑنے والے
آر ایس ایس کے ہندو جنونیوں کی تخریب کاری اور دہشت گردی سے اکثر بے نقاب
ہوتا رہتا ہے۔ آر ایس ایس کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی سے جمہوریت کا
دعویدار بھارت 90 سالہ نامی گرامی ممتاز مسلمان مصور ایف ایم حسین کو نہیں
بچا سکا جنہوں نے اظہار رائے کی تخلیقی آزادی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے
مصوری کے کئی تاریخی اور نادر نمونے تخلیق کئے ہیں لیکن آر ایس ایس سمیت
ہندو دہشت گردوں نے بھارت کے عالمی شہرت یافتہ مصور ایف ایم حسین پر ”جرم
مسلمانی“ میں زندگی اتنی تنگ کردی کہ وہ قتل کی دھمکیوں کے باعث 2006ءمیں
بھارت سے ہجرت کرکے قطر میں مقیم ہونے پر مجبور ہو گئے۔بھارتی ہندو دہشت
گردوں نے ان کے بے شمار تخلیق پارے اور فن مصوری کے نادر نمونے تباہ کردیئے
حتیٰ کہ بھارت میں فن مصوری کے حوالے سے کئی اعزازات اور انعامات کا حقدار
ٹھہرائے جانے والے مصور ایف ایم حسین پر 900 مقدمات درج کر دیئے گئے۔
”ہندوتوا“ کے تحت انہیں دہشت گرد ہندوں نے بھارت چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اب
انہیں قطر کی حکومت کی طرف سے شہریت کی پیشکش کی گئی ہے۔ قطر کی شہریت
اختیار کرنے کے بعد ممتاز مصور ایف ایم حسین کو بھارتی قوانین کے مطابق
بھارتی شہریت سے دستبردار ہونا پڑے گا کیونکہ بھارتی قوانین کے مطابق دوہری
شہریت کی اجازت نہیں ہے۔”جرم مسلمانی“ میں بھارتی مصوروں کے ساتھ ساتھ
بھارتی فلمی دنیا کی نامی گرامی شخصیات بھی ہندو دہشت گردی اور نفرت کا
نشانہ بنتی رہتی ہےں۔ بالی ووڈ کے ممتاز ہیرو اور کولکتہ نائٹ رائٹڈر کے
مالک شاہ رخ خان نے حق سچ بات کرتے ہوئے کرکٹ کے ورلڈ چیمپئن پاکستانی
کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میچوں میں شرکت کے حق میں بات کی تھی تو بھارت کی
دہشت گرد تنظیم شیوسینا جسے ”را“ کی سرپرستی حاصل ہے نے آسمان سر پر اٹھا
لیا اور فلمی دنیا کے لبرل مسلمان شاہ رخ خان کو مسلمان ہونے کے ناطے متعصب
قرار دیکر پاکستان کرکٹرز کا حامی ہونے کا ”مجرم“ بھی بنا دیا۔ صرف یہی
نہیں بلکہ اس جرم کی پاداش میں یہ سزا بھی سنا دی کہ شاہ رخ خان بھارت چھوڑ
کر پاکستان چلے جائیں اور اسلام آباد جاکر بیٹھیں۔ بھارت میں اس کے لئے نہ
کوئی جگہ اور نہ ہی گنجائش باقی ہے۔بھارت سے دوستی کے خواستگار نہ جانے
کیوں تمام قانونی تقاضے پورے کرکے بھارت جانے والوں پر تشدد اور تشدد سے
مرنے والوں کو بھول جاتے ہیں۔ جن کو ہماری اکثریت کھیل اور شوبز کے میدان
میں ہیرو سمجھتی ہے ان کی بھارت میں تذلیل ہوتی ہے۔ تازہ ترین واقعہ راحت
فتح علی خان کے ساتھ پیش آیا ہے۔ لیکن اس سے قبل عدنان سمیع کو بھی کروڑوں
کی جائیداد چھین کر دھتکار دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود ہمارے فنکار اور
کھلاڑی بڑی بے شرمی سے نوٹ بنانے اور پیسہ کمانے کیلئے بھارت کا رخ کرتے
ہیں۔ بھارت میں ایک بھی پاکستانی ٹی وی چینل دکھانے کی اجازت نہیں۔سپریم
کورٹ کی طرف سے پابندی کے باوجود ہمارے ہاں پاکستانی چینلز سے زیادہ انڈین
فحش چینل دکھائے جاتے ہیں۔ سینماؤں میں بھارتی فلمیں چل رہی ہیں۔ ہمارے
پڑوسی سینما میں بھی سکھ فلمی بورڈ پر دندنا رہے ہیں۔ پاکستانی چینلز بڑی
دیدہ دلیری کے ساتھ بھارت کے اشتراک سے بنے پروگرام دکھا رہے ہیں۔ ان کی
سکرینوں پر انکی فلمیں چل رہی ہیں۔پرنٹ میڈیا میں پاکستانی فنکاروں سے
زیادہ دشمن ملک کے فنکاروں کو کوریج دی جاتی ہے۔ کیا یہ سب قومی وقار کے
منافی نہیں؟ ہمارے حکمران کسی بھی جدت پسند اور آزاد خیال حلقے سے پیچھے
نہیں۔ ان تمام لوگوں کو جو پاک بھارت امن دوستی کا پرچار کرتے ہیں۔ امن کی
آشا کا ہر وقت دم بھرتے ہیں۔ ہندوستان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ اب
ہوش آجا چاہیئے۔ |