سرحدوں کا تحفظ اور بھارتیوں کی جان و مال وعزت کا تحفظ: دونوں لازم و ضروری

اِس وقت پورا ملک سوگوار ہے۔ ایک خودکش حملہ میں ہمارے ملک کے۴۰؍ سے زیادہ فوجی جوانوں کی جانیں نچھاور ہو گئیں۔یہ سانحہ افسوس کا باعث ہے۔ ہاں! افسوس کیا جائے گا۔ اس لیے کہ اسلام نے انسانی جانوں کو وقار بخشا ہے۔ان کی قدر بتائی ہے۔ اسلام نے دلوں کو زندگی بخشی ہے۔ جانوں کی حفاظت کی ہے۔ اگر اس خودکش عمل میں کوئی مسلمانوں جیسے نام کا حامل شخص یا ادارہ شامل ہو تو اس کی مخالفت ہی کی جائے گی۔ اسلام احترامِ آدمیت سکھاتا ہے۔ انسانی جانوں کو جِلاتا ہے۔ یہ حملہ کرنے والے بزدل ہیں۔ جو گھات لگاتے ہیں۔ وار کرتے ہیں۔ اور جانوں سے کھلواڑ کر کے گزر جاتے ہیں۔ان کا یہ عمل ذلت کی علامت ہے۔ منزلِ رُسوائی کے راہی ہیں متشدد چہرے۔

ملک کے تمام مسلمان مضطرب ہیں۔ سبھی نے مذمت کی۔ انسانیت پر کلنک قرار دیا۔ جن ہاتھوں نے یہ واردات انجام دی وہ دہشت گرد ہیں۔ وہ مجرم ہیں۔ ان کاجرم معمولی نہیں۔ ان کا حملہ تمام انسانیت پر حملہ ہے۔ امن پسند فرد اس عمل کی مذمت ہی کرے گا۔ مسلمانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جو ملوث ہیں ان سے سختی سے نمٹا جائے۔ انھیں سبق سکھایا جائے۔ ان کا وجود سوہانِ روح ہے۔ ناقابلِ برداشت ہے۔ان کے وجود سے انسانیت کی توہین ہوتی ہے۔ انسانی جانوں کا تحفظ اسی میں ہے کہ ایسے متشدد چہرے بے نقاب ہوں۔جو مجرم ہیں ان پر گرفت ہو۔ جو ایسے عمل میں ملوث ہیں انھیں عبرت ناک سزا دی جائے۔ ان پر فاسٹ کارروائی ہو۔ انھیں فی الفور انجام سے دوچار کیا جائے۔

حقوق کا تحفظ:
مذکورہ حملے نے انسانیت کی چولیں ہلا دیں۔ سبھی نے ملک کی اَفواج کی اَموات پر اظہارِ تاسف کیا۔ کیا بھی جانا چاہیے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ایک جان کا ضیاع تمام جانوں کا ضیاع ہے۔ ملک کے تمام بسنے والوں کی قدر کی جائے۔ سب کے یکساں حقوق کا خیال رکھا جائے۔ سب کی آزادی کا تصور ہے۔ یہ آزاد ملک ہے۔ اسے ہمارے اسلاف نے آزاد کرایا۔ انگریزی استبداد سے ملک کو نجات دلائی۔ اسے امن و سکوں کا گہوارہ بنایا۔ ہم بھارت کی تمام ریاستوں میں امن چاہتے ہیں۔ کسی بھی بیرونی ملک کو یہ ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ گھس پیٹھ کرے۔ اسی طرح ہر ایک بھارتی کا حق بھی لازمی ہے۔ چاہے وہ مہاراشٹر کا ہو یا کشمیر کا۔ جموں کا ہو یا بنگال کا۔ تمام بھارتیوں کے انسانی حقوق کی ضمانت چاہتے ہیں۔ ملک کی حکومت کو چاہیے کہ حالیہ سانحہ کی پاداش میں جو مرتکب ہیں انھیں دبوچے۔ کسی بے گناہ کو ہرگز ہراساں نہ کرے۔ اہلِ کشمیر کے حقوق کی پاس داری بھی ملک کی ترقی کے لیے ضروری جانتے ہیں۔ اس ملک میں جس طرح کسی کی دل آزاری مناسب نہیں اسی طرح کشمیریوں کے حقوق کی پاس داری بھی لازمی ہے۔

تعمیر و ترقی کے مواقع فراہم ہوں:
کشمیر میں بے روزگاری اور غربت بھی ایک مسئلہ ہے۔ حکومت کو ان کے لیے خصوصی اسکیمیں اور ان پر عمل کے آسان راستے مہیا کروانے چاہئیں۔ تا کہ ان کا استعمال کوئی منفی عناصر نہ کر سکیں۔ اور محبتوں کی بالادستی سے نفرتوں کی تہیں مٹانی چاہیے۔ اس لیے کہ جب دل میں نفرتیں پنپتی ہیں تو مسائل ہی کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں جب کہ ایک مدت سے وادی کا سکوں درہم برہم ہے؛ دہشت گردوں کو کھیل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ تشدد کو کچلنے کے لیے جہاں ہماری حکومت کو دفاعی سرگرمیاں بڑھانے کی ضرورت ہے وہیں امن کے قیام کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے کشمیری باسیوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی جان و مال و عزت و آبرو کی حفاظت کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ بے گناہوں کی جانوں کا تحفظ ضروری ہے۔ ملک کی سرحد و سیما کی حفاظت بھی ضروری ہے اور ملک میں بسنے والوں کی جان و مال و عزت و آبرو کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ دونوں سے ملک کی سلامتی ہے۔

وادی میں بے چینی و بد امنی سے یقینی طور پر وہاں بسنے والوں کی زندگی راحت و سکوں سے محروم ہے۔ ایسے میں تشدد زدہ گروہ کی در اندازی مزید مشکلات کا باعث ہے!! ہمیں دونوں پہلوؤں پر توجہ کی ضرورت ہے۔ ہم نہ کسی ملک کی اپنے ملک میں دخل اندازی پسند کریں گے نہ ہی اپنے ملک میں بسنے والوں کے حقوق کی پامالی۔

حکومت ہند کو چاہیے کہ ملک کے دستوری حقوق کے تئیں بسنے والوں کے تحفظات کو یقینی بنائے۔ تشدد کے چہروں کو بے نقاب کرے۔ بے گناہوں کی جانوں کا تحفظ کرے اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے سرگرمی دکھائے۔ ملکی حالات کو امن و سکوں کا گہوارہ بنائے رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں تا کہ پھر ایسا مہیب سانحہ تاریخ انسانی میں واقع نہ ہو سکے اور ہر کوئی اطمینان و سکون سے زندگی گزار سکے۔
٭٭٭
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.