مرکزی حکومت نے ۱۹ فروری ۲۰۱۹ کو ایک بار پھر سے تین
طلاق آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔طلاق ثلاثہ پر تیسری مرتبہ حکومت کو
فرمان جاری کرنا پڑا۔ قانون اور فرمان میں یہ فرق ہے کہ ایک کو ایوان کی
توثیق حاصل ہوتی ہے اور دوسرا سرکاری جبرواستبداد کا غماز ہوتا ہے۔ یہ
فیصلہ اسی پردھان سیوک کی زیر صدارت کابینہ کےمیٹنگ میں کیا گیا جو پلوامہ
سانحہ پر کل جماعتی اجلاس میں شرکت کے لےاوقت نہیں نکال سکا ۔ اسفیصلے کا
اعلان کرتے ہوئے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نےکہا کہ ایوان زیریں میں طلاق سے
متعلق بل منظور ہوچکاہے لیکن یہ ایوان بالا میں زیر التواء ہے۔ لہذا، حکومت
پھر سے آرڈیننس لانے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ حکومت کی اس ناکامی سے یہ گتھی
سلجھ جاتی ہے کہ وزیراعظم بار بار مجبور سرکار کے مقابلے مضبوط سرکار کی
دہائی کیوں دیتے ہیں؟ وہ دراصل اس ذلت و رسوائی سے بچنے کے لیے دونوں
ایوانوں میں ایسی اکثریت کے خواہاں ہیں کہ جو اپنے من میں آئے کرسکیں لیکن
پانچ سال کی اٹھا پٹخ کے باوجود اس سے محروم ہی رہے۔
سپریم کورٹ میں طلاق پر متنازع فیصلے کے بعد سرکار کے ذہن میں قانون سازی
کا سودہ سمایا اور وہیں اس خود ساختہ رسوائی کا سلسلہ چل نکلا۔ طلاق ثلاثہ
کا قانون بنانے میں حکومت نے جس سرعت کا مظاہرہ کیا اس کی مثال ہندوستان کی
تاریخ میں کم میسر آئے گی ۔ ۲۲ اگست ۲۰۱۷ کو عدالت عظمیٰ نے یکمشت طلاق
ثلاثہ کو غیر اسلامی اور غیر آئینی قرار دے دیا ۔ اس پر ہونا تو یہ چاہیے
تھا کہ اگر کوئی خاتون اس طرح کی طلاق کے خلاف عدالت سے رجوع کرتی تو اس کے
شوہر سے کہا جاتا کہ ابھی صرف ایک طلاق ہوئی ہے اور جب تک اسلامی اصولوں کے
مطابق وقفہ وقفہ سے طلاق نہ دی جائے وہ نافذالعمل نہیں ہوگی۔ اس کے بجائے
حکومت قانون بناکر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی سعی کی ۔ وزیراعظم نے
مسلمان خواتین کے حق میں مگر مچھ کے آنسو بہانہ شروع کردیئے اور سوچا
اگرمسلم مرد نہ سہی تو کم ازکم امت کی خواتین ہی کوہمنوا بنا لیا جائے ۔
انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ جس ملت کے مردوں کو ورغلانے میں وہ ناکام ہوچکے
ہیں ان کی ماوں ، بہنوں اور بیٹیوں کو کس طرح بہکا پائیں گے؟
امت سرکار نیت بھانپ گئی اور مسلم خواتین کا احتجاج بل کےآنے قبل شروع
ہوگیا لیکن حکومت کو عقل نہیں آئی اس نے دسمبر ۲۰۱۷ میں پہلی بار لوک
سبھا کے اندر یہ قانون منظوری کے لیےپیش کردیا ۔ اس مضحکہ خیز قانون کے
اندر ایک عائلی معاملے کو تعذیری جرم قرار دے دیا گی تھاا اور اس کا ارتکاب
کرنے والے کے لیے تین سال کی سزا تجویز کردی گئی تھی ۔ اسی کے ساتھ کسی
پڑوسی کی شکایت پر بھی شوہر کو غیر ضمانتی حراست میں لینے کی شق ڈال دی گئی
تھی۔ ایسا تو قومی سلامتی ایکٹ کے تحت بھی نہیں ہوتا گویا طلاق ثلاثہ کو
ایک سنگین جرم بنا دیا گیا ۔ خواتین اور بچوں کی ہمدردی میں آنسو بہانے
والوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس کے نفاذ سے مظلوم بیوی اور بچوں پر کیا
گزرے گی؟ ان کا نان نفقہ کہاں سے آئے گا ؟ یہی وجہ ہے کہ حکومت شریعت
مخالف نام نہاد روشن خیال دانشوروں کی حمایت سے بھی محروم ہو گئی ۔
حزب اختلاف نے ان کوتاہیوں کی جانب توجہ مبذول کرائی اور اسے آئین کی
سیلیکٹ (خصوصی) کمیٹی کے حوالے کرنے کی تجویز رکھی ۔ طاقت کے نشے میں
چورارباب اقتدار کے لیے یہ قابل قبول نہیں تھا۔ انہوں نے ایوان زیریں کے
اندراسے شور شرابے کے بعد منظور کروالیا لیکن ایوان بالا میں آگیا اونٹ
پہاڑ کے نیچے اور وہاں پر منظور نہ ہوسکا۔یہ سرکار کی پہلی شکست تھی اس کی
پردہ پوشی کے لیے حکومت کو آرڈیننس لانا پڑا۔ اس کے بعد حکومت نے جون ۲۰۱۸
میں لوک سبھا کے اندر ترمیم شدہ بل پیش کیا ۔ اس پر بھی حزب اختلاف کا
اعتراض ہوا۔ اس کو بھی پہلے کی طرح نظر انداز کیا گیا اور لوک سبھا میں
دوبارہ منظور کرایا گیا لیکن پھر راجیہ سبھا میں جاکر گاڑی پھنس گئی ۔
حکومت نے اس طلاق بائن سے بھی سبق نہیں سیکھا اور پھر ایک بار فرمان کا
سہارا لیا ۔ اس کے بعد سرمائی اجلاس میں اس پر گفتگو کی نوبت ہی نہیں آئی
۔ آخری دن اس کو فہرست میں شامل کیا گیا مگر وہ دن ہنگامہ آرائی کی نذر
ہوگیا ۔ یہ قانون اپنی موت مرجاتااگر پھر سے آرڈیننس کا اعادہ نہ ہوتامگر
حکومت اسے وینٹی لیٹرکی مدد سےکسی طرح زندہ رکھنے پر مصر ہے۔
سرکار اگر کوئی قانون بنائے اور ایک مدت خاص کے اندر ایوان پارلیمان میں
اسے منظور کرانے میں ناکام ہوجائے تو اسے فرمان جاری کرنے کا حق ہوتا ہے۔
اس حق کا استعمال اضطراری صورتحال میں کیا جاتا ہے۔جیسے کوئی شخص نکاح کے
بعد ازدواجی زندگی کو بحسن و خوبی چلا نے میں ناکام ہوجائے تو طلاق کی نوبت
آتی ہے۔ شادی ساتھ رہنے کے لیے کی جاتی ہے الگ ہونے کے لیے نہیں اس لیے یہ
پسندیدہ صورتحال نہیں ہے لیکن اس کی گنجائش ہے اور طلاق یا خلع کو رشتۂ
ازدواج کی ناکامی ہی گردانا جاتا ہے۔ آرڈیننس کی مہلت بھی طلاق کی مانند
محدود ہوتی ہے لیکن فرق یہ ہے معینہ مدت میں اگر وہ قانون منظور نہ بنے تو
ازخود فاسد ہوجاتاہے جبکہ طلاق رجعی کے بعد اگر رجوع نہ کیا جائے یا بائن
کے بعد نکاح نہ کیا جائے تو وہ نافذ ہوجاتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے سرکار
اپنی ہر ناکامی کے بعد اپنےڈھیٹ پن سےیہ اعتراف کرتی ہے کہ پانچ سال بعد وہ
ایوان بالا میں اکثریتسے محروم ہے ۔
مودی جی نے ایوان پارلیمان میں سینہ ٹھونک کر کہا تھا کہ ہم نے اپنی مدت
کار میں ۴۰۰۰ ہزار بے فائدہ قوانین منسوخ کردیئے ہیں ۔ وہ قوانین کیا تھے
اور ان سے عوام کن مشکلات میں گرفتار تھے یہ کوئی نہیں جانتالیکن یہ ایک
حقیقت ہے کہ مودی سرکار نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے دومتنازعقوانین
وضع کیے اور سنگھ پریوار کے دباو کے باوجود تیسرا بنانے کی جرأت نہ کرسکی
۔ ان تینوں کا تعلق مسلمانوں سے تھا ۔ ایک کو طلا ق اور دوسرے کو شہریت بل
کا نام دیا گیا۔رام مندر پر آرڈیننس لا کر مسلمانوں کی دلآزاری کا منصوبہ
بنایا گیا مگر سب خاک میں مل گیا۔ پہلے میں شریعت کے بہانے اسلام کو بدنام
کرنے کی کوشش کی گئی تھی دوسرے میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتا گیا تھا۔
حکومت ان دونوں کا منظور کرانے میں ناکام ر ہی اور اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ
نہیں بلکہ خسارہ ہاتھ لگا۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان ظالموں ان مسلمانوں کے
حوالے سے ذلیل و رسوا کیا جنہیں وہ بزعم خود سیاسی حاشیے پر بھیج چکے تھے۔
قرآن حکیم میں اس صورتحال کی کیا خوب عکاسی کی گئی ہے’’اور اسی طرح ہم نے
ہر بستی میں اس کے مجرمین کو بڑا سردار بنایا ہے تاکہ وہ وہاں مکر و فریب
کیا کریں حالانکہ وہ فریب نہیں دیتے مگر اپنے آپ کو لیکن انہیں اس کا شعور
نہیں ہے‘‘۔ (سورہ انعام : آیت ۱۲۳) |