خالد مصطفی کی نئی تصنیف ۔۔وفیات پاکستانی اہل ِ قلم علما

تبصرہ نگار:خورشید ربانی
وفیات نگاری ایک طرح کی تذکرہ نگاری ہی ہے کیونکہ اس میں بھی مذکورہ شخصیت کا سوانحی خاکہ لکھا جاتا ہے۔فرق صر ف اتنا ہے کہ تذکرہ نگاری کسی بھی شخصیت کے قدرے تفصیلی ذکر کو محیط ہوتی ہے اور وفیات نگاری اختصار کو۔وفیات نگاری میں متوفی کی تاریخ ولادت،وفات اورسیرت و خدمات پر ایک مختصرنوٹ یا خاکہ لکھا جاتا ہے،جو تنقید و توصیف سے پاک ہوتا ہے۔ دنیا کی قریباً ہر بڑی زبان میں ایسے تذکرے موجود ہیں۔عربی و فارسی میں تو وفیات نگاری کی روایت عہد قدیم سے چلی آتی ہے مگراردو میں اس کا آغازگزشتہ صدی کی پانچویں دہائی میں ہو اور سرسید احمد خان کی ’’آثارالصنادید‘‘ اس کا نقطہ ء آغاز تصور کیا گیا۔بعد ازاں’’واقعاتِ دارالحکومت دہلی‘‘(مولوی بشیرالدین احمد)،’’تحقیقاتِ چشتی‘‘(مولوی نوراحمد چشتی)،’’مخزنِ حکمت‘‘(مفتی غلام سرور)،’’بہارستانِ ناز‘‘(فصیح الدین رنج)،’’شمیمِ سخن‘‘(مولوی عبدالحسن)،‘‘آسودگانِ ڈھاکہ‘‘(حکیم حبیب الرحمن)،’’یادِرفتگاں‘‘(سید سلیمان ندوی)،’’وفیاتِ ماجدی‘‘(عبدالماجددریا آبادی)،’’وفیات ِمشاہیرِپاکستان‘‘،’’وفیاتِ اعیانِ پاکستان‘‘،’’خفتگانِ کراچی‘‘،’’خفتگانِ خاکِ لاہور‘‘(پروفیسر محمد اسلم)،’’خفتگانِ خاکِ گجرات‘‘،’’وفیاتِ نامورانِ پاکستان‘‘،’’وفیاتِ اہلِ قلم پاکستان‘‘،’’تنہائیاں بولتی ہیں‘‘،’’بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ‘‘(ڈاکٹر منیر احمد سلیچ)،’’لاہور میں مشاہیرکے مدافن‘‘،’’شہر ِخموشاں کے مکین‘‘،’’شہدائے وطن‘‘(ایم آرشاہد) سمیت کئی کتب سامنے آئیں۔وفیات نگاری کی ا س زنجیر کی ایک اہم کڑی خالد مصطفی کا نام بھی ہے۔خالد مصطفی کا بنیادی تعارف تو ایک شاعر کا ہے لیکن انھوں نے تحقیق اور تدوین کاری میں بھی کا رہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ان کی شاعری کا مجموعہ’’خواب لہلہانے لگے‘‘ شائع ہو چکا ہے،علاوہ ازیں انھوں نے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

جیسے ضرب المثل شعر کے خالق قابل اجمیری کے فن و شخصیت پر ایک کتاب لکھی ہے اور ان کے کلام کا انتخاب بھی شائع کرایا ہے۔وفیات نگاری کے ضمن میں ان کی پہلی کتاب ’’وفیاتِ اہلِ قلم عساکر ِپاکستان‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی تھی ۔بعد ازاں انھوں نے ’’وفیات پاکستانیِ اہل قلم خواتین‘‘ کے نام سے بھی ایک کتاب ترتیب دی جسے علمی ادبی حلقوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔حال ہی میں ان کی ایک اور اہم کتاب’’وفیات ِپاکستانی اہل ِقلم علما‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔یہ کام اہم بھی تھا اور مشکل بھی کہ ایک طرف تو ایسے علما کا تذکرہ تھا جنھوں نے امت کے لیے بے بہا علمی کتب تصینف کیں ،دوسری طرف قرآن وحدیث،سیرت،تاریخ،منطق،صرف ونحواور دیگر علوم کاوسیع ذخیرہ جمع کرنے والوں کے کوائف کی جمع آوری تھی۔لیکن خالد مصطفی کے ہمت وحوصلے کی داد دینا پڑتی ہے کی انھوں نے اس مشکل کو سر کرلیا اور قریباً دو سال کی شبانہ روز محنت سے یہ کتاب ترتیب دے کر اہلِ علم کی خدمت میں پیش کردی۔اس کتاب میں ۶۴۷ علما کا تذکرہ موجود ہے ۔ترتیب الف بائی رکھی گئی تاکہ قاری کو دشواری نہ ہو ۔ہر مذکور شخصیت کے سوانحی خاکہ کے ساتھ ماخذ بھی درج ہیں تاکہ محققین کو سہولت رہے۔اس کتاب کا ایک اور پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے اور وہ یہ کہ اس میں کسی قسم کا تعصب راہ نہیں پاسکا۔اس کا واضح ثبوت غلام احمد پرویز اور عنایت اﷲ مشرقی جیسے ناموں کی اس کتاب میں موجودگی ہے۔خالد مصطفی نے ہر اس اہل علم کے کوائف یہاں شامل کر دیے ہیں جس نے اپنے نقطہء نظر کے مطابق تحریری خدمات انجام دی ہیں۔اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ علمائے دین اور مدارس کے وابستگان نے کس قدر علمی خدمات انجام دی ہیں اور کس قدر کتب تحریر کر کے علم کے متلاشیوں کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔اس کتاب کے مصنف یقیناً داد و تحسین کے حق دار ہیں کہ انھوں واقعی نہایت دل جمعی اور محنت سے یہ کام مکمل کیا تاہم اس میں کچھ اہم لوگوں کے نام رہ گئے ہیں جن میں تصوف کی اہم کتاب’’عرفان‘‘ کے مصنف فقیر نور محمد سروری قادری ؒ(کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان،متوفی ۱۶ اکتوبر ۱۹۶۰)، علامہ محمدنور سلطان القادریؒ (متوفی ۲۰۰۶) اور ’’دستگیر‘‘ جیسے علمی و ادبی جریدے کے مدیر علامہ سلطان ارشد القادریؒ (متوفی ۲۰۱۳)،ڈاکٹر غلام مرتضی ملک (متوفی ۲۰۰۲) شامل ہیں۔یہ نام سرسری سی ورق گردانی سے مجھے یاد آگئے ہیں اور انھیں مصنف کے نوٹس میں لانا اس لیے بھی ضروری تھا کہ آئندہ کی اشاعت میں شامل کیے جاسکیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ علمی دستاویز کا جہاں ہر لائبریری کا حصہ بنے گی وہیں مجھے یہ یقین بھی ہے کہ اس اہم کتاب کو علم وفکر سے متعلق ہر فورم پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
 

Khalid Mustafa
About the Author: Khalid Mustafa Read More Articles by Khalid Mustafa: 6 Articles with 16715 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.