کشمیریوں اور پاکستان سے بدلے لینے اور مزا چکھانے
کی دھمکیوں کے بعد بھارتی وزیراعظم مودی جنوبی کوریا پہنچ گئے۔جن کی ہدایت
اور اشتعال انگیزی نے کشمیریوں کی بھارت میں جان و مال اور عزتیں غیر محفوط
بنا دیں۔ نریندر مودی حکومت، وزیر مشیر، اس کے اداروں سے آنے والے تما م
دھمکی آمیز بیانات اور حقائق صاف عندیہ دے رہے ہیں کہ بھارت اب پاکستان کے
ساتھ ایک ’’محدود‘‘ جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے۔دونوں ملکوں کی فوج آنکھوں میں
آنکھیں ڈالے آمنے سامنے کھڑی ہو چکی ہے۔پلوامہ حملہ پلوامہ کے ہی ایک طالب
علم نے کیا جو بارہویں جماعت کے امتحان میں شامل ہونے کے بجائے مجاہدین کی
صفوں میں شامل ہوا اور کشمیریوں کے قتل عام، تذلیل اور تشدد کا انتقام لینے
کے لئے فدائی بن گیا ۔ شہید عادل احمد ڈار نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر
اپنی کار کو بھارتی فورسز کانوائے سے ٹکرا کر اڑا دیا۔اب بھارت میں
کشمیریوں پر بدترین حملے تیز ہو رہے ہیں۔ کشمیریوں پر بدترین تشدد اور
انہیں بھارتی تعلیمی اداروں ، دفاتر، کمپنیوں سے بے دخل کرنے، تشدد، لوٹ
مار کی ویڈیوز اور رپورٹیں دیکھ کر مزید کشمیری مشتعل ہو رہے ہیں۔کشمیریوں
پر بغاوت اور غداری کے مقدمات ، گرفتاریاں، پکر دھکڑ، لاپتہ کرنے کے واقعات
اشتعال انگیزی اور نفرت میں تیزی لانے لگے ہیں ۔تمام جنگوں کی تاریخ سے بھی
یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سرحدوں پر طویل کشیدگی بالآخر باقاعدہ جنگ پر ہی
منتج ہوتی ہے۔مودی ایک جانب دنیا اور ملک کوجنگ کیلئے تیار کررہے ہیں تو
دوسری جانب انتخابی جنگ سر پر ہے۔ یہ جنگ بی جے پی کے نظریاتی انقلاب کو
کامیاب بنانے کیلئے ضروری سمجھی جارہی ہے ،بالخصوص دو ماہ بعد ہونے والے
عام انتخابات میں مکمل جیت کیلئے پاکستان کو سبق سکھانا سیاسی مجبوری بن
گیاہے۔جب کہ کانگریس بھی بی جے پی کے لئے چیلنج بن چکی ہے۔ کشمیر کی جنگ
بندی لکیر پر پہاڑوں پر برفباری کی وجہ سے منصوبہ بندی کا تناظر مختلف ہو
سکتا ہے۔بھارتی ارباب اقتدار اپنے ہندو توا نظریہ سے مجبور بھی ہیں کیونکہ
وہ نصف صدی سے آر ایس ایس کے 30ہزار سکولوں اور لاکھوں شاکھاؤں میں یہی
پڑھاتے بھی رہے ہیں اور اس کا عزم بھی دہرا چکے ہیں۔وزیراعظم مودی کی عالمی
سفارتی مہم ہو، بھارتی عوام ہو یا پھر میڈیا، ہر طرف جنگ کا بگل بج رہا
ہے۔سعودی ولی عہدکا پاک بھارت دورہ اور عمران خان کے بعد نریندر مودی سے
ملاقات بھی سرد جنگ کو کم نہ کر سکی۔پلوامہ حملے سے پہلے ہی آئے روزجنگ
بندی لائنپر شدید گولہ باری اور ہلاکتوں اور پھر ویڈیوز اور جوابی ویڈیوز
کا سلسلہ بھی چل پڑا تھا، حکومت ہند کی جانب سیجو بیانات دیئے جارہے ہیں ،وہ
معنی خیز بھی ہیں۔ پہلے کشمیر کے بارے میں بار بار کہاجارہا ہے کہ ’’حتمی
حل‘‘ہوگا۔یہ وہی زبان ہے جو ہٹلر نے یہودیوں کے بارے میں استعمال کی تھی۔
گزشتہ برس28مئی کو نئی دلّی میں بھارتی وزیر داخلہ اور بی جے پی کے سابق
سربراہ راجناتھ سنگھ نے کہا کہ ہم نے ’’مستقل‘‘حل تیار کرلیا ہے اور اس
سلسلے میں اقدامات شروع ہوچکے ہیں۔پھر چند دن بعد 3جون کو نئی دلّی میں ہی
میڈیا کو بتایا’’ہم کیا کرینگے ،اْسے بس دیکھتے ہی جایئے‘‘۔پھر4جون کو حمیر
پور ہماچل میں کہا کہ آرمی کو صورتحال سے نمٹنے کی کھلی چھوٹ دی جاچکی
ہے۔اس طرح کے بیانات بھارتی وزیر دفاع ارون جیٹلی بھی دیتے رہے ہیں۔یہ سب
ایک خوفناک صورتحال کا پیش خیمہ تھا اور سرحدوں پر ایک ’’محدود‘‘سی جنگ کی
تیاری بھی۔پلوامہ حملے کے بعد عمل در آمد کے لئے بھاگ دوڑ میں دھمکیاں آ
رہی ہیں۔اسی جنگ کی آ ڑ میں اندرون کشمیر انہیں وہ سب کچھنشانہ بنانے کا
بھی موقعہ ملے گاجو ان کے خیال میں ان کیلئے رکاوٹ ہے۔یہ کوئی تعجب یا
اتفاق کا مسئلہ نہیں ہے کہ آرمی چیف جنرل بپن راوت مقبوضہ ریاست کا دورہ
کرتے ہیں اور فوج کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں صرف یہی نہیں کہتے کہ
انہوں نے صورتحال کا جائزہ لیا بلکہ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ انہوں نے حکمت
عملی کی تیاری کا بھی جائزہ لیا۔ گزشتہ برس2جون کو بھارتی بحریہ کے سربراہ
ایڈمرل سنیل لامبا نے جموں کا دورہ کیا ،حالانکہکشمیر میں بحریہ کا زیادہ
کردار نہیں ہے لیکن جھیل ولر سے لیکر جموں تک انڈین نیوی موجود ہے۔انہوں
نے9کور ہیڈ کوارٹر میں ’’عملی تیاریوں‘‘کا جائزہ لیا۔اس سے قبل 30مئی کو
فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل ہری کمار نے جموں کا دورہ کیا اور ’’عملی
تیاریوں‘‘کا جائزہ لیا۔یوں بری ،بحری اور فضائیہ کے سربراہوں کی ’’عملی
تیاریوں‘‘کا جائزہ کس جانب اشارہ کرتا ہے ؟۔اس صورتحال کے بارے میں اقوام
متحدہ کا فکر مند ہونا فطری امر ہے۔امریکہ کے قومی انٹیلی جنس سربراہ ڈینیل
کوٹس بھیپاک بھارت جنگ کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔سی پیک کے حوالے سے اقوام
متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی صاف طور پر کہاگیا ہے کہ سی پیک کی شدید
پریشانی کے حوالے سے دہشت گردی سے نمٹنے کے نام پر بھارت پاکستان پر حملہ
کرسکتا ہے،اگر چہ چینی ردعمل سے بچنے کی زبردست کوشش ہوگی۔چین نے بھارت کو
1962کی جنگ یاد دلائی ہے۔اصل میں اس جنگ کے سارے خدو خال 2004میں ہی ’’کولڈ
سٹارٹ ‘‘جنگی حکمت عملی سے ترتیب دیئے جاچکے ہیں۔1998میں ہندوستان اور بعد
میں پاکستان کے جوہری دھماکوں کے بعد روایتی جنگ ناممکن ہوچکی
تھی۔لیکن1999میں کرگل جنگ کے بعد یہ ضرورت بہت بڑھ گئی کہ پاکستان کو جوہری
قوت کی چھتر چھایامیں ہندوستان کے خلاف ’’پراکسی وار‘‘ سے کس طرح روکا جائے
اور بالآخر’’کولڈ سٹارٹ ‘‘کا فوجی نظریہ بنایا گیا۔
کولڈ سٹارٹ کے مطابق نہایت ہی محدود پیمانے پرجنگ بندی لکیر پر واقع
چندعلاقوں پر تیزی سے حملے کرکے قبضہ کیاجائے تاکہ جنگ طویل نہ ہواور جوہری
ہتھیاروں کے استعمال کی نوبت نہ آئے۔یوں لگتا ہے کہ مودی کا بھارت یہ تجربہ
کرنا بھی چاہتا ہے تاکہ و ہ ’’کشمیر کا حتمی حل‘‘نکال سکیں اورالیکشن سے
پہلے ہندو عوام کوبتاسکیں کہ انہو ں نے پاکستان کو سبق سکھادیا۔اس سلسلے
میں کارروائیاں ممکنہ طور پر دراس سیکٹر ،ٹیٹوال ،کیرن،حاجی پیر، اوڑی ،بالاکوٹ
پونچھ وغیرہ میں بھی ہوسکتی ہیں جہاں پر بھارت کا گمان ہو گا کہ وہ بہت
مختصر مدت میں سینکڑوں فوجی چوکیوں پر قبضہ کرسکتا ہے۔یاد رہے کہ 2004کے
’’کولڈ سٹارٹ‘‘ڈاکٹرین سے قبل بھی 1965اور بالخصوص1971کی جنگ میں سرحدوں پر
یہ تجربات کئے جاچکے ہیں۔1984میں سیاچن اور1998میں بٹالک کرگل میں بھی یہی
حربہ آزماکربہت سارے علاقوں پر مستقل طور قبضہ جمالیاگیا۔ایک بار پھر یہی
صورتحال نظریاتی جوش کے ساتھ شاید پھر دہرائی جائے۔یہ خدشہ ا یک سکالر پیر
غلام رسول نے ظاہر کیا ہے۔ تا ہم بھارت کو اس طرح کا کوئی آپریشن کرنے سے
پہلے سو بار سوچنا ہو گا۔ امریکہ اور بھارت ہی نہیں اسرائیل بھی کھل کر
جنگی ماحول بنا رہے ہیں۔امریکہ افغان جنگ کی بدترین شکست کا انتقام لینا
چاہتا ہو گا۔ افغانستان، بنگلہ دیش،ایران کی پالیسی بھی واضح ہو چکی ہے۔
ایسے میں چین کا مثبت کردار اور’’ پاکستان کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں
کا موثر جواب دینے کے لئے تیار ‘‘ہونے کا اعلان ہوا کا ایک جھونکا ہے ۔چین
کا یہ اعلان بھی پاکستان دوستی کا آئینہ دار تھا کہ ’’بھارت کو چین ایسا
سبق سکھائے گا کہ وہ اس کو صدیوں تک نہیں بھولے گا۔ ‘‘یہ جنگ اور جارحیت اس
جملے سے ختم نہیں ہو سکے گی کہ بھارت سے کہا جائے کہ آ جاؤ، ہم تیار ہیں۔
دیگر محازوں پر بھی تیاری ضروری ہو گی۔خدشہ ہے کہ الیکشن میں جیت کے لئے
مودی کی سرجیکل یا پیرا شوٹ جنگ ایٹمی جنگ میں بدل جائے گی۔ |