14فروری 2019ء کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے
پلوامہ میں بھارت کے نیم فوجی دستے کی بس پر ہونیوالے حملے کے بعد بھارت
اور جموں کشمیرمیں حالات کے بگاڑ نے ایک مرتبہ پھر خطے میں جنگ کی بازگشت
کو اـونچا کردیاہے تو دوسری جانب حملے کے فوراــ بعد بلا تفتیش بھارتی
حکومت، میڈیا اور اداکاروں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے
بھارتی شہریوں کی جانب سے اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جارہاہے۔
اس تسلسل میں گزشتہ دنوں بھارتی فوج کے لیفٹنٹ جنرل اور کشمیر میں فوجی
کمانڈر ــ’’کے ایس ڈھولوں‘‘ نے پریس کانفرنس میں کشمیری ماؤں سے مخاطب ہو
کر کہا تھا کہ بچوں کی تربیت میں ماں کا اہم کردار ہوتا ہے لہٰذا وہ اپنے
بچوں کو ہتھیار ڈالنے یا گمراہی کے راستے سے واپس آنے پر مجبور کریں ورنہ
انکے بچوں کا انجام موت ہو گا۔
اس حوالے سے راقم کو خاصی حیرت ہوئی کہ بھارتی کمانڈر کی جانب سے کشمیر میں
معصوم شہریوں کیخلاف جاری جنگی جرائم کو یکسر نظر انداز کرکے کشمیری ماؤں
سے یہ مضائقہ خیز اپیل کردینا کس قدر جائز ہے؟ پاکستان بالخصوص اس حوالے سے
وقتا فوقتا اپنے کشمیری بھائیوں پر ہونیوالے بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے
لاتا رہاہے اور بارہا اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں بھی کشمیر کے موضو ع
کو مدع بحث بنایا چکاہے ۔ تاہم کے ایس ڈھولوں صاحب شاید اس بات سے لاعلم
ہیں کہ انکے زیر کمانڈ میجر لیتل گوگی نے جوکہ انڈیا کی 53راشتریا رائفل
میں ڈویوٹی پر مامور تھے ایک کشمیری نوجوان فاروق احمد ڈار کو گزشتہ برس
کشمیر میں الیکشن کے دوران اپنی فوجی گیپ کے سامنے بطور انسانی ڈھال باندھ
کر کشمیریوں کے جذبات مجروح کئے تھے اوربھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت
نے بھی میجر گوگی کے اس عمل کو سراہا تھا جبکہ اسکے علاوہ کشمیر میں آئے دن
بزرگوں ، خواتین اور معصوم بچے بچیوں پر فوج کی جانب سے چھروں والی بندوق)
(Pellet Gun کا استعمال بھی دنیا کے سامنے ہے جس کے حالیہ واقعہ میں 19ماہ
کی کشمیری بچی حبہ اپنی ایک آنکھ سے محروم ہو گئی تھی اورمجموعی طور پر
سیکڑوں کشمیر ی شہری قوت بینائی سے محروم اور دیگر جسمانی معذوریوں کا شکار
ہو چکے ہیں ۔اس حوالے سے ایمنسٹی بھارت سمیت دنیا بھر کی انسانی حقوق کی
تنظیموں نے بھارتی فوج سے جموں و کشمیر میں اس بندوق کے استعمال کو روکنے
کی اپیل کی تھی مزید براں روزانہ کی بنیاد پر کشمیرمیں بھارتی فوجیوں کی
جانب سے خواتین کی بے حرمتی ، عزتوں کی پامالی اور اس صورتحال پر بھارتی
حکمرانوں کی خاموشی کشمیری مظلوموں کیلئے جلتی پر تیل کا کام سر انجام دے
رہی ہے۔
اس تمام تمہید کی ضرورت صرف اسلئے ہے تاکہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوجی
جنرل کے ایس ڈھلوں کی آنکھوں پر لگے خود ساختہ پرد ے پر سے تعصب ، تکبر اور
ظلم کی دھول ہٹا کر انہیں آئینہ دکھا یا جائے اور پوچھا جائے کہ جب اولاد
کو صحیح راستے پر لانے کی ذمہ داری ماں کی ہوتی ہے تو ان سمیت کشمیر میں
تعینات بھارتی فوجیوں اور بھارتی حکمرانوں کی ماؤں نے کیا اپنی ذمہ داری
پوری نہیں کی؟ ، آج بھارت کی ان ماوں کے لعل جموں و کشمیر میں انسانیت کانا
صرف گلا گھونٹ رہے ہیں بلکہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ظلم اور گمراہی کے راستے
پر آمادہ ہیں ۔ یہ تو قدرت کا قانون رہاہے کہ ہر ظلم کے جواب میں مظلوم
اپنا دفاع کرتا تو اس ظلم کے جواب میں اگر کسی کشمیری نوجوان نے بھارتی
فوجیوں کو نشانہ بناڈالا ہے تو یہ ناصرف کشمیر میں بھارتی حکومت کی
پالیسیوں پر سوالیا نشان ہے کہ ان فوجیوں کے قتل کی ذمہ دار بھی بھارتی
حکومت کو لینی چاہئے ناکہ پاکستان کو موضوع بحث بنا کر اپنے شہریوں کی
آنکھوں میں دھول جھونکنی چاہئے۔ بھارتی حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ
80برس گزرنے کے باوجود وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنانے میں ناکام کیوں ہیں
اور کیوں آ ج بھی انہیں کشمیر میں فوجی قبضہ رکھنے کی ضرورت ہے جس میں
روزانہ کی بنیاد پر بھارت کا اربوں ڈالر سرمایہ خرچ ہورہاہے اور اس سبب
بھارت اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات دینے میں بھی ناکام ہے۔
ضرور ت اس امر کی ہے کہ بھارتی فوج کشمیریوں کو تلقین کرنے کے اپنے اردگرد
موجود دیگر قابض قوتوں کے حال سے سبق سیکھتے ہوئے کشمیر سے اپنی فوج کو
واپس بلائے اور مظلوم کشمیریوں پر ظلم کے بجائے جموں و کشمیر میں اپنی
پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لیتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کشمیری
عوام کو انکاحق خود ارادیت فراہم کر اور خطے کے امن کی خاطر اپنی انا کی
قربانی دے۔ |