شام کے سائے منڈلا رہے تھے جب ہم بورے والا پہنچے ۔کتاب
دوست احباب کا گروپ تھا جو لاہور سے پنجاب کالج کے پرنسپل مجید اکبر کی
دعوت پریہاں پہنچا تھا۔ انہوں نے بورے والا میں چار روزہ کتاب میلے کا
اہتمام کر رکھا تھا ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی آسمان پر گھنے سیاہ بادل چھا
چکے تھے پنجاب کالج پہنچے تو کتاب میلے کے انتظامات دیکھ کر دل باغ باغ ہو
گیا ابھی پوری طرح نظارہ بھی نہ کر پائے تھے کہ سیاہ بادل اور گہرے ہوئے۔
گرجے اور پھر خوب برسے۔ گھنٹہ بھر کی موسلا دار بارش نے سب کچھ تہس نہس کر
دیا۔ شامیانے پانی بہانے لگے قالین بھیگ گئے اور کتاب میلے کی جگہ پانی
کھڑا ہو گیا پروگرام کے افتتاح میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔ مجید اکبر صاحب
اپنی ٹیم کے ساتھ پھر میدان میں اترے۔ انتظام وانصرام پھر سے شروع ہو گئے
جگہ خشک کی جانے لگی پانی نکالا گیا اور شامیانے بدلے جانے لگے ایک گھنٹے
بعد وہی خوبصورت نظارہ تھا کتابوں کے سٹال سج گئے تھے۔اسٹیج پھر سے تیار
تھا۔ شہریوں کی آمد شروع ہو گئی تھی اور ہر طرف جگمگ جگمگ تھی۔ میلے میں
آنے والے احباب کے لیے راہداری کو خوبصورت لائٹنگ سے سجایا گیا تھا۔ ایک
شاندار کتاب میلہ سج گیا تھا جس میں لاہور ملتان اور بورے والا وہاڑی سے
پندرہ کے قریب پبلشرز کے سٹال لگے تھے۔ لاہور اور ملتان جیسے بڑے شہروں سے
دور ایک تحصیلی شہر میں اتنے بڑے اور عمدہ بک فیئر کا اہتمام بلا شبہ بہت
بڑا اقدام تھا۔ لوگوں کی کتابوں میں دلچسپی سے یہ جاننا مشکل نہ تھا کہ
پنجاب کالج کی ٹیم نے اس کی کامیابی کے لٗے بہت محنت کی ہے۔
کتاب میلے میں عام فرد سے لے کرشہر کی معروف ترین شخصیات نے شرکت کی مہمان
خصوصی ڈپٹی کمیشنر وہاڑی جناب عرفان علی کا ٹھیاتھے گل پاشی اور تالوں کی
گونج میں انہوں نے کتاب میلے کا افتتاح کیا۔ ربن کاٹا گیا اور عرفان علی کا
ٹھیا صاحب کتابوں کے سٹالوں سے ہوتے ہوئے اسٹیج پر پہنچے۔ بورے والا کی
تاریخ میں یہ شاید پہلی شام تھی جو کتاب دوستی کے لیے سجائی گئی تھی اور
علم کے مرکز میں آنے والے مہمانان نے ثابت کیا تھا کہ ان کے نزدیک بھی کتاب
بینی کا فروغ سب سے اہم ہے ۔اسی لیے تو وہ خراب موسم میں وہاڑی سے سفر کر
کے بورے والا پہنچے اور سب کی کوششوں کو داد دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر
ہرڈسٹرک میں ایک مجید اکبر جیسا پرنسپل اور جناب عرفان علی کاٹھیا جیسا ڈی
سی پیدا ہو جائے تو پاکستان کے ہر شہر اور دیہات میں کتاب دوستی عام ہو
جائے اور پاکستان میں دم توڑتا مطالعہ کا شوق پھر سے اجاگر ہو جائے کیو نکہ
اسی مطالعہ سے ہر ذہن علم کی روشنی سے منور ہو گا اور ہر فرد ترقی پائے گا
بلاشبہ قوموں کی ترقی میں کتاب کا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
والئیئر نے کہا تھا کہ وحشی قوموں کو چھوڑ کر دنیا میں ہمیشہ کتابوں نے
حکمرانی کی ہے۔ کتاب معاشرتی امن کی ضامن ہوتی ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جس
آدمی کے پاس جتنی کتابیں زیادہ ہوتی تھی اس کا مقام و مرتبہ اتنا ہی بلند
ہوتا تھا مگر مشاہدہ کم ہوا مطالعہ کم ہوا الفاظ کم ہوئے تو ہم زوال کی طرف
آنے لگے لوگ تنہائی کا شکار ہونے لگے زبان رکھنے کے باوجود گونگے بن
گئے۔لائبریریاں ویران ہوتی چلی گئی اور مطالعہ دم توڑتا چلا گیا اور قوم
میں گونگا پن گہرا ہوتا چلا گیا۔ آج بھی لوگ مہنگا ترین موبائل پکڑے بہترین
سوٹ اور جوتے پہنے نظر آتے ہیں مگر کسی بھی موضوع پر پچاس الفاظ کہنے کا
ملکہ نہیں رکھتے ۔ یہ سب کتاب سے دوری کا نتیجہ ہے۔ یہ کتاب میلہ جناب مجید
اکبر صاحب کی ایسی ہی ایک کوشش تھی کہ قوم میں گونگا پن ختم ہو کتاب سے
محبت سب کو سیکھائی جائے اور مطالعہ کا فائدہ سب کو بتایا جائے۔ افتتاحی
تقریب شروع ہوئی تو پرنسپل جناب مجید اکبر نے تعارفی کلمات میں کہا۔’’ہم
اکشر سنتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ ہم کتاب سے دور ہوگئے ہیں لوگ کہتے بھی ہیں
اور سنتے بھی ہیں مگر یہ کوشش نہیں کرتے کہ کتاب بینی عام ہو اور دم توڑتا
مطالعہ کا شوق زندہ ہو ہمیں اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کرنی چاہے اس سے
اندھیرا ختم ہو گا اور روشنی پھیلے گی ہماری یہ کوشش اسی روشنی کو پھیلانے
کے لٗے ہے ۔ کتاب ہر وقت میں انسان کی راہنمائی کرتی ہے۔ کتاب میں لوگ اپنے
تجربات کا نچوڑ آپ کو ایک پیکٹ میں دے دیتے ہیں کم وقت میں زیادہ کچھ
سیکھنے کے لیے کتاب سے بہتر کچھ نہیں۔ میں ہمیشہ کتاب سے راہنمائی لیتا
ہوں۔مجھے کتاب سے بہت کچھ مل جاتا ہے۔میں آپ سے بھی کہتا ہوں کہ بچوں کو
کتاب کے ٹیبل پر لے کر آئیں انہی کتابوں کی دوکان پر لے کر جائیں کتاب نہ
بھی خریدیں مگر جب آپ کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں تو کتاب کا ٹائٹل ہی آپ کو
ایک آئیڈیا دے دیتا ہے اس لیے کتاب سے بچوں کی دوستی کروائیں ان کو کتاب کی
اہمیت بتائیں۔ اور وہ طریقے استعمال کریں کہ بچے خود کتاب کی طرف راغب ہوں۔
کتاب سے بات چلتی ہوئی اس عظیم دانش گاہ کی طرف نکل گئی جہاں یہ خوبصورت
محفل سجی ہوئی تھی اس مادر علمی کے متعلق پرنسپل صاحب نے بتایا کہ پنجاب کا
لج کی تعداد اس وقت 22سو طلبہ و طالبات پر مشتمل ہے ۔ پنجاب کالج کے اس
کیمپس نے اپنے آغاز کے تیسرے سال بورڈ میں چھ پوزیشن حاصل کیں او ر یہ
اعزاز اب تک جاری ہے تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کالج میں ایک سال میں 31ایونٹ
ہوتے ہیں جس میں طلبا شرکت کرتے ہیں کالج میں ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ایونٹ
ہو رہا ہوتا ہے طالب علم جو بھی ہو اور کچھ بھی سیکھنا چاہتا ہو ہم اسے
ویسا ہی میدان دیتے ہیں۔مجید اکبر صاحب کا خطاب بہت شاندار تھا۔ باتیں بہت
مگر وقت مختصر انہوں نے ڈیسک چھوڑا تو اس جگہ مہمان گرامی جناب عرفان علی
کاٹھیاخطاب کے لیے آئے۔ میں سوچ رہا تھا سرکاری شخصیات کاایسی محافل میں
آنا ہی بڑا اقدام ہوتا ہے پھر ایسے زمانے میں جب کتاب دم توڑ رہی ہو اور اس
کے پڑھنے والے بھی منہ موڑ رہے ہوں ۔ میری نظر میں جناب عرفان علی کاٹھیا
ایسے بڑے افسر کا قد اور بڑھا گیا جب وہ پورے ضلع کا کام تج کر اس کتاب
میلے میں آبیٹھے اور کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے وہ نہ صرف کتابوں میں
وقت بتاتے رہے بلکہ آنے والے حضرات کو اپنے خطاب کے ذریعے یہ بھی بتا گئے
کہ آج کے اس دور میں جب کہ ہر آدمی موبائل ایپ میں کھویا ہوا ہے اسے موبائل
سے ہٹا کر کتب بینی کی طرف لانا بہت اچھا اقدام ہے اور بلاشبہ اس اچھے
اقدام کے لیے مجید اکبر اور پنجاب کالج داد کے مستحق ہیں۔ ان کی یہ کاوش
قابل تعریف ہے۔ کتاب علم کا خزانہ ہے اور انسان کی بہترین دوست ہے۔ جن
قوموں نے کتاب سے فائدہ اٹھایا انہوں نے ترقی کی منازل طے کی ہیں ہماری نئی
نسل کو سوشل میڈیا کی بجائے کتاب کی طرف راغب کرنے کے لیے تعلیمی اداروں
میں کتاب میلوں کا انعقاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پنجاب کالج کی طر ف سے
کتاب میلے کا انعقاد خوشگوار ہوا کا ایک جھونگا ہے۔ عرفان علی کاٹھیا صاحب
کے ان الفاظ نے حاضرین کے دل موہ لیے۔ سب کی دل کی آواز تھی جو ان کی زبان
سے ادا ہو رہی تھی انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام کیا تو تالیوں کی گونج سے
انہیں سب کے ہاتھوں نے خراج تحسین پیش کیا۔ کتاب پر شیخ شہزاد مبین چیف
پیڑن سول سوسائٹی نیٹ ورک نے بھی شاندار اظہار خیال گیا۔ کتاب دوستی تو
ویسے ہی ہم میں ختم ہوتی جارہی ہے۔موبائیل فون کے کثرت استعمال نے کتب بینی
کم کر دی ہے۔ مطالعہ کا شوق تو ویسے ہی ہم میں کم تھا شرح خواندگی میں بھی
عالمی طور پر ہم بہت پیچھے ہیں۔ کیا پڑھا لکھا اور کیا ان پڑھ سب ہی برابر
نظر آتے ہیں کوئی پروفیسر ہو یا ریڑھی بان سب ہی موبائیل پہ نظر جھکائے
ہوئے ہوتا ہے۔ بھری محفل میں بھی ہر آدمی تنہا ہی نظر آتا ہے پہلے پہل لوگ
اخبارات پڑھتے نظر آتے تھے کسی بس سٹاپ پر ریل گاڑی میں یا انتظار گاہ پر
کوئی کتب بنی کرتا دکھائی دیتاتھا اب تو ہر طبقے کا فرد موبائیل سے کھیلتا
نظر آتا ہے۔بظاہر نت نئے ماڈل کا موبائل فون ہاتھ میں پکڑے یوٹیوب پر نئے
نئے ویڈیو دیکھتے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ترقی ہو رہی ہے مگر بہت کم لوگ
سمجھتے ہیں کہ ہم تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ ہمارا وقت جو سیکھنے میں
گذرتا تھا وہ اب وائس ایپ میں صرف ہونے لگا ہے پہلے ہم کتاب کی ہمراہی میں
وقت گذار کر کچھ سبق حاصل کرتے تھے اب ویڈیوز دیکھ کر اکیلے بیٹھے قہقے
لگاتے ہیں۔ پیسے خرچتے ہیں وقت گذارتے ہیں اور دن پہ دن بیتا رہے ہیں مگر
آگے نہیں پیچھے رہتے جارہے ہیں جن قوموں نے موبائیل ایجاد کیا وہ اب بھی
کتابوں میں مگن رہتے ہیں مگر ہم دور سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ آپ مغربی ممالک
کو دیکھیں ان کی لائبریریاں آج بھی پڑھنے والوں سے بھری ہوئی ہیں اور ہمارے
ہاں کتابوں پر پڑھنے والی مٹی تہہ در تہہ جمتی جاتی ہے اسے ہاتھ لگانے والا
کوئی نظر نہیں آتا۔ جمود کے ایسے حالات میں بورے والا جیسے دور دراز شہر
میں چار روزہ کتاب میلے کا انعقاد کر کے مجید اکبر صاحب نے بہت بڑا کام
سرانجام دے ڈالا آخری روز بھی لوگوں کا بہت رش رہا۔ خصوصی طور پر فیملی کے
ساتھ لوگ آئے بچوں نے دلچسپی لی اور آخری میں اختتامی پروگرام میں بورے
والا تحصیل کے چیئر مین نے شرکت کر کے پروگرام کو چار چاند لگا دیئے اور
کتاب دوستی میں سب کو تحسین آمیر کلمات سے نوازا ۔ اتنے خوبصورت پروگرام کے
آخری روز دل اداس تھا کہ اب یہ سجا سجایا کتابوں کا مرکز ختم ہو جائے گا۔
اس قدر خوبصورت انتظام سے کتابوں سے سجے سٹال اور لوگوں کی دلچسپی نے دل
باغ باغ کر دیا تھا اے کاش کہ مجید اکبر جیسے انسان ہر شہر میں پیدا ہوں
اورایسے کتاب میلے ہر شہر میں سجے نظر آئیں۔ |