ہر فرد لاعلم تھا کہ خالق کائنات کی عنایت کریمی سے
1876ء کا سال 25دسمبر کو پونجا خاندان میں جس ہستی کو جنم دے رہا ہے وہ
کون ہے ۔کیا یہ دبلا پتلا مگر بظاہر کمزور سا انسان اپنے عظیم مقاصد کی
تکمیل کر سکے گا۔کہا جاتا ہے کہ انسان کی نیت اور مصمم ارادہ ہی دراصل اْسے
کامیابی کی منازل تک پہنچاتا ہے۔انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کیلئے وہ دن
رات محنت کرتا ہے ۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت و
جدوجہد کا بنیادی مقصد مسلمانانِ ہند کو الگ ریاست دلوانا تھا۔جب آپ نے
آزادی کی تحریک کا آغاز کیا تو آپ شروع ہی میں کانگریس میں شامل ہو گئے
لیکن جلد ہی آپ کو علم ہوا کے یہ خالص ہندؤوں کی جماعت ہے جس کا بنیادی
مقصد صرف اور صرف ہندؤوں کا تحفظ اور ذاتی مفادات کی تکمیل ممکن بنانا
ہے۔چنانچہ آپ فوراً ہی کانگریس سے علیٰحدہ ہوگئے اور 1906ء میں باقاعدہ
مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔یہی قائد کی مسلم لیگ اپنا کامیابی کا
سفر طے کرتے ہوئے آج (ن) و (ق) و دیگر کئی گروپس کی شکل میں رواں دواں ہے ۔جناح
کی شبانہ روز محنتوں نے عروج پاتے ہوئے اور مسلمانان برصغیر کی قربانیوں کے
بل بوتے پر بلآخر 14اگست 1947ء کو برصغیر پاک و ہند تقسیم ہوا اور حضرت
علامہ اقبال ؒشاعر مشرق کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔لیکن پڑوسی ملک بھارت
علیٰحدگی کے باوجود بھی اپنی مکرو روش سے باز نہ آیا ۔کہتے ہیں کہ ہندو کی
مکاری اور لومڑی کی عیاری دونوں ہی کیمسٹری کا فارمولا ہیں ۔جسے نامور
سائنسدان بھی B+2بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ویسے تو ہمسایہ ملک مملکت خداد
اد پاکستان کی ترقی سے ہمیشہ اندر ہی اندر سلگتا رہتا ہے ۔کبھی من اندر اور
کبھی من مندر۔کورے کاغذ پر لکھنا تو آسان لیکن لکھ کر محفوظ رکھنا نہایت
مشکل ۔پڑوسی ہونے کے ناطے حقوق ہمسائیگی کی سائنس سے نہ بلد طاقت کے عارضی
نشے میں چْور 1965ء کی جنگی فتح بھلا بیٹھا ہے ۔ممبئی میں اصغر خان کی
بمباری نے بھارت کو اقوام متحدہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔اگر
کوئی بھی ملک خواہ وہ طاقتور ہو یا کمزور اْسے اپنے ماضی سے سبق سیکھ کر
مستقبل کی راہ کا تعین کرنا چاہیئے اور جو اقوام اپنے ماضی کی غلطیوں سے
سبق نہیں سیکھتی اْن مستبقل کبھی بھی روشن نہیں ہوتا ۔یوں تواکثر طلباء
سستی و کاہلی کا شکار ہوتے ہیں اور اْن سے ذہین طلباء کی کامیابی ہضم نہیں
ہوتی ۔چنانچہ وہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ یا تو انہیں اپنے نالائق دو نمبر
گروپس کا چیئرمین بنایا جائے یا پھر ان کا قیمتی وقت اس طرح سے ضائع کروایا
جائے کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری کے مترادف۔اگر دماغ میں منفی
خیالات کا غلبہ ہوتو اْن کاتدارک مثبت سرگرمیاں ہیں نہ کہ دوسروں کی ترقی
سے جلنا۔دْنیا میں امن کیلئے ضروری ہے کہ بڑی طاقتوں کی خارجہ پالیسی پر
سختی سے عمل کروایا جائے۔یہ تو ازل سے طے ہے کہ غروو کا سرنیچا ہوتا ہے ۔
گذشتہ سال وطن عزیز میں ایک مرتبہ پھر جمہوری و انصاف پارٹی نے اقتدار کا
منصب سنبھالا ۔اگرچہ ملکی حالات مسائل کا شکار ہونے کے باوجود بھی پاکستانی
غیور وزیر اعظم نے اپنے تئیں بھرپور مشقت کرتے ہوئے قریبی مسلم برادری سے
روابط استوار کئے اور یوں کم وقت میں ایک مرتبہ پھر مملکت کے ستون کو اپنے
پیروں پر کھڑا کیا ۔پوری قوم پاک آرمی کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہے ۔پاک
آرمی کے جوان دن رات دْشمن کی منفی سرگرمیوں کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے
سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح سینہ تان کر کھڑے ہیں ۔الحمدﷲ آج پاکستان ایک
ایٹمی سپر پاور ہے اور اپنی سرحدوں کا دفاع کرنا اور دشمن کو کمال مہارت سے
زیر کرنا اس کیلئے کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔وزیر اعظم پاکستان نے پڑوسی ملک
کی قیادت کو عمدہ مشورہ دیا ہے کہ وہ ہمیں تمام ثبوت فراہم کریں تاکہ ہم اس
مسئلے کا حل نکال سکیں ۔لیکن عموماً ہوتا کچھ یوں ہے کہ اْلٹا چور کوتوال
کو ڈانٹنے کے مترادف یعنی یہ کہ سکول دور کی بات ہے کہ اکثر درسی ماڈل ٹیسٹ
پیپرز کے آخری صفحہ پر یہ تحریر ہوتا تھا کہ "چور بھی کہے چور چوروں سے
خبردار رہو"۔ فسادی و کمزور کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ شرارت کر کے خود کو
پاک دامن ظاہر کرنے کی مکرو کوشش جاری رکھتا ہے ۔ جمہوری حکمرانوں نے با
آواز بلند بھارت کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستان کو ہرگز کمزور نہ سمجھیں
اور نہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ وہ خطے میں اپنی دہشت کو فروغ دے سکے
گا کیونکہ ایمان کی طاقت کفر کا منہ توڑنے میں اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے
۔یہ درست ہے کہ خدا اْن کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اور کبھی
مشرکین کے سامنے نہیں جھکتے۔ اﷲ رب کریم نے ہمیں تمام وسائل مہیا کئے ہیں
چنانچہ آج پاکستان دْنیا کے نقشے پر ایک ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے اپنا
اثر قائم کئے ہوئے ہے۔آج عالمی طاقتیں بھی بھارت کی بے جا ہٹ دھرمی پر
تذبذب کا شکار ہیں اور بھارت کو اْس کی غلطی کی نشاندہی کروائی جا رہی ہے
لیکن اگر یہ نہیں مانتے تو پھر اپنا تحفظ یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے
۔ہاں اگر جب کوئی شرافت کو مذاق سمجھ بیٹھے اور سکون کو تہہ و بالا کرنے پر
مصر رہے تو پھر وقت اْسے سمجھانے کیلئے کافی ہے ۔
والسلام
آپکا مشکور و دُعاگو |