افغان طالبان نے کہاہے کہ امریکاکے جانے کے بعدافغانستان
میں دولت اسلامیہ یاداعش امن کیلیے کوئی بڑاخطرہ ثابت نہیں ہوسکتی بلکہ امن
معاہدے کی صورت میں وہ ایک ماہ میں افغانستان سے داعش کا مکمل طورپر صفایا
کرسکتے ہیں۔دراصل داعش کوافغان حکومت،بھارت اورامریکاکی مددوحمایت حاصل
ہے۔افغانستان میں داعش کبھی بھی کوئی بڑی قوت نہیں رہی ہے،ہم حال ہی میں
افغانستان کے شمال سے ان کاخاتمہ کررہے تھے لیکن امریکااورافغان حکومت ان
کودوسری جگہوں پرلے گئے اوران کوایک مرتبہ پھرسے زندہ کر دیا۔امریکا کے
ساتھ جاری حالیہ مذاکرات میں افغانستان سے انخلا اورافغان سر زمین کو کسی
دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے پر بات ہوئی ہے اور اس پر اصولی طورپر
دونوں جانب سے اتفاق بھی ہوچکا ہے۔اس ضمن میں دو ورکنگ گروپس بھی بنائے گئے
ہیں جو آنے والے دنوں میں اس پر بات کریں گے اور پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔
ہم افغانستان میں پائیدارامن چاہتے ہیں ایساامن جس پرکسی جانب سے بھی کسی
کوکوئی شک نہ ہو۔ ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان میں پھرسے90ء کی دہائی والی
حالت دہرائی جائے جب خانہ جنگی سے بڑانقصان ہواتھا۔افغان حکومت کے ساتھ بات
چیت کے جواب میں افغان طالبان نے عندیہ دیاکہ افغان معاملے کے دو رخ
ہیں،ایک خارجی اور دوسرا داخلی۔ہم امریکاسے مذاکرات کررہے ہیں اورجب یہ
کامیاب ہوں گے تودوسرے مرحلے میں افغان حکومت سے بات چیت ہوسکتی ہے لیکن فی
الوقت ہم نے حالیہ مذاکرات میں افغان کٹھ پتلی حکومت کوبحثیت ایک فریق
یاسٹیک ہولڈرکے تسلیم نہیں کرتے۔ طالبان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک
ایسی مضبوط حکومت قائم ہوجس سے خطے میں مکمل امن اورخوشحالی آئے اور عوام
سکون کی زندگی گزارسکیں۔ افغانستان میں مضبوط حکومت کے قیام پروہ افغان
رہنماوں سے مشاورت کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امن معاہدے کی صورت میں
اقوام متحدہ،روس،چین اوراسلامی ممالک کی تنظیم ضامن کاکرداراداکرسکتے ہیں۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں اپنی پالیسی
میں واضح تبدیلی لاتے ہوئے اپنے فوجیوں کی تعداد میں قابل ذکرکمی کرنے
کاحکم دیاہے دراصل اس پیش رفت کے پیچھے جوعوامل کارفرما ہیں ان میں سب سے
اہم یہ ہے کہ اس جنگ نے امریکاکی معاشی حالات کوکافی متاثرکیاہے اورامریکی
عوام سے افغانستان میں شکست کے اسباب کوچھپانے کی خاطراس بات
کاسہارلیاجارہاہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکی عوام سے یہ وعدہ
کیاتھاکہ وہ افغانستان سمیت تمام ممالک سے امریکی فوجوں کو واپس بلا لیں گے۔
پھر صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کی فوجی مشیروں نے ان کا ذہن تبدیل
کردیااورانہوں نے افغانستان میں نہ صرف امریکی فوجوں میں اضافہ کیا
اورطالبان کوخوفزدہ کرنے کیلئے تمام بموں کی ماں جیسا خوفناک بم برساکراپنے
عوام سے کئے گئے وعدوں کے پرخچے اڑادیئے،نیٹواوردیگراتحادیوں سے بھی ایسا
ہی کرنے کو کہاجنہوں نے دوبارہ اس جہنم میں جانے سے انکارکردیاجس سے ٹرمپ
نے انتہائی سیخ پا ہوکر نیٹو کومزیدفنڈزبندکرنے کی دہمکی دے ڈالی بلکہ
نیٹوکوایک فضول تنظیم قراردیکراسے بے سودبھی قراردے دیا۔
اس وقت افغانستان میں 14000امریکی فوجی مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ نیٹو
اوراتحادی ممالک کے تقریبا8000فوجی بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ان
کابظاہرمرکزی کردارافغان فورسزکی تربیت اور مشاورت ہے۔اس کے علاوہ ایک اچھی
خاصی تعدادانسداد دہشت گردی کے آپریشنزمیں بھی شامل ہے، جن میں فضائی حملے
اورڈرون حملے شامل ہیں۔ٹرمپ کے اس فیصلے سے افغان فورسز کی تربیت کے ساتھ
ساتھ آپریشنز پربھی براہ راست اثرپڑے گا۔2011/2012میں ایک وقت ایسا بھی تھا
جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب غیر ملکی فوجی طالبان کے خلاف جنگ میں
شامل تھے۔ سابق صدراوباما کے دورمیں افغانستان سے غیر ملکی افواج کاانخلا
شروع ہوااور2014ء تک امریکااورنیٹونے افغانستان میں عسکری آپریشنز ختم
کردیے تھے اورامریکی افواج کی تعداددس ہزارتک پہنچ گئی تھی۔ اس کے بعد سے
ہی افغان فورسز نے سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھال لی۔ اس وقت افغان فورسز کی
تعداد ساڑھے تین لاکھ ہے۔2014ء کے بعد غیر ملکی افواج میں کمی کے ساتھ ساتھ
طالبان کی طاقت اوراثر میں اضافہ بھی دیکھنے کوملا۔ طالبان نے اس انخلا ء
سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں اضافہ کیا۔
افغان فورسز نے طالبان کے خلاف کاروائیاں تو کیں لیکن انہیں شدید نقصانات
بھی اٹھانے پڑے۔ 2015ء سے اب تک طالبان کے خلاف لڑائی میں تیس ہزارافغان
فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اسی عرصے میں ایک سوساٹھ امریکی فوجی ہلاک ہوئے
ہیں۔ان اعداد وشمار میں اتنے بڑے فرق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب امریکی
فوجی عسکری آپریشنزکاحصہ نہیں بنتے تھے۔ ٹرمپ کے حالیہ فیصلے سے
یقیناًافغان فورسزکی مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ان کے پاس ان حالات سے نمٹنے
کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔ تاہم بہت ممکن ہے کہ جہاں اس کی وجہ سے افغان
فورسز کو ہونے والے نقصانات میں اضافہ ہووہاں افغان فوج طالبان کے سامنے
ہتھیارڈال کرافغانستان کی حالیہ جنگ کاپانسہ ہی پلٹ دے تاہم یہ دیکھنا بھی
ابھی باقی ہے کہ اس امریکی فیصلے کے بعد نیٹو کیا فیصلہ کرتا ہے۔
ادھرامریکااورافغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے بعدافغانستان
میں 20جولائی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کی
جانب سے امیدواروں کاسلسلہ شروع ہوگیاہے اورپہلی بارکانٹے دارمقابلے کی
توقع ہے۔صدارتی امیدواروں کی نامزدگی کیلئے آخری تاریخ 31جنوری مقررکی گئی
تھی تاکہ مزیدامیدواروں کی نامزدگی بھی عمل میں لائے جا سکے ۔تادمِ
تحریرافغان صدرڈاکٹراشرف غنی،جمعیت اسلامی افغانستان کے ڈاکٹرعبداللہ،حزب
اسلامی کے گلبدین حکمت یار،ملت پارٹی کے نورالحق علیمی،زلمے رسول،نقیب
پدرام،حنیف اتمر، سید نور اللہ جلیلی،فرامرزتمنا،عنائت اللہ حفیظ،حکیم
تورسین،رحمت اللہ نبیل،الکوزی کارپوریشن کے ابراہیم الکوزی،احمدشاہ مسعود
کے بھائی ولی مسعود،شیرمحمدابدالی،نوررحمان لیوال نے کاغذاتِ نامزدگی جمع
کروائے ہیں۔
صدارتی انتخابات رواں سال20 اپریل کوہونے تھے لیکن امریکی درخواست
پرانتخابات کی تاریخ کوتین مہینے آگے بڑھادیاگیاہے اوراب یہ انتخابات
20جولائی کومنعقدہوں گے اس بارافغانستان میں نہ صرف انتخابات میں دلچسپی
بڑھ گئی ہے بلکہ مختلف جماعتوں کے سربراہوں سمیت اہم لوگوں نے انتخابات میں
خصوصی دلچسپی کااظہارکیاہے۔بھارت سمیت متعددممالک نے اپنے پسندیدہ
امیدواروں پرنظریں جمالی ہیں اوران کی باقاعدہ مددکافیصلہ بھی
کیاگیاہے۔بھارت کی کوشش ہے کہ عبداللہ عبداللہ یااشرف غنی میں کوئی کامیاب
ہوجائے تاہم افغانستا ن کے انتخابات اس مرتبہ انتہائی دلچسپ ہیں۔یہ
انتخابات ایک ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب افغانستان سے تمام غیرملکی افواج
کے انخلاء کیلئے طالبان اورامریکامیں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات میں
پیش رفت ہونے کاامکان جاری ہے تاہم طالبان نے ہرقسم کے انتخابات میں حصہ
لینے کافیصلہ ابھی تک نہیں کیا لیکن تمام امیدوار،ان کی جماعتیں
اورامریکاسمیت اس کے تمام اتحادی اس بات سے واقف ہیں کہ افغانستان کے 60٪علاقوں
پرطالبان کی حکمرانی ہے جس کی وجہ سے طالبان کی حمائت کسی بھی امیدوار
کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اورحزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت
یارطالبان کی حمائت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ کاغذاتِ نامزدگی
جمع کروانے کے بعدانہوں نے افغانستان کے موجودہ نظام کو باطل اورفاسق
قراردیاہے اورنظام کی تبدیلی کیلئے آئین میں فوری تبدیلی کاوعدہ بھی کیاہے۔
حکمت یارنے اپنے نائبین کاانتخاب بھی ایسے لوگوں میں سے کیاہے جو ترکمن
اورتاجک ہیں اوران کے خلاف کوئی الزامات نہیں ہیں اور دونوں ٹیکنو کریٹ بھی
ہیں۔افغانستان کے انتخابات میں حصہ لینے وا لے دوسرے اہم امیدواراشرف غنی
ہیں جنہوں نےامرصالح سابق این ڈی ایس چیف کو اپنانائب صدربنایاہے تاہم
امراللہ صالح کی وجہ سے انہیں طالبان کی حمائت حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ
امراللہ صالح کی طالبان و پاکستان دشمنی اور بھارتی وامریکی پٹھوہونے کی
شہرت کسی سےڈھکی چھپی نہیں ،سب ہی واقف ہیں جس کی وجہ سے انہیں طالبان کی
طرف سے کبھی بھی حمائت حاصل نہیں ہوسکتی جبکہ ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ جمعیت
اسلامی افغانستان کے امیدوارہیں اوران کے سربراہ برہان الدین ربانی کے قتل
کاالزام طالبان پرعائدہے،اس لئے وہ بھی طالبان کی حمائت سے محروم رہیں
گے۔سابق سلامتی کے مشیرحنیف اتمرایک ایسے امیدوارہیں جوگلبدین حکمت یارکے
بعدطالبان کیلئے قابل قبول ہیں اوران کاطالبان کے ساتھ مذاکرات میں بھی اہم
کرداررہاہے تاہم حامد کرزئی اورامریکاکے قریب ہونے کی وجہ سے ان کوبھی
مسائل کاسامناہے جبکہ کیمونسٹوں نے نورالحق علیمی کواپنا صدارتی
امیدوارنامزدکیاہے۔اسی لئے اس بار کانٹے دارمقابلے کی توقع ہے جس کیلئے
شفاف انتخابات کی تیاری کی جارہی ہے تاہم موجودہ صدرانتخابات
پراثراندازہوسکتے ہیں جبکہ عبداللہ عبداللہ بھی انتخابات پراثراندازہونے کی
نہ صرف پوری کوشش کریں گے بلکہ اپنے علاقے میں دھونس،دھاندلی اورخوف
کاماحول پیداکرنے کی بھی پوری تیاری کررکھی ہے تاہم عبداللہ عبداللہ کیلئے
سب سے زیادہ خطرہ احمدولی مسعودکی جانب سے امیدوارہوناہے تاہم کاغذاتِ
نامزدگی کی واپسی کے بعد اصل صورتحال سامنے آئے گی۔
اگراحمدولی مسعودانتخابات میں حصہ لیتے ہیں توشمالی اتحادکوچاردھڑوں کیلئے
ووٹ دیناپڑے گا کیونکہ یونس قانونی حنیف اتمرکے نائب صدرہیں جبکہ استادمحقق
ہزارہ کی نمائندگی حنیف اتمر چینل سے کررہے ہیں۔اسی طرح اشرف غنی نے
امراللہ صالح کونائب صدراوّل نامزدکیاہے جو شمالی اتحاد میں کافی اثرورسوخ
رکھتاہے تاہم اس بارحزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کی وجہ سے
عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کانائب صدربننے سے انکارکردیاہے۔اس سے قبل
عبدالہادی ارغندیوال انتخابات میں عبداللہ عبداللہ کے نائب صدراوّل کے
امیدوارتھے۔ایک طرف افغان صدارتی انتخابات میں دلچسپی ظاہرکی جارہی ہے
تودوسری جانب افغان طالبان اورامریکاکے درمیان مذاکرات ڈیڈلاک کے بعدایک
مرتبہ پھرقطرمیں کامیابی کے ساتھ طے پاگئے ہیں جہاں امریکااورطالبان کے
مابین افغانستان میں موجودنصف امریکی افواج (سات ہزار)کے فوری انخلاء
اورباقی فوج کے انخلاء کیلئے ٹرمپ کاپینٹاگون کوفوری طورپرٹائم ٹیبل مرتب
کرنے کے احکام اورمستقبل میں افغانستان کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے کے دو
نکاتی ایجنڈے کے علاوہ قیدیوں کے تبادلے،صدارتی انتخابات اورآئین میں
تبدیلی جیسے نکات پرعملدر آمد کااعلان ہوچکاہے جس کو ساری دنیاکے تجزیہ
نگارطالبان کی فتح قراردے رہے ہیں۔
طالبان کامؤقف ہے کہ تمام غیرملکی فورسزکامکمل انخلاء افغان عوام کادیرینہ
مطالبہ ہےاور امریکامحفوظ انخلاء چاہتاہے جبکہ دنیاکے تمام ممالک کا مطالبہ
ہے کہ مستقبل میں افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہو جس کیلئے طالبان
نے یقین دلادیاہے تاہم صدارتی انتخابات پربات چیت نہ کرنے سے انتخابات
پرطالبان اثراندازہوسکتے ہیں اورطالبان نے جس امیدوارکی کھلم کھلا یاخفیہ
حمائت کااعلان کردیاتووہ یقینی طورپرافغانستان کا آئندہ صدرہوگاکیونکہ اس
وقت افغانستان کے شمال سے لیکرمشرق تک 60٪سے زائدعلاقے پرباقاعدہ عملداری
ہے بلکہ دن بدن طالبان کی دوسرے شہروں اورعلاقوں کی طرف بھی کامیاب پیش
قدمی جاری ہے اوراب مذاکرات کی کامیابی کے بعدباقی ماندہ علاقوں کےعوام بھی
درپردہ حمائت سے آگے بڑھ کرکھلم کھلا طالبان کاشدت سے انتظارکررہے ہیں جس
کی وجہ سے صدارتی انتخابات میں طالبان کی حمائت فیصلہ کن کردار ادا کرے گی
اور طالبان کاہی آئندہ صدرکے انتخاب میں واحدگروپ ہوگا جو صدارتی انتخاب
میں کسی بھی امیداوارکی کامیابی یاناکامی کافیصلہ کن کردار اداکرے
گا۔افغانستان کوایک ایسے صدر کی ضرورت ہے جوایک طرف امریکی انخلاء کویقینی
بنائے اوردوسری جانب طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے اورانہیں شریک کرنے
کاحوصلہ رکھتاہوبلکہ طالبان کے منشورکے ساتھ مکمل مماثلت رکھتاہو اورموجودہ
امیدواروں میں گلبدین حکمت یارہی ایک ایسے امیدوارہیں جن کی پارٹی
کامنشوراسلامی اورفلاحی افغانستان کاقیام ہے۔
|