مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک مقامی کشمیری
نوجوان عادل احمد ڈار کی جانب سے بھارت کے ایک نیم فوجی دستے پر ہونے والے
حملے کے بعد ہندوستانی حکومت کی جانب سے جس جنگی جنون کا مظاہرہ دیکھنے کو
مل رہا ہے ، اس کی نظیر ملنا مشکل ہیں۔ یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی تاریخ
کے اس پہلے فدائی حملے میں بھارتی فورسز کے پینتالیس سے زیادہ اہلکار ہلاک
ہوگئے تھے۔ یہ حملہ خالص وہاں کے مقامی مجاہدین کا اپنا منصوبہ تھا لیکن
آفسوس کہ ہندوستانی حکومت نے بنا کسی تحقیق و تفتیش کئے پاکستان کو اس حملے
کا ذمہ دار قرار دیا، بلکہ یہاں تک کہہ ڈالا کہ حملہ آور پاکستانی شہری تھا۔
|
|
انڈین حکومت کے اس پاکستان مخالف مہم میں وہاں کی میڈیا ، شوبز حلقے،
سپورٹس کے حلقے، مذہبی طبقہ، حتیٰ کہ تاجر بھی حکومت کے ساتھ ایک ہی پیج پر
نظر آئے۔ ہندو انتہاء پسند اب تک مودی حکومت کو پاکستان پر حملہ کرنے کے
لیے اکسا رہے ہیں۔ اگر ہم اس حملے کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات صاف
نظر آتی ہے کہ اب کشمیریوں باالخصوص نوجوان نسل نے آزادی حاصل کرنے کے لیے
مارو یا مرو کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔
اہل کشمیر پر اب یہ بات واضح ہوگئی کہ مذاکرات کا ڈھونگ اور اقوام متحدہ سے
امید وابستہ کرنا صرف وقت کا ضیاع ہے۔ اسی لیے گزشتہ کچھ عرصے سے ان کی
جدوجہد میں تیزی نظر آرہی ہیں۔ اب صرف عام کشمیری ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم
یافتہ نوجوان بھی خوشی خوشی جدوجہد آزادی کے اس معرکے میں کود رہے ہیں۔
کشمری نوجوانوں کے جذبہ جہاد کو دیکھتے ہوئے اب صاف لگ رہاہے کہ انڈیا چاہے
جتنا مرضی ہو زور لگا لے اب وہ زیادہ عرصے تک کشمیر پر قابض نہیں رہ سکتا۔
ہندوستان کو چونکہ جدوجہد آزادی میں اس قدر مہارت اور تیزی کا توقع نہیں
تھا۔ اس لیے وہ اب ہر کارروائی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہراتا ہے۔ حالانکہ
ہندوستان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر امریکا اپنے درجنوں اتحادیوں سے
مل کر بھی چند ہزار افغان مجاہدین کو شکست نہ دے سکا۔ بلکہ الٹا شکست کھا
گیا تو ہندوستان کی کیا حیثیت کہ وہ آزادی کے متوالوں کو بزور دبا سکے۔
دوسری طرف پاکستان نے ہندوستانی الزامات کا جواب اگر کافی تاخیر سے دیا۔ اس
تاخیر کی وجہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران کی یہ بیان کی کہ وہ سعودی
مہمان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے خاطر داری میں مصروف تھے۔ لہٰذا اس
مناسب نا جانا کہ معزز مہمان کے ہوتے ہوئے وہ ردعمل دیں۔ عسکری ردعمل سیاسی
ردعمل سے کچھ مختلف ہے پاک فوج کے ترجمان کے مطابق اس نے پہلے ہندوستانی
الزامات کے بارے میں سوچا، پھر اپنے طور پر تحقیق کی اور جب یہ یقین کامل
ہوگیا کہ اس حملے سے پاکستان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ تو پھر اس نے
ہندوستان کو جوابی ردعمل دیا۔ سیاسی و عسکری دونوں ردعمل یقین حوصلہ افزاء
ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ وطن عزیز کے سپاہ اور عوام میں اتنی دم خم ہے کہ
وہ ہندوستان کو دندان شکن جواب دے سکیں۔
|
|
ہندوستان کو انتہائی مناسب جواب دینے پر اہل وطن مسرور تھے لیکن پھر اچانک
وزارت داخلہ جماعہ الدعوہ اور اس کے ذیلی رفاہی تنظیم فلاح انساینت
فاؤنڈیشن پر پابندی لگادی۔ اس کے علاوہ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب حکومت
نے بہاولپور میں ایک مسجد اور ایک مدرسے کو اپنے کنٹرول میں لیا ہے، جس کے
بارے میں خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ کالعدم تنظیم جیش محمد کی ہے۔
حالانہ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اس حملے سے پاکستان کا کسی بھی قسم حکومتی
یا شخصی تعلق نہیں تھا، تو پھر پاکستان کو ایسی پھرتیاں دکھانے سے گریز
کرنا چاہیے تھا کہ جس سے مزید شکوک شبہات جنم لیں۔
پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ ہندوستانی دھمکیوں اور الزامات سے عالمی برادری
باالخصوص مسلم دنیا کو تفصیل سے آگاہ کرتے۔ ساتھ میں حملے کے بعد ہندوستان
میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک اور کشمیریوں پر ظلم
ہندوستانی مظالم کے بارے میں پر زور احتجاج کرتا۔ کیونکہ حملے کے بعد ہندو
بلوائیوں نے نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں پر شدید تشدد کیا بلکہ کئی مقامات
پر کشمیری طالبات کو ہراساں بھی کیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں قید ایک
پاکستان شہری کو شہید کر کے ہندوستان نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کے ہاں
مسلمانوں کی آج بھی کوئی وقعت نہیں۔
|
|
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہندوستان کو یہ باور کرائے کہ
جبر و استبداد سے مسائل ختم نہیں بلکہ مزید گھمبیر ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ان کو
چاہیے کہ وہ کشمیریوں کو ان کے جائز حقوق دینے سے گریز کی پالیسی ترک کر
دیں۔ لیکن اگر وہ نہیں مانتے تو پھر ان پر یہ بات واضح کردی جائے کہ
پاکستان کشمیریوں کی حمایت ہر حال میں جاری رکھے۔ آخر میں اس بات پر کالم
کا اختتام کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہندوستان اپنی کرتوتوں سے باز نہ آیا تو
پھر اہل پاکستان بھی بنا کسی تفریق کے اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے
انشاءاللہ۔ پاکستان زندہ باد۔
|