پوٹھوہار کا مقدمہ

پاکستان کے ریجن میں بنیادی انسانی سہولیات آج کے جدید دور میں بھی ناپید ہیں ۔کوئٹہ ،تھر،راجن پور،چولستان سمیت کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پانی کی شدید قلت سمیت غذائی بحران ہے۔اگر صرف پنجاب کو ہی دیکھا جائے تو سرائیکی خطہ پسماندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پنجاب صرف لاہور کا نام بن کر رہ گیا ہے۔پوٹھوہار یعنی راولپنڈی ڈویژن میں بھی صرف شہری علاقے محض اس وجہ سے حکومتی عنایات سے مستفید ہیں کہ ایک طرف فیڈرل کیپٹل اسلام آباد ہے اور دوسری جانب جی ایچ کیو اور فوجی چھاؤنیاں ہیں ۔راولپنڈی شہر سے باہر نکلیں صرف ضلع راولپنڈی کی بات کریں تو نہ صحت کی مناسب سہولیات ہیں اور نہ تعلیم ہے۔ہاں تعلیم کے نام پر کاروبار ضرور جاری ہے ۔جو غریب طبقات کی برداشت سے باہر ہے۔یہی صورتحال صحت کی ہے کہ جس کے پاس کچھ وسائل ہیں وہ صحت خرید لیتا ہے ۔جبکہ غریب لوگ جانتے بوجھتے جعلی بابوں سے بصد مجبوری دم درود کراتے ہیں کہ ہم نے علاج تو کرایا ہے ۔اﷲ کو یہی منظور تھا۔یعنی صحت خریدنے کی سکت نہ ہونے کے باعث موت اﷲ کے کھاتے ڈال دی جاتی ہے۔صحت کے مسائل صاف پانی اور غذائی قلت سے جنم لیتے ہیں ۔پوٹھوہار ریجن میں صاف پانی کا شدید ترین مسلہ ہے۔گزشتہ پنجاب حکومت نے ایشائی ترقیاتی بنک کے تعاون سے راولپنڈی میں صاف پانی کی فراہمی کیلئے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا ۔جس کیلئے 34ایکڑ زمین خریدی گئی ۔اربوں روپے کی مشینری لگائی گئی لیکن حسب راویت مذکورہ منصوبہ کرپشن اور بدعنوانی کی نذر ہوکر کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے۔سابق خادم اعلیٰ نے خبر لی اور نہ ہی لاہور کے موجودہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو خبر ہے ۔یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے ۔ایسے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں منصوبے ہیں جوکرپشن اور بدعنوانی کی بھینٹ چڑھ کر قصہ پارنیہ بن چکے ہیں ۔غذائی قلت کی بات کریں تو اس کا حال صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے سے بھی برا حال ہے۔زرعی ترقیاتی ادارے اور ریسرچ کونسلز فائلوں کے پیٹ تو بھرتے ہیں مگر انسانوں کے پیٹ خالی رہتے ہیں ۔جو آخر کار بیماریوں کی آماجگاہ بن کر موت کا سبب بنتے ہیں ۔ایک انتہا روزگار اور مہنگائی کی ہے۔پوٹھوہار ریجن میں سرکاری ملازمتوں میں پوٹھوہارکا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اگر کہیں تھوڑا بہت حصہ ہے بھی تو وہ خدمات میں ہے یعنی پوٹھوہاری کیلئے درجہ چہارم کی ملازمتیں دستیاب ہیں ۔گزشتہ روز ایک سرکاری گرلز ہائی سکول میں جانا ہوا۔جانکاری لینے پر یہ بات سامنے آئی کہ پورے سکول میں سرکاری ملازمین میں صرف درجہ چہارم میں سوفیصد پوٹھوہاری ہیں ۔باقی وسطی پنجاب کے ملازمین ہیں۔تحقیقات کے بعد جو اعداد وشمار سامنے آئے وہ یہی ہیں کہ اسلام آباد راولپنڈی کے ہر سرکاری ادارے میں صرف درجہ چہارم میں پوٹھوہاری لوگ موجود ہیں ۔پرائیوٹ سیکٹر میں دس ہزار سے پندرہ ہزار کی عمومی ملازمتیں پوٹھوہاریوں کو دی جاتی ہیں ۔جس میں وہ اپنی زندگی کرتے ہیں ۔یہ ایک معمولی سی جھلک ہے۔مسائل کئی گنا زیادہ ہیں جو شاید شمار میں بھی نہیں آ سکتے ہیں ۔ تبدیلی مہنگائی کی شکل میں نمودار ہوئی ہے۔روزمرہ کی اشیائے ضروریہ سمیت بجلی،گیس کے بل جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں ۔

مندرجہ بالا یہی اسباب ہیں کہ پوٹھوہاری عوام اپنے الگ صوبے کی مانگ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔باشعور ،باخبر اور اہل فکر و دانش اس امر کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جب غربت اور تنگدستی برداشت سے باہر ہوتی ہے تو پھر دیواریں بولتی ہیں اور سٹرکیں بند ہوتی ہیں۔مگر عثمان بزدار کو کیا صورت ہے۔اس نے تو وہ کرنا ہے جس سے عمران خان کے دربار میں سند قبولیت ملتی رہے اور وقت گزرتا رہے۔مگر وہ نہیں جانتے کہ جب شہر بند ہوتے ہیں تو پھر وزیراعلیٰ کیا کیسی بادشاہ کی سواری بھی نہیں گزر سکتی ہے۔حکمرانوں کیلئے چتاونی ہے کہ نوبت شہروں کے بند ہونے سے پہلے پوٹھوہارریجن کو صوبائی یونٹ قرار دیاجائے ۔

Arshad Sulahri
About the Author: Arshad Sulahri Read More Articles by Arshad Sulahri: 139 Articles with 103801 views I am Human Rights Activist ,writer,Journalist , columnist ,unionist ,Songwriter .Author .. View More