سابق صدر مشرف سے منسوب ایک پریس کانفرنس عالمی نشریاتی
ادارے میں شائع ہوئی۔ جس میں سابق صدر نے مشورہ دیا کہ ’’پاکستان کو بھارت
کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔‘‘ مشرف نے
اعتراف کیا کہ ’’انہوں نے اپنے دور حکومت میں اسرائیل سے تعلقات کے قیام کے
لیے بہت کام کیا ہے۔‘‘ دبئی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشرف نے
کہا کہ ’’پاکستان اگر تھوڑی سی بھی کوشش کرے تو اسرائیل سے تعلقات بہتر
ہوسکتے ہیں۔‘‘ سابق سفیر ظفر ہلالی کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں ہر اس قدم کے بارے
میں سوچنا چاہیے جس سے پاکستان کو مضبوط کیا جاسکے۔‘‘ ان کے بقول، ’’اگر
حکومت اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں سوچ رہی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔‘‘
موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے، پاکستان اور اسرائیل تعلقات کے
حوالے سے موضوع بحث رہی ہے۔ نومبر2018 میں پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کی رکن
اسمبلی اسماء حدید نے ایک متنازع تقریر میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان
لڑائی ختم کرنے کے ضمن میں مختلف ’’حوالہ جات‘‘ دے کر عوام کو حیران کردیا،
حکمراں جماعت کی رکن اسمبلی کی اس متنازع تقریر کے ’’مقاصد‘‘ کیا تھے۔
اسماء حدید کی متنازع تقریر آن ریکارڈ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ بغیر کسی قطع و
برید کے باآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات
کی نوعیت کی ’’تبدیلی‘‘ کا کھلا مطالبہ کررہی ہیں۔ انہوں نے قرارداد تو پیش
نہیں کی تھی، لیکن جس پیرائے میں ’’تقریر‘‘ اور ’’وضاحت‘‘ دیتے ہوئے جو
حوالہ جات دیے، اس سے تشویش ضرور پیدا ہوئی۔ درپردہ اس کے مقاصد کیا ہیں،
اسے سمجھنا مشکل نہیں۔ پاکستان میں اسرائیلی طیارے کی آمدکے حوالے سے سوشل
میڈیا سمیت عالمی ذرائع ابلاغ میں خبر کو نمایاں کرکے پیش کیا گیا، یہاں تک
کہ وزیر خارجہ نے سختی سے تردید کی کہ کوئی اسرائیلی طیارہ پاکستانی حدود
میں داخل نہیں ہوا اور کسی اسرائیلی حکام سے کسی قسم کی کسی حکومتی شخصیت
کی ملاقات نہیں ہوئی۔ حسن ظن سے کام لیتے ہوئے ان کا موقف تسلیم کرلیتے ہیں۔
تاہم سابق صدر مشرف نے تو جس پیرائے میں بات کی، اُس پر اُن افواہوں کو
تقویت مل رہی ہے کہ ’’شاید اسرائیل کا پاکستان سے بہتر تعلقات کے لیے بیک
ڈور چینل کام کررہا ہے۔‘‘ مجھے 2014 کی حیرت انگیز خبر یاد آگئی، جب
انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کی جانب سے ایک ثقافتی شو کے انعقاد میں
اسرائیل کے لیے اپنا قومی دن منانے کی خاطر ایک اسٹال مختص کیا گیا تھا،
جسے یونیورسٹی طالبات نے شدید احتجاج کرکے ناکام بنادیا۔ انٹرنیشنل
یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ مینجمنٹ سائنسز میں اسرائیلی ثقافتی اسٹال
ویمن انٹرنیشنل ماڈل یونائیٹڈ نیشنز کی دوسری سالانہ کانفرنس کے موقع پر
لگایا گیا تھا۔ اسٹال میں موجود اسرائیل حامی طالبات نے اسرائیلی خواتین کا
روایتی لباس زیب تن کرکے اسرائیلی کھانوں کے علاوہ اسرائیلی ثقافت کے حوالے
سے پوسٹر بھی آویزاں کیے تھے۔
اس اسٹال کے ذریعے اسرائیل کو بطور امن و خوشحالی کا علمبردار ملک دکھانے
کی کوشش کی گئی تھی۔ بینرز پر From ISRAEL کے الفاظ نمایاں تھے۔ اسٹال کے
مرکزی بینر پر جس کے پس منظر میں اسرائیلی جھنڈے پر لکھا ہوا تھا ''Welcome
to the Land of Peace & Prosperity.'' انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے لیگل
ایڈوائزر ڈاکٹر عزیز الرحمٰن کے مطابق ’’اقوام متحدہ کے نمائندہ ممالک کے
اسٹال لگائے گئے تھے۔ طالبات نے بغیر اجازت اسرائیل کا اسٹال بھی لگایا اور
اس پر اسرائیلی ثقافت اور مصنوعات کو سجایا گیا تھا، جیسے ہی انتظامیہ کو
اس کا علم ہوا، اسے بند کروادیا گیا۔‘‘ یونیورسٹی انتظامیہ اور صدر (وائس
چانسلر) کی اجازت کے بغیر اسٹال لگانا ممکن ہی نہ تھا، بظاہر یونیورسٹی
انتظامیہ کے نائب صدر ڈاکٹر طاہر منصور کی سربراہی میں تحقیقات کے لیے ایک
کمیٹی قائم کردی گئی ہے، لیکن اس پروگرام کے انعقاد سے ملک بھر میں مذہبی
جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی۔ پاکستان میں فیصل نامی شخص نے حکومت پاکستان
سے خود کو یہودی تسلیم کرایا اور اسرائیل جانے کے لیے مطالبہ کیا، جس پر
سوشل میڈیا میں گرما گرم بحث جاری رہی۔ پھر پاکستانی فٹ بال ٹیم کے
کھلاڑیوں کی مقبوضہ بیت المقدس میں موجودگی نے پورے پاکستان کو ورطہ? حیرت
میں ڈال دیا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کوئی نہیں جاسکتا، یہ پاکستانی
فٹ بال ٹیم اسرائیل کیسے پہنچ گئی۔ پھر بتایا گیا کہ ان کی معاونت فلسطینی
حکومت نے کی تھی۔ جس سے لگتا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ والوں کے لیے اسرائیل
براستہ فلسطین جانے کا راستہ کھل چکا ہے۔
اسرائیل کے لیے پاکستان اور مسلم امہ کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی خاطر
ایسے سوالات بھی نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈالے جاتے کہ آخر مسلمانوں کو قبلہ
اوّل کی زیارت پر پابندی سے کیوں روکا جاتا ہے۔ مسلم امّہ کی اکثریت اس پر
یقین رکھتی ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ اوّل بیت المقدس تھا، اس لیے بیت المقدس
اور فلسطین سے محبت مسلمانوں کے ایمان کا جُزو ہے۔ برطانوی سازش کے تحت
یہودیوں کی غیر قانونی آبادکاری اور عرب ممالک کی کمزور عسکری قوت کو شکست
دینے کے بعد اسرائیل نے صہیونی ریاست کی بنیاد رکھی اور فلسطینی مسلمانوں
کو ان کے گھروں سے بے دخل کرکے جبر اور امریکی پشت پناہی سے غیر قانونی طور
پر یہودیوں کی بستیاں آباد کرنا شروع کردیں۔ امریکا کے لیے اسرائیل معاشی
شہہ رگ ہے، اس لیے اسرائیل کے ہر ظلم کو سلامتی کونسل میں ویٹو کرتا رہا۔
اسرائیل کا ظلم جتنا بڑھتا گیا، فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ مسلم اکثریتی
ممالک کی اخوت میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ اسرائیل مغربی طاقت کی بدولت طاقت ور
اور مضبوط ہوتا چلاگیا اور عرب ممالک سمیت دیگر مسلم اکثریتی ممالک اسرائیل
کے مقابلے کی سکت نہ ہونے کے باعث کمزور ہوتے چلے گئے۔
اسرائیل کے ساتھ بھارت سمیت کئی ممالک نے تعلقات استوار کیے اور امریکا کی
آنکھوں کا تارا بن گئے، تاہم بدقسمتی سے کئی عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ
بہتر تعلقات کے لیے اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتوں
اسرائیلی وزیراعظم کا ایک عرب مملکت کا دورہ اسی تبدیل ہوتی خارجہ پالیسی
کا تسلسل تھا، جس میں عرب مملکت میں قیام کے ساتھ پاکستان کے حوالے سے بھی
یہ افواہ گرم ہوئی کہ پاکستان میں اعلیٰ حکام سے اسرائیلی جہاز میں ہی
ملاقات ہوئی۔ یہ اکتوبر 2018 کا واقعہ تھا، جس کی پاکستان نے بھرپور تردید
کی، لیکن نومبر 2018 میں جب حکمراں جماعت کی رکن قومی اسمبلی نے اسرائیل کی
محبت میں تقریر کی اور قرارداد پیش کرنے کا معرکہ سر کرنا چاہا تو شدید
تنقید کے بعد قرارداد تو رک گئی، لیکن اسرائیل کے ساتھ ’’محبت‘‘ پھر بھی
قائم رہی۔
سابق صدر مشرف نے دبئی پریس کانفرنس میں اسرائیل کے ساتھ پاکستان کو بہتر
تعلقات بنانے کے لیے مشورے کے ساتھ اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت
میں کچھ کام بھی کیا تھا، جس کے بعد ضروری ہوجاتا ہے کہ ریاست کے مقتدر
اداروں کے سربراہان اس بابت تحقیقات کریں کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے
تعلقات اورحکمراں جماعت کی رکن اسمبلی کی قرارداد کی نوعیت کے پس پردہ کیا
عناصر ہیں۔ اسرائیلی طیارے، فٹ بال ٹیم سمیت متعدد واقعات پر بحث نہیں کرتے،
لیکن حکمراں جماعت سابق صدر کے مشورے پر غور کررہی ہے یا نہیں، اس پر ’’تحفظات‘‘
ہیں۔
|